لندن(ویب ڈیسک)پروسیڈنگزآف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسس میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو لندن اسکول آف ہائیجن اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے ماہرین نے تحریر کیا ہے جو ایک مطالعے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عالمی تپش میں اضافے سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جو پانی کی قلت سے دوچند ہوجائے گا۔ اس سے دنیا کے کئی ممالک میں خوراک کی شدید قلت واقع ہوجائے گی۔سروے کے مطابق جنوبی ایشیا، جزوی افریقا اورجنوبی یورپ اس سے ذیادہ متاثرہوں گے۔ اس سروے میں 1975 سے اب تک چھپنے والی 174 رپورٹوں کا بغور جائزہ لیا گیا ہے جس میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے فصلوں اور ان کی غذائیت کے اثرات نوٹ کئے گئے ہیں۔پہلے خیال تھا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے سے زراعت بڑھ سکتی ہے لیکن اب کہا گیا ہے کہ یہ اضافہ دیگر گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج سے منفی ہوجائے گا۔ اس طرح پانی کی فراہمی سب سے ذیادہ متاثر ہوگی۔ماہرین نے کہا ہے کہ اگرہم نے معاملات ایسے ہی چلنے دیئے اور کوئی عمل نہ کیا تو سبزیوں کی پیداوار میں عالمی سطح پر ڈرامائی کمی واقع ہوگی۔ ایک اورمطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ گرمی میں اضافہ مکئی کی کاشت کو شدید نقصان پہنچائے گا جو اس وقت عالمی سطح کی ایک اہم زرعی جنس بھی ہے۔ماہرین نے ایسی فصلوں اورسبزیوں پر زور دیا ہے جو بلند درجہ حرارت برداشت کرتے ہوئے بہتر پیداوار دے سکیں بصورتِ دیگر آج کی سبزیاں کل بہت مہنگی اورناپید ہوجائیں گی تاہم یہ تمام پیشگوئیاں اس صدی کے اختتام تک کی ہیں اور اس وقت تک ہمارے پاس غور اور تحقیق کے لیے خاصا وقت ہے۔