تازہ تر ین
ziaaaaaaa

چیف جسٹس ،وزیر اعظم ملاقات ،اگلے تین چار ماہ دونوں کا پیچھا کریگی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ فریادی کا لفظ چونکہ نوازشریف کو اچھا نہیں لگا اس لئے وزیراعظم نے بھی دہرا دیا۔ وہ سمجھتے ہوں گے کہ اس سے ان کی کوئی توہین ہوئی ہے لہٰذا انہوںنے کہہ دیا کہ عوام کا فریادی بن کر گیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی خود وزیراعظم ہیں ان کو چیف جسٹس کے پاس مسائل لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ یہی مسئلہ لے کر جا سکتے ہیں کہ چیف صاحب آپ جو مداخلت کر رہے ہیں اس سے ہمارے لئے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔ فریاد والی بات کی تو خود چیف جسٹس نے تردید کر دی ہے۔ البتہ لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ انہوں نے یہی کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان سیاستدان ہیں ان کا فل ٹائم مشغلہ سیاست ہے۔ گیس کی وزارت ہو یا ایئربلیو کے 2 طیارے جو اسلام آباد کے گردونواح میں گر کر تباہ ہو گئے تھے۔ اگر شاہد خاقان عباسی حکومت میں رہتے ہوئے اتنے بااثر نہ ہوتے تو کچھ نہ کچھ ملبہ ان پر بھی پڑنا تھا۔ سیاست میں لوگ ہوتے ہی اسی لئے ہیں کہ ان کی بڑی بڑی غلطیوں پر بھی ان کی باز پرس نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ افتخار چودھری کی بات ”چیف جسٹس کو ون ٹو ون ملاقات نہیں کرنی چاہئے تھی‘’ اس سے بہتت سارے لوگ اتفاق کریں گے۔ زیادہ بہتر ہوتا اگر چیف جسٹس و وزیراعظم کے ساتھ ایک ایک ممبر اور ہوتا۔ حالانکہ ثاقب نثار صاحب نے خود وضاحت کر دی لیکن میں اخبار نویس ہونے کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ کم از کم یہ معاملہ 4,3 مہینے زیر بحث رہے گا، ہر کوئی اپنی مرضی کی تعبیر کرے گا۔ نوازشریف نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور فریادی کے لفظ پر طنز کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن سر پر ہیں جس کی وجہ سے تمام سیاستدانوں میں تلخی محسوس ہوتی ہے اگر وزیراعظم نے بھی کچھ سخت بول گئے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ البتہ ان کا نیب عدالت سے انصاف نہ ملنے کے بیان سے لگتا ہے کہ انہیں سزا ملنے کا خدشہ ہے۔ جس عدالت یا ادارے سے سزا ملنے کا خدشہ ہو یا ماضی میں کوئی سرزنش ہوئی ہو، ایسی صورت میں کوئی ایسا بیان دے سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار نوازشریف پر صرف ایک ہی الزام لگا اور ان کی حکومت معطل ہو گئی، اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے حکومت کو بحال کر دیا۔ اس سے پہلے اسی الزام کی بنیاد پر 58/2B کے تحت صدر نے بے نظیر کی حکومت کو معطل کر دیا تھا۔ محترمہ نے کہا تھا کہ ”ایک ہی قسم کا جرم تھا، سپریم کورٹ نے میری حکومت کے خاتمے کو جائز اور نوازشریف کی فتح ہوئی حکومت کو بحال کر دیا۔“ یہ انہوں نے تاریخی جملہ کہا تھا پھر وہ مسلسل اس بات کا ذکر کرتی رہیں، انہوں نے کہا ”نوازشریف کے حق میں جو فیصلہ آیا ہے یہ چمک کا نتیجہ ہے۔“ سب جانتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ مال وغیرہ لگا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کی طرف سے مختلف لوگوں کے خلاف دھواں دار الزامات کی بارش کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے۔ تجزیہ کار پی جے میر نے کہا ہے کہ ملالہ کو دنیا میں پلیٹ فارم مل گیا، اس نے نام کمایا۔ ان کو موقع مل گیا جس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا جبکہ شہید اعتزاز احسن کو کوئی ایوارڈ بھی نہیں ملا۔ بدقسمتی و افسوسناک ہے کہ ملالہ ہی کے سکول میں پڑھنے والا بچہ ولی جس کو 8 گولیاں لگی تھیں وہ آج بھی اسی سکول میں پڑھ رہا ہے اس کو بھی موقع نہیں ملا۔ شہید اعتزاز احسن و بچہ ولی کو وہ ایوارڈ نہیں ملے جو ملالہ کو ملے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملالہ پاکستان میں رہ کر کچھ بھی نہیں کر سکے گی۔ اسے باہر جا کر پاکستان پرامن ملک کے حوالے سے آواز بلند کرنی چاہئے۔ یہاں رہیں تو ان پر دوبارہ حملہ ہو گا، اس کو مار دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ کو انٹرنیشنل ہیومن رائٹس تنظیموں نے پسند کیا اور بلند کیا جبکہ ایسا موقع شہید اعتزاز و بچہ ولی کو نہیں ملا۔ جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ نے کہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کی کتاب ”آئی ایم ملالہ“ پاکستان، پاک افواج کے خلاف تھی۔ ہمارے ملک و فوج نے ان کی جان بچانے کیلئے بہت بڑا قدم اٹھایا لیکن اس نے جو کیا وہ افسوسناک ہے۔ ان کی جانب سے کبھی بھارت و مغرب کی تعریفیں، اسلامی کلچر پر تنقید تو کبھی اسلام کے دیئے گئے عورت کے حقوق کو تضحیک نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ قربانیاں دینے والے دور میں ان میں ڈاکٹر عافیہ، خاتون استاد نورین، شہید اعتزاز احسن و بچہ ولی وغیرہ شامل ہیں۔ جن کی دہشتگردی کے خلاف قربانیاں ہیں اور خود اس کا نشانہ بنے ہیں۔ ان کی یا ان کے لواحقین کی جانب سے پاک فوج، اسلام یا اس کے کلچر کے خلاف کبھی ایک لفظ نہیں کہا گیا لیکن ملالہ کا مسلسل ایک بیانیہ چل رہا ہے۔ جو سوالیہ نشان ہے۔ ہم نہیں چاہتے تھے لیکن ملالہ حود متنازعہ بن رہی ہیں۔ ملالہ کو جس طرح کا پروٹوکول دیا، وزیراعظم سے ملاقات کروا کر جس طرح پیش کیا جا رہا ہے یہ حکومت کا کمزور رویہ اس سے عالمی سطح پر جو تاثر قائم ہے اس کو تقویت ملے گی، جس طرح کے ملالہ کے بیانئے چل رہے ہیں۔ حکومت کو اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ نمائندہ چینل ۵ قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ چند دنوں میں 3 بچے اغوا ہو چکے ہیں، جن کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ پولیس خودکو بچانے کے لئے مقامی سیاستدانوں سے مل کر احتجاج رکوانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود تحریک لبیک نے گزشتہ روز بہت بڑا احتجاج کیا اور بچوں کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سب سے پہلا واقعہ حسین خان والا میں پیش آیا تھا جہاں 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، مقدمات درج ہوئے لیکن پولیس کے ریلیف دینے کی وجہ سے ملزمان بری ہو گئے۔ اس کے بعد زینب قتل کیس سامنے آیا پھر پتہ چلا کہ اس سے پہلے 11 بچیوں کو اغوا کیا پھر زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ ملزم عمران نہ پکڑا جاتا تو یہ سلسلہ بھی سامنے نہ آتا۔ زینب کے قاتل عمران کو مقتولہ ہی کے لواحقین نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا، پولیس نے خود نہیں پکڑا تھا۔ زینب واقعے کے چند ہفتے بعد ہی اب چند دنوں میں قصور سے یکے بعد دیگرے 3 معصوم بچے اغوا ہو گئے ہیں۔ آخری بچہ گزشتہ ہفتے بستی چراغ شاہ قصور سے اغوا ہوا جس کا نام محمد فائق ہے اور وہ ایک فوجی کا بیٹا ہے۔ فائق کی والدہ نے چینل ۵ سے گفتگو میں کہا ہے کہ پولیس سے کوئی امید نہیں، چیف جسٹس و آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کرتے ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv