تازہ تر ین

ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس بات سے متفق ہوں کہ فحش ویڈیو فلمیں بنانے میں منظم گروہ ملوث ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی پیر سیالوی کی خدمت میں حاضری رنگ لے آئی ہے۔ ہمارے ملک میں مزارات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں موجود متولی پاور فل ہوتے ہیں۔ ہمارے عوام بھی پیروں، فقیروں کو ووٹ زیادہ دیتے ہیں اور اگر اس میں کسی سیاسی جماعت کا تڑکا لگ جائے تو بہت ”اعلیٰ“۔ مزارات صوبائی سبجیکٹ ہے۔ یہ وفاقی سطح پر لے جانے والا کام نہیں ہے۔ شاید پیر سیالوی نے یہ محسوس کیا ہو کہ کہیں مزارات کو حکومت اپنی تحویل میں نہ لے لے اس لئے انہوں نے میاں شہباز شریف کی بات مان لی۔ میاں شہباز شریف صاحب کی صوبے میں حکومت ہے اور مرکز میں بھی انہی کی حکومت ہے۔ لگتا یہی ہے کہ مشائخ حضرات اپنی شان و شوکت اس معاملے کی وجہ سے کھونا نہیں چاہتے۔ میاں شہباز شریف صاحب نے بڑی مہارت کے ساتھ اس معاملے کو ہینڈل کیا ہے۔ پہلے انہوں نے چھڑی دکھائی کہ تمام مزار وغیرہ قابو کر لوں گا۔ اگلے دن جا کر گھٹنوں کو ہاتھ لگا لیئے۔ استعفوں کی واپسی میاں شہباز شریف کی کامیابی ہے۔ ہمیری خبر یہ کہتی ہے کہ اس معاملے میں ڈیل ہوئی ہے۔ اور پیش کش کی گئی ہے کہ اگر میں وزیراعظم بن گیا تو دو بڑی ”لیوکریٹوو“ سیٹیں، ایک وزارت مذہبی امور، جس کے ساتھ حج ہوتا ہے۔ کھربوں کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ہر دور میں حج کے وزیر کے سکینڈل سامنے آتے رہے ہیں۔ ہمارے رپورٹر نے کہا ہے کہ پیر سیالوی کو میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ آپ جس کو کہیں گے ہم حج کی وزارت اس کو دیں گے۔ دوسری اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کی سیٹ ہے۔ ایک وقت تھا جب مولانا فضل الرحمن کا نامزد بندہ اس پر آتا تھا۔ پیر فقیر اچھے لوگ ہوتے ہیں یہ زیادہ لڑنے جھگڑنے والے نہیں ہوتے۔ جلد مان جاتے ہیں۔ ہر ایم پی اے اور ایم این اے جب استعفیٰ دیتا ہے۔ اس کا مقصد ہوتا ہے کہ ہمیں مناﺅ! یہ سیاسی لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اپنا مفاد سامنے رکھتے ہیں۔ مجھے پہلے اندازہ تھا کہ یہ جس کان سے نکلے ہیں اس میں واپس جائیں گے۔ جن جن لوگوں نے استعفے دیئے ہیں یہ سب لوگ واپس کر لیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اب ان میں سے کوئی پارٹی بھی تبدیل کر لے۔ ایک زمانے میں آصف علی زرداری کو سیاست کا پی ایچ ڈی ہولڈر کہا جاتا تھا۔ بظاہر شہباز شریف جو کہ نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ انہوں نے پرویز مشرف کے دور میںوزارت عظمیٰ کی پیش کش ٹھکرا دی تھی۔ انہیں مائنس نواز پر وزارت عظمیٰ کی یقین دہانی بھی کروائی گئی تھی لیکن انہوں نے اپنے بھائی کو نہیں چھوڑا۔ دونوں بھائیوں میں ایک چھوٹا سا فرق ضرور ہے۔ جسے اکثر کوئی نہ کوئی اجاگر کرتا رہتا ہے شاہد خاقان عباسی نے بھی کہہ دیا ہے اور نوازشریف بھی کہہ چکے ہیں کہ شہبازشریف صاحب اگلے وزیراعظم ہوں گے لیکن اب وزیراعظم نے کہا ہے کہ وقت آنے پر پارٹی فیصلہ کرے گی۔ لہٰذا یہ بات ضروری نہیں لگتی کہ وہی وزیراعظم ہوں گے عین وقت پر فیصلہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے اور مریم نواز بھی وزیراعظم کی امیدوار ہوسکتی ہیں۔مظاہرے ہوں یا دھرنے ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی ”پاور بیس“ لاہور ہے جب تک شہباز شریف وزیراعلیٰ ہیں تب تک ان کے جلسے بھرپور ہوں گے۔ میری بات طاہر القادری، عمران خان سے بھی ہوئی۔ زرداری صاحب نے کہا پنجاب میں ان کی حکومت ہو گی۔ لوگ ووٹ دیں تو حکومت ان کی ہو گی۔ میں نے تمام پارٹیوں کے لوگوں کو کہا ہے کہ جب تک شہباز شریف اقتدار میں ہیں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت قائم رہے گی۔ اگر شہباز شریف وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ یا مریم نواز وزیراعظم بن جاتی ہیں۔ بنیادی طور پر نوازشریف اور مریم نواز کے لہجے میں جو تلخی آ رہی ہے اس سے اپوزیشن والوں نے ٹھیک اندازے لگائے ہیں کہ ان کی نااہلی والا کیس تاحیات ہی ہو گا۔ عدالتوں کے سارے فیصلے، جے آئی ٹی کی رپورٹیں سامنے رکھتے ہوئے ذرا مشکل نظرآتا ہے کہ عدالت اپنا فیصلہ واپس لے لے گی اور نوازشریف کو سیاست میں واپس آنے کی اجازت دے گی۔ نہیں لگتا کہ نوازشریف کو کلین چٹ ملے گی۔ میرے تجزیے کے مطابق نوازشریف عوام کی عدالت میں جائیں گے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود سے میری پرانی واقفیت ہے۔ اس زمانے میں یہ اے آر وائی پر لندن سے پروگرام کیا کرتے تھے۔ میں اس وقت ان کے پروگراموں میں گیا بھی ہوں۔ ایک پروگرام میں میں اور عشرت العباد اکٹھے ہو گئے اس وقت وہ ایم کیو ایم لندن کے دفتر کے انچارج ہوتے تھے۔ میں نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے کہا کہ بہادری کی ضرورت نہیں اگر کوئی خبر غلط ہو گئی ہے تو آپ معذرت کر لیں۔ عدالتوں کا تو میں بہت احترام کرتا ہوں۔ میں فوراً عدالت سے معافی مانگ لیتا ہوں۔ ڈاکٹر شاہد کو میں نے اتوار کی رات کو پی سی ہوٹل میں کھانے پر بلایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اس پر اتنے تلے ہوئے کیوں ہو۔ میں نے انہیں ایک رپورٹ دکھائی۔ انہوں نے بتتایا کہ ان کی معلومات اس رپورٹ کے علاوہ ہیں۔ عمران علی کے اکاﺅنٹس کی رپورٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن شاہد مسعود جو کہتا ہے کہ اس کے پیچھے گروہ ہے میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ اس واقعہ کی ریڈیو بنائی۔ میں اس سے متفق ہوں۔ سرگودھا، چونیاں اور دہلی کی رادھا کے واقعات اٹھا کر دیکھ لیں۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود پہلے والی جے آئی ٹی سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ پولیس کی جے آئی ٹی تھی۔ اب نئی جے آئی ٹی، ایف آئی اے کی سربراہی میں بنی ہے۔ اس کے ارکان بھی پنجاب حکومت کے ملازم نہیں ہیں۔ انہوں نے مجھ سے بہت سی باتوں پر آف دی ریکارڈ بات کی اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ اسے پبلک کروں۔ اکاﺅنٹس کو ایک طرف رکھ دیں، اسٹیٹ بینک نے بھی اس کی تردید کر دی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر باتوں میں کافی وزن ہے۔ سرگودھا والی خبر میں 600 بچوں کی ویڈیو کی خبر آئی ہے۔ وہ بندہ جو پکڑا گیا ہے اس نے قبول کیا ہے کہ ناروے کی ویب سائٹس کے لئے اس نے بنائی اور کروڑوں روپے اس سے حاصل کئے، یہ معمولی کیبل آپریٹر کی دکان نہیں ہے۔ اس کے پیچھے بہت اثرورسوخ رکھنے والا گروہ ہے۔ اس واقعہ میں ایک گرفتاری بھی نہیں ہوئی۔ 600 بچوں کا معاملہ ہے۔ یہ کیس ایف آئی اے کے پاس تھا۔ اس کی رپورٹ کہتی ہے کہ وہ ملزم والدین کی مرضی سے انہیں پیسے دیا کرتا تھا۔ کیا 600 میں سے ایک باپ بھی ایسا نہیں تھا جو اس پر اعتراض کرتا۔ ایک بندہ پکڑا گیا۔ اس نے قبول بھی کیا۔ یہ عمل قانوناً جرم ہے اور اس پر آئین میں بہت سخت سزا موجود ہے۔ اس کا ملزم منڈی بہاﺅالدین کا رہنے والا ہے اور وہ اتنا بااثر ہے کہ کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈالتا تھا۔ اس کی کمپیوٹر کی دکان تھی اور یہ پولیس کے کمپیوٹر بھی ٹھیک کیا کرتا تھا۔ ایئرفورس والوں کے دفتر کی بھی مرمت کرتا تھا۔ ان کے سافٹ ویئر بھی کیا کرتا تھا۔ اس شخص نے اب تک دو جج تبدیل کروا دیئے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب بھی اس کی تصدیق کر لیں۔ ججوں کے تبادلے کیلئے کتنا پریشر آیا ہو گا۔ اس کے باوجود ایک بھی بندہ گرفتار نہیں ہوا جو یہ ویڈیو بنوایا کرتا تھا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv