تازہ تر ین

چیف جسٹس سے درخواست کرونگا کہ اعضا ءکے عطیہ کیلئے ادارے بنوائیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جب میں ایم اے عربی کر رہا تھا تو حدیث میں پڑھا تھا اور اساتذہ کا کہنا تھا کہ مولوی صاحبان اس کو عجیب لفظ دیتے ہیں ”مسلہ“ ناجائز ہے ”مسلہ“ کا مطلب ہے زندہ انسان کے جسم کے حصے کو کاٹنا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں جو چیف جسٹس صاحب نے کہی۔ پہلی بات یہ ہے، سب سے پہلے 35 سال پہلے عالم اسلام کا بڑا دینی مرکز پرانی یونیورسٹی جامع الازہر ہوتی تھی۔ مصر میں جامع الازةر کے مفتیان نے اس کے حق میں فتویٰ دیا۔ اور کہا کہ یہ جائز ہے بلکہ لازماً ایسا کرنا چاہئے۔ اگر کوئی مستحق فوت ہونے کے بعد۔ فوت ہونا تو بعد کی بات ہے۔ آپ کو پتا ہے جو جگر ہے۔ یہ بھی اگر زندگی میں بھی کسی کو حصہ دینا چاہیں تو پورا جگر نہیں کاٹتے بلکہ کچھ حصہ کاٹ کر دوسرے کو ٹرانسپلانٹ کر دیتے ہیں۔ آپ بھی زندہ رہتے ہیں اور دوسرا بھی بچ جاتا ہے۔ ڈاکٹر وقار صاحب میرا پہلا سوال ہے کہ کل چیف جسٹس صاحب کی خبر پڑھی انہوں نے بعد از مرگ اپنے جسم کے تمام اعضاءمستحق مریضوں کے لئے عطیہ کر دیئے ہیں۔ میں ایک مدت سے سوچ رہا تھا۔ میں اور میری بیوی۔ چنانچہ ہم نے کل ہی فیصلہ کیا اور آج اخبار میں اشتہار بھی دیا ہے کہ ہم باقی لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں۔ مذہبی طور پر جب میں ایم اے میں پڑھتا تھا۔ اس وقت جامعہ الازہر جو مسلمانوں کی عظیم درس گاہ سمجھی جاتی تھی۔ اس میں انہوں نے یہ فتویٰ دیا تھا۔ بعد از مرگ اپنے جسم کے اعضاءدینا۔ جس سے دوسرے لوگ بچ سکیں۔ وہ جائز ہے۔ اس کے بعد ملائیشیا کے علماءنے بھی اس پر فتویٰ دیا۔ ایک زمانے میں ایران کے شہم ”قم“ میں بھی بہت بحث چلی تھی۔ میں گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ جو کچھ بھی میں نے اور میری بیوی نے فیصلہ کیا۔ میرا آپ سے سوال یہ ہے۔ آپ تو گردہ کے اسپیشلسٹ ہیں پاکستان کی اس تنظیم کے آپ سربراہ ہیں۔ پاکستان میں گردے کے کل مریض کتنے ہیں اور کتنے مریض ایسے ہیں جنہیں گردہ ٹرانسپلانٹ کے لئے مل جائے۔ تو وہ صحت یاب ہو سکتے ہیں۔ ذرا آپ فیکٹ اینڈ فیگر دے دیجئے۔ ہم اس کے دو تین دن میں پروگرام بنانے جا رہے ہیں اور اخبار میں بھی دو کلر پیچ بنائیں گے کہ اس کا پروسیس کیا ہے اس کا طریقہ کیا ہے اور کس طرح سے آپ اپنی زندگی میں ہی۔ ایک اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دیں گے۔ اس کی ایک کاپی قریب ترین ہسپتال میں رجسٹر ہو گی۔ جونہی آپ اس دنیا سے جائیں گے آپ کے گھر والے اخلاقی اور قانونی طور پر آپ کی وصیت کی وجہ سے پابند ہوں گے اور فوری طور پر اس ہسپتال میں جہاں آپ نے رجسٹریشن کروائی ہوئی ہے۔ آپ کی باڈی کو پہنچائیں۔ دوسری بات یہ اس راستے میں دو چیزیں رکاوٹ تھیں ایک تو پرانے مولوی صاحبان کا تصور۔ اس میں پوچھنا پڑے گا۔ اجتہاد ہونا چاہئے۔ آج سے 30 سال قبل تصویر بنوانا گناہ تھا۔ آج کون مولوی صاحب ہیں جن کی بیگم صاحبہ عمرہ کے لئے جائیں گی۔ حج کے لئے جائیں گی شناختی کارڈ بنوائے گا۔ اس کی تصویر ہو گی۔ ماضی میں اسپیکر کو حرام قرار دیا گیا۔ آج سب استعمال کرتے ہیں۔ جاوید اکرم صاحب آج ہم بحث کر رہے ہیں میں نے اور میری بیوی نے آج اخبار میں لکھا ہے کہ ہم نے بھی اپنے جسم کے اعضاءجو مرنے کے بعد کام دے سکتے ہیں۔ ان کو عطیہ کیا ہے۔ آپ فرمایئے پاکستان میں کون کون سے اعضاءاستعمال ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم لکھ کر بھی دے دیں تو گھر والے کیا واقعی ہسپتال پہنچا دیں گے۔ کوئی ادارہ ہمارے اعصاءلے لے گا۔ تھوڑی سی روشنی ڈالیں۔ آپ پمز میں اہم عہدے پر ہیں ساری عمر ٹاپ کے ڈاکٹر رہے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی لوگ سری لنکا کی طرح آنکھ کا عطیہ بھی دینا شروع کر دیں تو آپ کے خیال میں پاکستان میں کتنے نابینا لوگ اس کارنیا کو لگا کر کتنے فیصد مریض ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ آج مجھے چیف جسٹس صاحب کا پیغام ملا تھا۔ اگر ہم چیف جسٹس صاحب سے درخواست کر سکتے ہیں۔ خط لکھ سکتے ہیں کہ جناب آپ نے کیا اور بہت سارے لوگ بھی اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ یہ تجویز کر سکتے ہیں کہ ”آپریشن“ کیا ہونا چاہئے۔ اس کو یقینی بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے جناب! آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ جناب بعض آرگن ایسے ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں بھی عطیہ کر سکتے ہیں۔ انسان ایک گردےے سے بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ لہٰذا ایک گروہ کسی عزیز یا بھائی کو دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے جگر کا ایک حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں دل کی ٹرانسپلانٹ ابھی پاکستان میں نہیں ہوتی۔ اس کے لئے کون کون سے کام شروع ہو چکے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میں آپ کی طرف سے اور پروڈیوسر شکیل صاحب کی طرف سے اعلان کروں کہ ہمارے دو ساتھیوں نے بھی اس بات کو محسوس کیا۔ اصل میں یہ ایک نفسیاتی خوف ہے پرانے مولویوں کی یہ بات کہ شاید ناجائز ہے۔ جب زندگی کے خاتمہ کے بعد جب آپ نے قبر میں لیٹ جانا ہے اور لوگوں نے مٹی ڈال کر گھروں کو چلے جانا ہے۔ اس کے بعد بھی آپ کے جسم کا آرگن۔ ساتھ لوگوں کو زندگی دے رہا ہو۔ دین میں اس کی منع کیسے ہو سکتی ہے کہ مرتے مرتے بھی سات لوگوں کو زندگی دے کر چلے گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ مرے ہوئے شخص کے جسم پر پٹیاں بندھی ہوئی ہوں۔ جب مرنے کے بعد حساب کے لئے کھڑا کیا جائے گا تو صحیح اور سالم شکل میں کھڑا کیا جائے گا۔ دراصل وہ ابدی زندگی ہے۔ آپ جنت میں جائیں دوزخ میں جائیں یا برزخ میں رہیں۔ ہمارے معاشرے میں قدامت پسندی کی وجہ سے پستی موجود ہے۔ آج میں نے اور میری بیوی نے اعلان بھی کیا اور فرنٹ پیج پر اشتہار بھی چھاپا ہے۔ اور چیف جسٹس کو خط بھی لکھا ہے کہ لوگوں کو تحفظ کریں۔ ہم کس طرح اس کو یقینی بنائیں گے کہ حریدو فروخت نہ ہو۔ آنکھوں کے حوالے سے کنے فیصد لوگ موجود ہیں جنہیں کارنیا مل جائے تو وہ تندرست ہو سکے۔ آپ کے خیال میں اتنی بڑی نیکی۔ اس دنیا سے ہر بندے کے رخصت ہونا ہے۔ دنیا سے جانے کے بعد کسی کو آپ کی آنکھوں کی روشنی مل جائے اس سے بڑا نیکی کا کام نہیں ہو سکتا۔ سیاسی طور پر سب کو حق حاصل ہے کہ جسے چاہے ووٹ دے۔ ایک تاریخی حقیقت سامنے لانا چاہتا ہوں۔ میرے بہت دوست تھے۔ اس گھر میں بھی۔ یہ اوپر۔ امتنان صاحب کا گھر۔ یہاں پہلے عدنان صاحب رہتے تھے۔ سب سے اوپر کی منزل پر۔ اس میں فاروق لغاری صاحب تشریف لائے۔ میرے گھر ماڈل ٹاﺅن میں بھی تشریف لائے۔ کھانے پر آئے میری بڑی دوستی تھی ان سے۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ذاتی طور پر آپ ان کے خلاف ہوں یا حق میں مجھے کوئی غرض نہیں۔ بہت نفیس آدمی تھے۔ بہت پڑھے لکھے بندے تھے۔ وہ پہلے بیورو کریٹ اور بڑے افسر تھے۔ بعد میں وہ سیاست میں آئے پانچ وقت کے نمازی ہونا تو معمولی بات ہے۔ وہ تہجد گزار شخص تھے۔ انہوں نے ایک پیسے کی بے ایمانی نہیں کی۔ جب وہ وزیر خزانہ تھے اور بینظیر وزیراعظم تھیں۔ اتنے لوگوں کو تکلیف تھی۔ وہ کہتے تھے کسی کا کام نہیں کرتے۔ بی بی نے اس لئے کہا کہ اسے صدر بنا دو۔ 58/2B کے سوا اس کے پاس کوئی اختیار تھا ہی نہیں۔ میں نے جمال کو بھی اویس کو بھی۔ ان کے سامنے عزت سے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ جس شخص نے 58/2B کے تحت بینظیر کو کرپشن پر فارغ کیا اور نوازشریف صاحب کو اس بنیاد پر نکالا۔ اس کے دونوں بیٹے طلب زر کے لئے منافع کے لئے استدار کے لئے۔ حکومت کے لئے۔ ایم این اے بنے کے لئے، وزیر بننے کے لئے اپنے باپ کی تعلیمات کو پرے نکال دیا۔ وگرنہ وہ ان کی قبر پر یعنی اپنے باپ کی قبر پر تھوک رہے ہیں۔ اچھی طرح پتا ہے دونوں کو نوازشریف کے بارے ان کے باپ کی کیا رائے تھی۔ بینظیر بھٹو کے بارے کیا رائے تھی۔ انہوں نے برائی کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔ خدا ان دونوں کو عقل سلیم دے۔ یہ دولت کے لئے اندھے ہو چکے ہیں۔ ان کے کان بند ہیں۔ پوری زندگی کی کاوش اپنے باپ کی انہوں نے برباد کر دی ہے۔ سیاست میں بالواسطہ بھی رابطے ہوتے ہیں۔ آرمی چیف نے دو مرتبہ شہباز شریف سے ملاقات کی۔ ہے۔ سمجھ نہیں آتی۔ ایک میڈیا ہاﺅس کے بارے خود آرمی کا کیا کہنا ہے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ ایجنسیوں کی کیا رائے ہے میں نہیں کہنا چاہتا عمران خان کا کیا کہنا ہے میں کچھ نہیں چاہتا لیکن سب جانتے ہیں۔ ایک میڈیا ہاﺅس ماﺅتھ پیس لئے اس وقت محمد نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کا۔ لہٰذا انہوں نے ایک خبر چلا دی ہے۔ ان کے پاس فرشتے ہیں یا ان کے پاس کبوتر ہیں۔ ان کے ہاں چڑیاں ہیں۔ میرے حساب سے پاکستان کی آرمی کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ وہ شخص قرآن پر حلف دے کربتایا کہ چیف جسٹس سے نہیں ملا اور ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ الیکشن وقت پر ہوں گے۔ گردہ سپیشلسٹ، پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال کوئی 22 ہزار لوگوںکے گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے پچاس فیصد شوگر کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ڈائیلاسز پر چلے جاتے ہیں۔ ان کی تعداد ہمیں نہیں معلوم۔ امید ہے ایک سال بعد اس قابل ہو جائیں گے کہ یہ فیگرز جمع کر کے بتا سکیں۔ لیکن ان 22 ہزار میں سے صرف 800 کے قریب لوگ ٹرانسپلانٹ کروا پاتے ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ گردہ عطیہ کرنے والا موجود نہیں ہوتا۔ مریض ساری عمر ڈائیلاسز پر رہتا ہے اور بالآخر فوت ہو جاتے ہیں اسلام میں کسی کی زندگی بچانے کو عبادت کہا گیا ہے۔ آپ جب قبر میں جاتے ہیں جس طرح آپ کی بیگم اور آپ نے کہا ہے۔ تو آپ کم از کم سات بندوں کی جان بچا سکتے ہیں۔ آپ کے دو لنگرز، ایک ہارٹ، ایک جگر آپ کے دو گردے کسی ضرورت مند کے کام آ سکتے ہیں۔ لہٰذا آپ گردوں کے علاوہ بھی اعضاءعطیہ کر سکتے ہیں۔ حکومت، میڈیا اور ہماری عوام کا قصور ہے کہ اسے پرائیوٹی پر نہیں لیا گیا ہے۔ آپ نے عطیہ تو کر دیئے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ہو گی کہ کس ادارے کے پاس خود کو رجسٹر کروائیں۔ پمز ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا ہے کہ بہت شکریہ ضیا بھائی آپ نے بہت اہم موضوع کو اجاگر کیا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی رسائی عوام تک ہے۔ ایک رول ماڈل ہیں۔ لیکن ان کے صرف کہنے سے مسئلہ ختم نہیں ہو جاتا۔ پاکستان میں سسٹم بنانے سے ختم ہو گا۔ ایک سسٹم بنائیں کہ گردے یا حون وغیرہ کو بیچنے کا کاروبار ہی ختم ہو سکے۔ اس کی رجسٹریشن کا کوئی نظام نہیں ہے۔ بہت سے دیگر اعضاءلئے جا سکتے ہیں مثلا آنکھ کی کارنیا ہے۔ سری لنکا نے اس کو اتنا فعال بنا دیا ہے کہ وہ ساری دنیا کو سپلائی کرت ہے۔ سری لنکا ہمارے لاہور جتنا ایک ملک ہے۔ اس کی قانون سازی تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ کیا یہ پروویژنل ڈومین ہی آئے گا یا مرکز کے ڈومین میں آئے گا۔ ایک ادارہ ہے تو لیکن اس کا کام صرف اس کا ”مس یوز“ روکنا ہے۔ ایسا کوئی فعال ادارہ نہیں ہے جو جہاں لوگ رجسٹرڈ ہوں۔ 20 سے25 لاکھ لوگ نابینا ہیں لیکن سارے کارنیا ٹرانسپلانٹ کے مریض نہیں ہوں گے۔ ہم سالانہ 500 کارنیا سری لنکا سے ایمپورٹ کرتے ہیں۔ یا خود جنریٹ کرتے ہیں۔ آپ بھی بہت بڑے رول ماڈل ہیں۔ جب آپ کہیں گے کہ کارنیا دے رہے ہیں تو جو لوگ آپ کو فالو کرتے ہیں وہ بھی ایسا کریں گے۔ اس کے لئے باڈی کو ہسپتال شفٹ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ٹیم جائے اور وہیں سے کارنیا لے کر آ جائے اور اسے محفوظ کر لیا جائے۔ اس کا انفراسٹرکچر نہایت اہم ہے۔ امید ہے چیف جسٹس سن رہے ہوں گے وہ اس کا بھی ”سو موٹو“ لیں کہ حکومت ہمارے ڈونرز کو کس طرح سپورٹ کر رہی ہے۔ میں نے جب چیف جسٹس کا سنا تو مجھے اچھا لگا انہیں ضرور کہوں گا آپ کا بھی حوالہ دوں گا۔ یہ کام کس نے وفاق نے کرنا ہے یا صوبوں کا کام ہے۔ وہ روڈ میپ دیں کہ کس طرح اسے فعال بنائیں گے۔ گردے کا ٹرانسپلانٹ آسانی سے ہو سکتا ہے لیکن اس کی تجارت نہیں ہونی چاہئے۔ اپنے عزیزوں کو گردہ دینا چاہئے۔ قانون موجود ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں یہ تجارت چل رہی ہے۔ کوئی قانون اس وقت تک لاگو نہیں ہو سکتا جب تک لوگوں میں شعور اجاگر نہ کر دیا جائے۔ گردے کا چوتھا حصہ بھی لوگوں کو پچاس ساٹھ سال زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ گردے کی دس فیصد بھی آپ کی زندگی کے لئے بہت ہے۔ پروفیسر مسعود صاحب کنگ ایڈورڈ میں پڑھاتے تھے ان کا غلط والے گردے کی جگہ صحیح والا گردہ نکال دیا گیا۔ یہ واقعہ انگلینڈ میں ہوا۔ بیمار گردہ اندر رہ گیا۔ اس کو بعد میں پھر نکالنا پڑا۔ تین چوتھائی نکالا گیا۔ وہ پچاس سال تک زندہ رہے۔ اور ہمیں پڑھاتے رہے۔ لوگوں میں بلڈ ڈونیٹ کرنے تک کا شعور نہیں ہے۔ دل اور پھیپھڑے کی ٹرانسپلانٹ پاکستان میں ابھی نہیں ہو رہی۔ وہ بہت پیچیدہ سرجری ہے۔ اس کے لئے بہت ٹرینڈ لوگ درکار ہیں۔ لیکن شروع تو ہونا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ ساﺅتھ افریقہ بھیجیں۔ لبلبہ کا ٹرانسپلانٹ اب بہت آسان ہو چکا۔ وہ تو وین میں ڈرپ لگائی جاتی ہے اور ہو جاتا ہے۔ آئی سپیشلسٹ پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم نے کہا ہے کہ ضیا صاحب میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ آپ نے بہت اہم موضوع اٹھایا ہے۔ پاکستان میں جتنا اندھا پن ہے۔ اس کا چودہ ویصد کارنیا تبدیل ہونے سے درست ہو جاتا ہے۔ تقریباً 2 لاکھ پاکستانیوں کو اس وقت کارنیا ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔ آج سے 18 سال قبل میں نے دو بچیوں کا کارنیا ٹرانسپلانٹ کیا تھا۔ جو پیدائشی طوور پر نابینا تھیں۔ آج ان کی شادیاں ہو گئیں اور وہ دونوں خوش ہیں۔ اس طرح کئی نوجوان کارنیا کی بیماری کی وجہ سے اندھے پن میں مبتلا تھے اور کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن آپریشن کے بعد وہ دیکھنا شروع ہو گئے اور مفید شہری بن گئے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv