تازہ تر ین

انسانی اعضاءعطیہ کیے جا سکتے ہیں ، وصیت کرنا درست نہیں ، علما ءکرام

لاہور، ملتان (خبرنگار، سپیشل رپورٹر) بعض عرب علماءکی رائے میں کچھ شرائط کے ساتھ اعضا عطیہ کئے جاسکتے ہیں۔مگراعضا کو وصیت کرنا درست نہیں ہے ورنہ ملک میں ان کی منڈی کھل جائے گاان خیالات کا اظہارانسانی اعضا کو عطیہ کرنے کے حوالے سے روزنامہ خبریں سے گفتگو کرتے ہوئے جامعہ اشرفیہ کے دارالافتا کے ناظم مفتی شاہد عبید نے کیا۔انہوں نے کہا کہ اسلامی نقطہ نظر سے انسانی اعضاءکو یو عطیہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ انسانی جسم دینی لحاظ سے انسان کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کریم کی اسے امانت ہے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انسانی خون بہہ جانے والی چیز ہے اور اس کی مثال دودھ سے لی جاسکتی ہے جو ماں اپنے بچے کو پلاتی ہے لیکن کسی درجے میں اور کچھ قیود کے ساتھ بعض عرب علماءاس کی اجازت دیتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ عطیہ کرنے والے شخص کو ڈاکٹر اس بات کی گارنٹی دے کہ اس سے اس کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی رقم لی ہواور دوئم جو شخص عطیہ لے رہا ہو اس کی زندگی ان اعضا کی پیوندکاری کے بغیر بچانا ناممکن ہوجائے وہاں اس حوالے سے یقینی گنجائش موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ اعضا کو یت کرنا بالکل درست نہیں ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں اس کی منڈی کھل جائے گی بلکہ کچھ صورتوں میں تو لوگوں نے صرف موبائل خریدنے کے لیے اپنا گردہ تک فروخت کردیا ہے۔ دارالعلوم عبیدیہ ملتان کے صدر مفتی عبدالقوی نے کہا ہے کہ ضیاشاہد اور ان کی اہلیہ کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی بعداز وفات اپنے جسمانی اعضاءکی وصیت کی بابت جو تحسین کی گئی ہے وہ اس دور کے مصر، مراکش، ایران، عراق اور سعودی عرب کے اہل فتویٰ علمائے کرام کے ہاں شرعاً درست ہے اور ان اہل فتویٰ علمائے کرام کی تحقیق کے مطابق اسلامی ریاست میںبسنے والے معذور افراد کو ان جسمانی اعضاءکی ضرورت ہو تو اسلامی ریاست کے زندہ افراد پر لازم ہے کہ وہ وصیت کریںکہ بعداز وفات ان کے تمام ایسے اعضاءجو زندہ افرادکی معذوری کو ختم کرسکتے ہیں اور وہ ایک صحت مند انسان جیسی زندگی مسلم معاشرہ میں گزار سکتے ہیں تو زندہ افراد پر واجب ہے کہ وہ نابینا افراد کے لئے اپنی آنکھیں، مریض افراد کے لئے جگر، گردہ، دل اور لبلبہ کی وصیت کریں تو ان کی یہ وصیت قابل عمل ہے اور وہ افراد قابل تحسین ہیں جو عطیہ دیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش کے اہل فتویٰ علمائے کرام نے اعضاءکی پیوندکاری، زندگی میں دوسرے زندہ افراد کے لئے اپنے انسانی اعضاءکو عطیہ کرنے کی اجازت دی ہے جس طرح کہ آج کل خون، گردہ، جگر، ہڈیوں کاگودا عطیہ کیا جارہا ہے اور برصغیر کے علمائے کرام کے اس عمل کو درست ہونے کا فتویٰ دیا ہے تو یقینا پاکستان کے اہل فتویٰ علمائے کرام بعداز وفات انسانی جسم کے اعضاءکو عطیہ کرنے کے عمل کو مثبت اندازسے ہی دیکھیں گے اور فقہی اجتہاد کے ذریعے ہمسایہ مسلم ملک ایران کے علمائے کرام کے فقہی اجتہاد کی روشنی میں ایران میں قانون سازی ہو چکی ہے اور ایران میں تقریباً ہر ایرانی اپنی وفات سے قبل اسی طرح کی وصیت کرتا ہے جس کے مطابق اس کے اعضاءکو بعد از مرگ اس کے جسم سے نکال لیا جاتا ہے۔ ایران اور عراق کے مجتہدین کے ہاں اگر کوئی شخص زندہ افراد کےلئے اعضاءکے عطیہ کی وصیت نہ کرے جبکہ مسلم ریاست میں معذوری کے خاتمے کے لئے مردہ افراد کے اعضاءکی ضرورت ہو تو مسلم حکومت پر لازم ہے کہ وہ ان کے اعضاءکو نکالے اوراس کی دیت اس کے ورثاءکو ادا کردی جائے۔ ایرانی علاقے کے اس اجتہاد اورفتوے کے باعث ایران دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے جو انسانیت کو انسانی اعضاءکے عطےے میں اپنا کردارادا کررہا ہے۔ مفتی قوی نے کہا کہ سیدنا صدیق اکبرؓ نے قبل از وفات ایک حکیمانہ جملہ کہا کہ مجھے نئے کپڑوں میں دفن نہ کیا جائے کیونکہ زندہ لوگوں کا نئے کپڑوں پر زیادہ حق ہے، اس لئے آج بھی معذوری کے خاتمے کے لئے اور مسلم معاشرے میں صحت مند افراد کی موجودگی کے لئے سیدنا صدیق اکبرؓ کے فرمان پر عمل کرنا ہوگا کہ زندہ لوگ مردوں سے زیادہ ضروریات زندگی کے مستحق ہیں۔ جامعہ انوارالعلوم کے مفتی غلام مصطفی رضوی نے کہا ہے کہ انسانی اعضاءبعداز مرگ انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی امانت ہیں لہٰذا ان کا عطیہ کوئی بھی انسان اپنی زندگی میں نہیں دے سکتا اور اس حوالے سے کوئی وصیت بھی نہیں کرسکتا۔ تنظیم وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے کہا ہے کہ ہماری فقہ کے مطابق انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے زندگی میں بھی اور بعداز موت بھی وہ صرف اس امانت کی حفاظت کرسکتا ہے اس میں خیانت نہیں البتہ وہ اپنی ذاتی ملکیت جائیداد و دیگر اشیاءکی وصیت اپنی زندگی میں کرسکتا ہے جوکہ بعداز موت اس کی وصیت کے مطابق تقسیم ہوسکتی ہیں مگر اعضاءکی وصیت ہمارے فقہ کے مطابق جائز نہیں ہے۔ مہتمم جامعہ اسلامیہ فرخ ٹاﺅن مفتی عبدالحنان شاہین نے بھی کہا کہ مکتبہ اہلحدیث میں انسانی اعضاءاللہ کی امانت ہیں جس کو انسان اپنی مرضی کے مطابق تصرف میں نہیں لاسکتا ہاں البتہ تھوڑی سی گنجائش صرف اس شرط پر ہمارے فقہ میں رکھی گئی ہے کہ جب یہ طے ہوجائے کہ انسان کی زندگی اب باقی نہیں رہنی تو وہ اعضاءزندگی میں دے سکتا ہے مگر بعداز موت نہیں دے سکتا۔ پیش امام مسجد و امام بارگاہ شاہ یوسف گردیز ملتان کے مفتی عون رضا نقوی نے کہا ہے کہ شیعہ مذہب میں اعضاءکی خریدوفروخت زندگی میں اور بعداز موت جائز نہیں تاہم اللہ کی راہ میں عطیہ کیا جاسکتا ہے جوکہ ہماری فقہ کے مطابق عین ثواب ہے۔ سید محمد کاظم نقوی مدرسہ جامع مخزن العلوم الجعفریہ سورج میانی نے کہا کہ ہمارے مرجہ آیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ خامنائی کے فتوے کے مطابق اعضاءکی پیوند کاری پر اگر کسی مسلمان کی زندگی موقوف ہو تو اس کو میت کے اعضاءلگانا جائز ہے اور کسی شخص کو اپنے اعضاءکے متعلق وصیت کرنا بھی جائز ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv