تازہ تر ین

سینٹ الیکشن ،ایک نشست کی قیمت سن کر آپ بھی حیران رہ جائے گے

لاہور‘ اسلام آباد (خصوصی رپورٹ‘ سٹاف رپورٹر‘ نیوز رپورٹر) سینٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید وفروخت کے لئے کوششیں تیز ہو گئی ہیں ،پارلیمانی ایوان بالا سینیٹ کی باون نشستوں کے چناﺅ کے بارے میں کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان اور فاٹا میں دو کروڑخیبر پختونخوامیں ایک کروڑ تک کی پیشکش کی جارہی ہیں، کوئٹہ میں بولی دو کروڑ روپے سے شروع ہوگئی ہے جبکہ یہی نرخ قبائلی علاقوں کیلئے بھی کھولا گیا ہے ۔ خیبر پختونخوا کیلئے پشاور میں یہ بھاﺅ فی الوقت ایک کروڑ روپے بتایا جاتا ہے ۔ اس ہارس ٹریڈنگ کیلئے گھوڑوں کے خریدار جو پہلے کوئٹہ میں خیمہ زن تھے اب وہ پشاور پہنچ گئے ہیں۔ نوٹوں سے لدی بوریاں لیکر حرکارے کراچی سے پشاور پہنچے ہیں جس کے بعد صوبے کی حکمران پارٹی کے ارکان جن میں بعض بیرون ملک جانے والے تھے اب پشاور میں ہی رک گئے ہیں ۔ان ارکان نے اپنی دیگر مصروفیات کو بھی محدود کر دیا ہے ۔ لائق اعتماد سیاسی مبصرین نے بتایا ہے کہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان کا ووٹ سب سے زیادہ طاقتور ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ گھوڑوں کے تاجر نے سب سے پہلے کوئٹہ کا رخ کیا ہے۔رائے دہندگان کو پاکستانی کرنسی ہی نہیں ڈالروں ، یورو اور پاﺅنڈز میں بھی ادائیگی کی پیشکش موجود ہے ، یہ ادائیگی بیرون ملک بھی ہو سکتی ہے ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ کوئٹہ میں کھلنے والا نرخ بیس سے پچیس کروڑ روپے تک جائے گا ۔ اسی تناسب سے یہ نرخ قبائلی علاقوں کیلئے ہوگا جبکہ پشاور میں یہ رقم اس سے نصف یا اس سے تھوڑا سا زیادہ تک جا سکتی ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ ایک کروڑ کی رقم کو ایک ڈائمنڈ کا خفیہ نام دیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں متعلقہ ادارے ارکان کے درمیان ہونے والی سودے بازی پر مبنی گفت و شنید کو مانیٹر کر رہے تھے جس کے بارے میں علم ہونے کے بعد اب ”فریقین“ محفوظ ٹیلیفون اور محفوظ کوڈ استعمال کر رہے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں سے سینیٹ کی نشست کی قیمت ایک سے ڈیڑھ ارب روپے تک چلی جائے گی۔ اس طرح ملک کی تاریخ میں یہ گراں ترین ہارس ٹریڈنگ ہوگی ۔ ارکان کی خرید و فروخت کے خلاف انسدادی اقدام کے طور پر پارٹیوں کے ارکان کو وھپ جاری کی جائے گی کہ وہ سینیٹ کے انتخابات کیلئے کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی تجویز کنندہ یا تائید کنندہ کی حیثیت سے دستخط نہیں کرینگے تا آنکہ ان کی پارٹی باضابطہ طور پر اس بارے میں ہدایات جاری نہیں کرتی۔ امکان یہی ہے کہ گھوڑوں کے تاجر اپنے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے میدان میں اتاریں گے جن کے پاس سرمائے کی چنداں کمی نہیں ہے۔ ان تاجروں نے اس امر کو بھی یقینی بنایا ہے کہ کوئی رکن ان سے قیمت وصول کرنے کے بعد طے شدہ امیدوار کی بجائے کسی دوسرے امیدوار کوووٹ نہ دے سکے حالانکہ رائے دہی کا عمل خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوگا۔دریںاثناءسینٹ الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ(ق)کا پنجاب سے سینٹ میں خاتمہ ہو جائے گا ۔اس وقت کامل علی آغا پنجاب سے مسلم لیگ (ق)کی سینٹ میں نمائندگی کر رہے ہیں۔اس وقت پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق)کے 8ممبران ہیں جن میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیٹے مونس الٰہی،سرگودھا سے مرحوم انور چیمہ کے بیٹے عامر سلطان چیمہ، قصور سے وقاص حسن موکل، ضلع پاکپتن سے تعلق رکھنے والے احمد شاہ کھگا،خواتین کی مخصوص نشستوں پر بسمہ چودھری،خدیجہ عمر،قصور سے ممبر صوبائی اسمبلی سردار محمد آصف نکئی اور بہاولپور سے پنجاب اسمبلی کے رکن محمد افضل شامل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ 8ممبران اسمبلی سینٹ کی ایک نشست کے لئے ناکافی ہیں جبکہ سینٹ میں ایک سیٹ کےلئے 13ارکان کا ہونا لازمی ہے اس لئے پنجاب سے سینٹ میں مسلم لیگ (ن)کی نمائندگی ختم ہو جائے گا۔جبکہ سینٹ میں اس وقت مسلم لیگ(ق)کے چار سینیٹر ز موجود ہیں جن میں اسلام آباد سے مشاہد حسین سید اور پنجاب سے کامل علی آغا ہے جبکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ سے ق لیگ کا پہلے بھی کوئی ممبر سینٹ میں نہیں ہے ۔بلوچستان سے ق لیگ کے 2سنیٹرز موجود ہیں جبکہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے بلوچستان سے مسلم لیگ (ق)کا ایک سنیٹر کامیاب ہو سکتا ہے۔سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا سلسلہ جاری ،ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے میں خریدنے کا انکشاف ہوا ہے۔سینٹ الیکشن میں ہمیشہ سے ہی ممبران صوبائی اسمبلی کا ریٹ لگتا ہے اور ایک ایک ممبر کروڑوں میں خریدا جاتا ہے۔ اسی طرح اس الیکشن میں بھی یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ سینٹ الیکشن میں مکروہ دھندا ہارس ٹریڈنگ رک نہیں سکا اور ممبران صوبائی اسمبلی کی کروڑوں روپے بولیاں لگنے لگی ہیں۔ اسی طرح ملک میں سینٹ کا الیکشن کروڑوں سے اربوں روپوں تک جانے کا انکشاف ہو اہے کیونکہ ایک طرف تو سنیٹر بننے کےلئے کروڑوں روپے پارٹی ٹکٹ کےلئے دینے پڑتے ہیں تو دوسری طرف الیکشن جیتنے کےلئے ممبران ووٹرز کو بھی پیسے دینے پڑتے ہیں ۔سندھ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی تو برملا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ ان کی قیمت 8کروڑ روپے لگائی جا چکی ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سیاست پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں یہاں تو یونین کونسل کا چیئرمین بننے کےلئے 40سے50لاکھ روپے لگانے پڑتے ہیں جبکہ ممبر قومی و صوبائی اسمبلی بننے کےلئے کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ ممبر سینٹ بننے پر بات اربوں روپے تک پہنچ چکی ہے۔آخر ممبران اسمبلی یا سنیٹر یہ پیسہ پورا کیسے کرتے ہیں یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ماضی کی طرح ایک بار ارب پتی اور بااثر شخصیتیں اپنی معاشی، سیاسی اور سماجی حیثیت میں اضافے کے لئے آئندہ مارچ کو ہونے والی سینیٹ کی نشست کے حصول کےلئے بھاری سرمایہ کاری کےلئے تیار ہیں جبکہ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر نہ صرف آذاد بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین خیبرپختونخوا اسمبلی بھی اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہیں ۔ دیگر تین صوبوں کے برعکس پچھلی تین دہائیوں کے دوران خیبرپختونخوا سے سینٹ کے لئے متنخب ہونے والوں میں اہم بااثر اور مالدار ترین افراد کی تعداد زیادہ ہے ای بنیاد پر ہارس ٹریڈنگ یا خرید وفروخت کی سیاسی نے اس صوبے کی تمام تر سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا ہے حتیٰ کہ ماضی میں متحدہ مجلس عمل میں شامل جمعیت علماءاسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی ہارس ٹریڈنگ کی زد میں آچکے ہیں تاہم 2015 میں سینٹ کے لئے ہونے والے انتخابات میں سابق گورنر سردار مہتاب احمد خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے مابین ہونے والے ایک معاہدے کے تحت طے کی جانیوالی حکمت عملی نے بعد ارب پتی سیاستدانوں کے ایوان بالا میں پہنچنے کے خواب چکنا چور کردئیے تھے مگر اس بار قومی سطح پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین بڑھتے ہوئے تناﺅ کے پیش نظر سینٹ کی نشست کے حصول پر بھاری سرمایہ کاری کرنے والوں کےلئے میدان کھلا دکھائی دیتا ہے خیبرپختونخوا اسمبلی کے حزب اختلاف میں شامل اور سب سے کم نشستیں رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے تو سینٹ کے انتخابات کےلئے دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی ہیں جبکہ حکمران پاکستان تحریک انصاف اور مخلوط حکومت میں شامل جماعت اسلامی ، حزب اختلاف میں شامل جمعیت علماءاسلام (ف) ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور قومی وطن پارٹی نے ابھی تک سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے حکمت عملی وضع نہیں کی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 123 کے ایوان میں 6 نشستوں والی پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین خیبرپختونخوا سے کم از کم 3 نشستیں جیتنے کے دعوے کررہی ہے جبکہ اسی جماعت کے ٹکٹ کے لئے ابھی تک آٹھ امیدوار سامنے آچکے ہیں 2015 کے انتخابات میں جمعیت علماءاسلام (ف) کے علاوہ سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ کی قومی وطن پارٹی کو شدید دہچکا لگا تھا ابھی تک مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طلحہ محمود تیسری باری کےلئے مضبوط ترین امیدوار تصور کئے جاتے ہیں جبکہ اسی جماعت کی جانب سے دوسرے امیدوار کا نام ابھی تک سامنے نہیں آرہا ہے اسی طرح قومی وطن پارٹی نے سینٹ کے عام انتخابات کےلئے حکمت عملی کا اعلان نہیں کررکھا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سابق گورنر سردار مہتاب احمد خان کی بہتر حکمت عملی اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام کے لئے کی جانے والی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں 2015 میں 16 ممبران اسمبلی کے ذریعے دو نشستیں حاصل کی تھیں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے چھ جبکہ جماعت اسلامی ، جمعیت علماءاسلام (ف) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے ایک ایک نشست حاصل کی تھی ۔ جبکہ قومی وطن پارٹی 10 نشستوں کے ساتھ کوئی بھی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی ۔ اس بار حالات 2015 سے بھی زیادہ خطرناک دکھائی دیتے ہیں حکمران جماعت سمیت تمام تر سیاسی جماعتوں کی صفوں میں کا فی دراڑیں دکھائی دیتی ہیں اسی بنیاد پر تمام بڑی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، جمعیت علما اسلام (ف) اور قومی وطن پارٹی کے رہنماﺅں کےلئے اراکیں اسمبلی کو متحد اور پارٹی فیصلوں پر کاربند رکھنا ا نتہائی مشکل ہوگا پاکستان تحریک انصاف کے زیادہ تر اراکین صوبائی اسمبلی کو 2018 کے انتخابات کے لئے پارٹی ٹکٹ سے محروم دکھائی دیتے ہیں جبکہ باقی تین بڑی پارٹیوں سے بہت تعداد میں پھسل کے خطرات ہیں لہٰذا اس بنیاد پر سینٹ کی نشست کے حصول کےلئے سرمایہ کاری کرنے والے بھی اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے ۔ اس سال 11 سینیٹروں میں سے ریٹائرڈ ہونے والوں میں کئی ایک اہم بااثر اور مالدار افراد شامل ہیں اور ان مالدار لوگوں کے بارے میں ایک بار سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کےلئے سرمایہ کاری کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں ۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv