تازہ تر ین

سیاستدان کشمیر پر یکجہتی دکھائیں ، ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بہتر ہوتا کہ ہمارے سیاستدان یوم کشمیر پر سیاست کرنے کی بجائے کشمیر کے حوالے سے بات کرتے اور کشمیریوں کو بتاتے کہ ان کی جدوجہد میں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ خصوصاً بھارت کی حکومت جو غاصب ہے اور زبردستی کشمیر پر قبضہ کئے بیٹھی ہے۔ آج تک اس نے وہاں استصواب رائے نہیں کروایا۔ بھارت نے ہمیشہ ہٹ دھرمی دکھائی اور شملہ معاہدے اور یو این او کے چارٹر کو کبھی نہیں مانا 1971ءتک سلامتی کونسل کی کسی بات کو نہیں مانا۔ پھر 1965ءکی جنگ ہوئی اس کے نتیجے میں بھی پاکستان کوشش کرتا رہا۔ کہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارت بات کرے۔ 1971ءکی جنگ می ںبھارت نے اپنی فوجیں اتار کر ہمارے مشرقی بازو کو ہم سے علیحدہ کر دیا۔ اس کے بعد شملہ معاہدہ بھی ہوا۔ لیکن وہ نہ تو 1948ءاور نہ ہی کسی اور قرارداد کو تسلیم کرنا ہے جس کے تحت کشمیر میں رائے شماری ہوتی تھی۔ ہمارے سیاستدانوں کو آج کے دن ایک دوسرے کے ٹانگ کھینچنے کی بجائے بھارت کو یہ پیغام دینا چاہئے تھا کہ ہم تمام تر سیاسی مخالفتوں کے باوجود کشمیر کے مسئلہ پر ایک ہیں۔ ہماری سیاست اس وقت تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔ شملہ معاہدہ 1971ءکی جنگ کے بعد ہوا تھا۔ 46 سال بعد بھی انڈیا اس کی پہلی شق پر تیار نہیں۔ پھر اس معاہدے کو چاٹنا ہے۔ بھٹو صاحب نے شملہ معاہدے میں جانے سے پہلے قوم سے رائے طلب کی تھی۔ اس میں تاجروں، سیاستدانوں، عوامی تنظیموں کو بلایا گیا تھا۔ ہماری باری رات دیر سے آئی جس میں بھٹو صاحب نے ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑا اور کہا کہ معاہدہ یہ ہوتا ہے اور کاغذ کے دو حصوں میں پھاڑ ڈالا انہوں نے کہا جب تک ہم طاقتور نہیں ہوں گے۔ اپنی بات منوانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ بھارت کسی صورت ہماری بات نہیں سنے گا۔ آج تمام سیاستدان ایک ہوکر پوری دنیا خصوصاً سپر پاور کو یہ پیغام دے سکتے تھے کہ ہم کشمیر پر ایک ہیں۔ لیکن سیاستدانوں کے بیانات پر آج دُکھ ہوا ہے۔ شکر ہے آج آصف زرداری کو خدا یاد آ گیا ہے۔ اس بہانے شاید وہ توبہ کر لیں۔ ہمیں اس وقت قومی اتحاد بنانے کی ضرورت ہے۔ الیکشن ساری دنیا میں ہوتے ہیں لیکن گلہ کاٹنے کی جو سیاست یہاں ہو رہی ہے کہیں نہیں ہوتی۔ نوازشریف عدلیہ کے خلاف لگے ہوئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے عدالت انہیں لمبی مدت کے لئے نااہل قرار دے دے گی۔ شاید ان کی مالی کرپشن ثابت ہو جائے اور عملاً سزا بھی مل جائے۔ اس لئے وہ عدالتوں کے خلاف گرج رہے ہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں عدالت انہیں توہین عدالت میں پکر لے اور جیل بھیج دے تا کہ پورے ملک میں مریم نواز تحریک چلائیں کہ آﺅ چل کر اپنے لیڈر کو چھڑوائیں۔ میاں صاحب لفظوں سے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پاکستان میں نااہل کر دیا گیا لیکن کشمیر میں تو نااہل نہیں ہوا۔ میاں صاحب کیا موجودہ ججوں کو سمندر میں پھینک دیں گے۔ عدالتوںکو تالے لگوا دیں گے۔ جب اداروں کو تسلیم نہ کیا جائے تو ملک میں انارکی ہوا کرتی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ خاص طور پر سینٹ کے الیکشن کے لئے اکٹھے ہو جائیں سینٹ کی سوائے چند سیٹوںکے باقی تمام فروخت ہوتی ہیں ان کی بولیاں لگتی ہیں۔ اور کروڑوں میں فروخت ہوتی ہیں۔ کراچی میں خاص طور پر اس کی بولی زیادہ لگتی ہے کیونکہ وہاں مالدار تاجر ہوتے ہیں۔ سینٹ جب بنا تھا 1973ءکے آئین کے تناظر میں جس وقت مہم مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ مشرقی پاکستان کو یہ شکایت تھی کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ پھر سینٹ بن گیا۔ کسی دور میں سنیٹرز کے ذریعے سینٹ کے اندر، صوبوں کے حوق کے بارے میں مسائل کے بارے میں اور حکومتی مالیتی اداروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کبھی کام نہیں ہوا۔ سینٹ جو کہ اَپر ہاﺅس ہے صرف اپنا کنٹرول برقرار رکھتا ہے اور اپنے مخالفین، بالخصوص مختلف پارٹی کی حکومت جو مرکز میں موجود ہو پر پریشر بنا کر رکھتا ہے کہ ہم آپ کے بل روک لیں گے۔ دوسرے الفاظ میں سینٹ قومی اسمبلی کی قراردادوں کو کرش کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ کیا سینٹ نے بلوچستان کی محرومی کو ختم کرنے کے لئے کوئی کوشش کی؟ بلوچستان میں بغاوت کی تحریک بھی جاری ہے اور باقی لوگ دوسرے ملکوں میں بیٹھ کر ”فری بلوچستان“ کے بینر بھی لگوائے ہیں۔ بلوچ سنیٹر کس منہ سے قوم کو جواب دیں گے وہ اپنے صوبے کے مسائل کی آواز اٹھاتے ہیں؟ اگر اٹھاتے تو وہاں بے چینی کیوں ہوتی۔ نوازشریف عدلیہ کے فیصلوں کو نہیں مانتے۔ عدالت نے ان کے خلاف فیصلے دیئے ہیں ان کے خلاف کرپشن کے کیسز بنائے گئے ہیں اور ابھی بھی بن رہے ہیں۔ اب جناب نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کا موقف یہ ہے کہ ہم کسی عدالت کو نہیں مانتے۔ ہم عوام کو مانتے ہیں۔ ہمارے جلسے میں پچاس ہزار لوگ آتے تھے۔ اس لئے یہ ریفرنڈم ہو گیا۔ اب ایک نئی تشریح سامنے آئی ہے کہ چند ہزار لوگ اکٹھے ہو جائیں تو کہہ دو کہ چند ججوں کے فیصلوں کو ہم نہیں مانتے۔ اگر سزا کاٹنے والا ایک مجرم اپنے علاقے میںچند ہزار افراد اکٹھے کر لے اور شور مچا دے کہ ہم عدالت کے فیصلوں کو نہیں مانتے تو کیا یہ درست ہو گا۔ میاں صاحب اس قسم کی روش ڈال رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نوازشریف کے خلاف نااہلی واپس ہو جاتی ہے اور اگلی مرتبہ عوام ان کو ووٹ دے کر کامیاب بھی کر دیتے ہیں۔ تو میاں صاحب اس نظام کو چلا سکیں گے۔ جہاں عدالت کو ماننے والا ہی کوئی نہ ہو۔ مشاہد حسین پہلے اخبار نویس تھے۔ پھر انہوں نے خوشامد شروع کی۔ جب ایک صحافی خوشامد شروعکرتا ہے تو اسے لاکھوں کی جاب مل لی جاتی ہے عطاءالحق قاسمی، عرفان صدیقی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ عرفان صدیقی پی آر او ہوا کرتے تھے۔ پھر وہ میاں نوازشریف کے ہر فیصلے پر واہ واہ کرتے رہے۔ لہٰذا اب وہ وزیر ہیں۔ ایسے محکمے کے وزیر جسے کوئی جانتا تک نہیں۔ طالبان سے مذاکرات کے وقت یہ حضرت حکومتی ٹیم کے سربراہ تھے۔ کوئی شخص حکومتی عہدیداروں کو شعر رٹواتا ہے۔ نظمیں یاد کرواتا ہے لہٰذا اسے 15 لاکھ روپے کی نوکری دے دی جائے۔ کوئی صاحب حکومت کے حق میں کالم لکھتا ہے تو اسے ریلوے کا ایڈوائیزر لگا دیا جاتا ہے۔ عطاءالحق قاسمی تھرڈ کلاس، کھوتی کالج، ایم اے او کالج کے لیکچرار تھے۔ ان کی ترقی دیکیں۔ حکومتی ارکان کی شان میں قصیدے لکے، شعر لکھے تو وہ سفیر بن گئے پھر چیئرمین پی ٹی وی بن گئے۔ یہ میرے ساتھ نوائے وقت میں ملازم ہوا کرتے تھے۔ مجھے وہاں اچھی تنخواہ ملتی تھی بطور ڈپٹی ایڈیٹر جبکہ عطاءالحق قاسمی کو ایک کالم کے 60 روپے ملا کرتے تھے۔ کھوتی کالج کی لیکچرار شپ سے انہوں نے اپنے گھر ایک دعوت کی نواز شریف کو شب دیگ بہت پسند ہے۔ یعنی شلجم گوشت۔ انہوں نے خود میاں صاحب کے لئے شب دیگ بنوائی۔ جس سے بادشاہ سلامت خوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا بول بچہ کیا مانگتا ہے۔ بچے نے مانگا کہ مجھے ناروے میں سفیر بنا دیں۔ انہیں لیکچرار شپ سے اٹھا کر تین مہینے تربیت دلائی گئی اور ڈائریکٹ ناروے میں سفیر مقرر کر دیا گیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv