تازہ تر ین

بچیوں سے زیادتی کی ویڈیوز بنا نے والے گروہ کے متعلق انکشافا ت نے سب کی آنکھیں کھول دی

قصور(رپورٹ جاویدملک )اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک کروڑ 50 لاکھ 15سے 19 برس کی لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ایشیا میں 10 لاکھ سے زیادہ بچوں کو جنسی طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔جسم فروشی ایک ایسا ناسور ہے ، جو غربت کے شکار علاقوں میں بچوں میں بھی سرائیت کر چکا ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں کا لاوارث ہونا یا آسانی سے دباﺅ میں آجانا ہے ، ابتدائی طور پر بچہ کسی نا کسی دباﺅ میں آکر جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے جبکہ بعض کیسز میں بعد میں اس کام کو آمدنی کا ذریعہ سمجھ لیتا ہے ۔ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے بچے بھی اس ناسور کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ ایک لاکھ 70 ہزار بچے سیکس ٹریڈ میں استعمال کیے جاتے ہیں، بد قسمتی سے یہ بچے لاوارث(اسٹریٹ چائلڈ) ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں بھی سیکس ٹریڈ میں ملوث بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، بہت سے بچے دوسرے بچوں کے لیے عصمت فروشی کی ترغیب کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔وہ چند ممالک جہاں بچوں کو پیسے دے کر ان کا ریپ کیا جاتا ہے ،ان بچوں میں 90 فیصد لاوارث(اسٹریٹ چائلڈ) ہوتے ہیں۔پاکستان کے متعلق ایک رپورٹ میںبتایا گیا ہے کہ پاکستان میں بھی بچے جسم فروشی میں ملوث ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں جیسے کہ غربت،ان کا لاوارث ہونا، جبری مشقت اور محنت مزدوری اس میں شامل ہیں۔اس چیز کا زیادہ تر شکار وہ بچے ہیں جو گلی ،محلوں یا پھر ہائی ویز پر واقع ہوٹل اور چائے خانوں میں مختلف نوعیت کی محنت مزدوری کرتے ہیں، ان میں زیادہ تر ان برادریوں کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی اکثریت ان سے کام کرواتی ہیں رپورٹ کے مطابق ٹرک اڈے اور ڈرائیورز بھی اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں، بچوں کے ساتھ جنسی فعل سر انجام دینے والے زیادہ تر ڈرائیورز اور نچلے درجوں کے سیکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ اُن کا اپنے گھر سے دور ہونا بتایا جاتا ہے۔اربوں ڈالر کی پورنو گرافی انڈسٹری میں چائلڈ پورنوگرافی کا حصہ 100 ارب ڈالر (100 کھرب روپے سے زائد سالانہ) سے زیادہ لگایا جاتا ہے ، فحش فلمیں بنانا (پورنوگرافی) امریکا سمیت کئی ممالک میں قانونی ہے ، لیکن چائلڈ پورنو گرافی کی کسی بھی ملک میں اجازت نہیں، اس کے خلاف بھر پور اقدامات بھی بعض اوقات نظر آتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے چائلڈ پورنو گرافی دنیا بھر میں فروغ پا رہی ہے ۔کئی ممالک میں انٹرنیٹ پر بچوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کا مواد آزادانہ طور پر موجود ہے ، ان میں تمام خطوں کے ممالک شامل ہیں۔ایک مثال جاپان سے لی جا سکتی ہے ، جہاں چائلڈ پورنو گرافی کی تقسیم کاری(ڈسٹریبیوشن) کے حوالے 387 سے مقدمات درج ہیں، جبکہ چائلڈ پورنوگرفی پیش کرنے اور بنانے کے حوالے سے 724 مقدمات درج ہیں، اور اس حوالے سے اب تک درج کیے جانے والے مقدمات کی تعداد تقریباً 1142 ہے ۔میکسیکو چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے دنیا بھر میں بد ترین صورتحال کا شکار ہے ، اعداد وشمار دل دہلا دینے والے ہیں، چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے ایک بین الاقوامی آپریشن میں 12 ممالک میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک کے 60 افراد کو گرفتار کیا گیا ۔چائلڈ پورنو گرافی کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو ترجیح دی جانے لگی ہے ، جس کی ایک وجہ ان ممالک میں درپیش امن و امان کی صورتحال اور سستا ہونا ہے ، اس سلسلے میں نیپال، بنگلہ دیش، ہندوستان، افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔چائلڈ پورنوگرافی کے نیٹ ورک مبینہ طور پر پاکستان میں بھی موجود ہیں، سرگودھا میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) نے کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جو چند بچوں کو ناروے لے کر جا رہا تھا، یہ شخص چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث تھا،یکم جنوری 2018 سے 20 جنوری 2018 تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے چندواقعات سامنے آ چکے ہیں، جو کے قصور ، سانگھڑ، مردان اور ٹنڈو آدم میں ہوئے ، یہ وہ واقعات تھے جو اخبارات اور سوشل میڈیا کے توسط سے منظر عام پر آئے ۔سانگھڑ میں 5 سال کے بچے کا گینگ ریپ کیا گیا، واقعے کے مبینہ ملزمان بھی گرفتار ہوئے ، دوسرا واقعہ ٹنڈو آدم میں پیش آیا، جہاں ایک بچی کا ریپ ہوا، واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد ایک ملزم اور ملزمہ کو گرفتار کیا گیا، تیسرا واقعہ قصور میں 6سالہ بچی کے ساتھ پیش آیا، جس کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا،۔ جب کہ مردان میں بھی بچی ریپ کے بعد قتل ہوئی۔کسی بھی قسم کی جنسی زیادتی کے حوالے سے بچے مجرموں کا ایک آسان شکار ہوتے ہیں ، پاکستان میں ہر سال بچوں کے ریپ، اور ریپ کے بعد قتل کے واقعات سامنے آتے ہیں۔پاکستان میں ریپ کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچوں کی عمر اوسطاََ 5 سے 11 سال ہوتی ہے ۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv