تازہ تر ین

ایسا سانحہ جس نے وکلاءکی پوری نسل کو ہلا کے رکھ دیا

کوئٹہ (ویب ڈیسک)’وہ میری یادوں کا حصہ ہیں۔ وہ میرے ساتھ ہیں۔ ان کو نہیں بھلایا جاسکتا۔‘ایڈووکیٹ عندلیب قیصرانی جب بھی سانحہ آٹھ اگست میں بچھڑنے والے ساتھی وکلا کو یاد کرتی ہیں تو ان کی آنکھیں نم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔عندلیب آٹھ اگست 2016 کو سول ہسپتال کوئٹہ میں خود کش حملے کی نہ صرف عینی شاہد ہیں بلکہ وہ اس واقعے میں خود بھی شدید زخمی ہوئی تھیں۔اس سانحہ میں 56 وکلا سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ زخمی ہونے کے باعث اب عندلیب قیصرانی کے لیے چھڑی کے سہارے کے بغیر چلنا مشکل ہے۔جب بھی ان کے سامنے اس سانحے کا ذکر ہوتا ہے تو وہ یہ دعا کرتی ہیں کہ ’اللہ کسی کو بھی ایسا سانحہ نہ دکھائے‘۔’میں انسانوں اور چرند پرند سب کے لیے دعا کرتی ہوں کہ اللہ کسی کو ایسے حالات نہ دکھائے جس میں ان کے پیارے ان سے بچھڑ جائیں۔‘عندلیب کی طرح جو لوگ اس سانحے میں زخمی ہوئے تھے وہ زیادہ تر وکیل تھے۔اس واقعے میں زخمی ہونے کے باعث عندلیب قیصرانی کو پہلے کے مقابلے میں چلنے پھرنے میں مشکل تو پیش آتی ہے لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ ہر روز عدالت آتی ہیں اور مقدمات کی پیروی کرتی ہیں۔اس خود کش حملے میں وکلا کو نشانہ بنایا گیا جس کے حوالے سے منظم منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پہلے ایک وکیل رہنما بلال انور کاسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور جب ان پر حملے کی خبر سن کر وکلا کی بڑی تعداد سول ہسپتال پہنچ گئی تو وہاں پہلے سے موجود ایک خود کش حملہ آور نے ان کو نشانہ بنایا۔اس خود کش حملے میں وکلا رہنماو¿ں کی بھی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی تھی جن میں ایڈووکیٹ باز محمد کاکڑ بھی شامل تھے۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وکلا تحریک میں بھرپور شرکت کے باعث باز محمد کاکڑ جدوجہد کی علامت بن گئے تھے۔ باز محمد کاکڑ کی ہلاکت کے ڈھائی ماہ بعد ان کے ہاں دوسرے بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی جس کا نام شیرباز رکھ دیا گیا۔ان کے بڑے بیٹے آریان کی بھی عمر کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ والد کی یاد آتی ہے تو وہ غمگین ہوجاتے ہیں لیکن وہ جب اپنے چھوٹے بھائی شیر باز کو دیکھتے ہیں تو اس سے والد کے بچھڑنے کا غم کسی حد تک کم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کی طرح وکیل بنیں گے۔اس سانحے میں ہلاک ہونے والے وکلا میں سے اکثر کا تعلق متوسط اور غریب گھرانوں سے تھا۔وکیل رہنما شاہ محمد جتوئی کا کہنا ہے کہ سانحہ سے متاثرہ خاندان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔دیگر مشکلات کے علاوہ اس سانحہ میں جان کی بازی ہارنے والے وکلا کے بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوئی۔ اگرچہ حکومت نے ہلاک ہونے والے وکلا کے بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کا وعدہ کیا تھا لیکن وکلا رہنما اس بات پر شاکی ہیں کہ اس وعدے پر زیادہ عملدرآمد نہیں ہوا۔اس خود کش حملے میں پڑھے لکھے افراد کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت کے باعث بلوچستان کے سیاسی حلقوں نے اس سانحے کو سنہ 1935 کے زلزلے کے بعد نقصان کے حوالے سے دوسرا بڑا واقعہ قرار دیا تھا۔وکلا کی بڑی تعداد میں ہلاکت کے باعث بلوچستان میں عدالتی نظام بھی متاثر ہوا۔ایڈووکیٹ اور انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ اس سانحہ میں وکلا کی ’کریم‘ ہلاک ہوئی جس کے باعث عدالتی نظام میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ اس سانحہ کے جو اصل ذمہ دار تھے ان کو بے نقاب کرنا اور ان کو پکڑنا ضروری تھا لیکن ایسا نہیں ہوا جس کے باعث بلوچستان میں پروفیشنلز ایک خوف میں مبتلا ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وکلا کو جس ظلم کا نشانہ بنایا گیا اس کا ازالہ نہیں ہوا۔ ’میرے خیال میں صرف پیسہ دینا کسی ظلم اور ناانصافی کا ازالہ نہیں ہوتا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ازالہ اس وقت ہوگا جب اس حوالے سے عدالتی کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد ہوگا اور اس سانحے کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرکے پکڑا جائے گا۔تاہم سابق حکومت میں حکام نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سانحے کے جو بھی ذمہ دار تھے وہ سکیورٹی فورسز کی کاروائیوں میں مارے گئے۔حکام کے مطابق اس نوعیت کے واقعات میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کے لواحقین کے مقابلے میں سانحہ آٹھ اگست میں ہلاک ہونے والے وکلا کے لواحقین کو نہ صرف زیادہ معاوضہ دیا گیا بلکہ اس حوالے سے وکلا تنظیموں کے جو مطالبات تھے ان پر بھی زیادہ سے زیادہ عملدرآمد کیا گیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv