تازہ تر ین

سیکس فری ریاست ،بڑا منصوبہ سامنے آگیا

لاہور (خصوصی رپورٹ) جنسی تعلیم کی آڑ میں گھناﺅنی سازش‘ پاکستان کو سیکس فری زون ریاست بنانے کا منصوبہ۔ اقوام متحدہ کے مختلف ادارروں کے توسط سے این جی اوز کافی سرگرم ہیں اور پاکستان کو فری سیکس سوسائٹی بنانے کا کام عرصہ سے جاری ہے۔ Life skilled base education سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے منظور شدہ نصاب میں چھٹی سے دسویں تک کے بچے‘ بچیوں کو یہ پڑھایا جارہا ہے کہ ان کا کسی سے بھی (جاننے والا یا کوئی اجنبی) جنسی تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہئے‘ ان معصوم بچوں کو یہ پڑھایا جارہا ہے۔ During sex with an affected person or someone you dont know, a condom should be sued. کچھ عرصہ قبل لاہور ہائیکورٹ نے برگیڈ (Bargad) نامی ایک این جی او کو طلب کیا کیونکہ اس تنظیم کی طرف سے گوجرانوالہ کے سرکاری سکولوں میں حکومتی منظوری کے بغیر تقسیم کی گئی جنسی کورس کی کتابوں میں بچیوں کو تعلیم دی جارہی تھی کہ لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ کیسے دوستی کرنی چاہئے۔ اقوام متحدہ نے (SRHR) Sexualand reproduction health and rights. نامی تنظیم کے ذریعے جنسی حقوق کی تعریف کرتے ہوئے جنسی حقوق کی بات کی۔ ان حقوق میںجنسی جوڑے چننے کا حق‘ جنسی طور پر متحرک ہونے یا نہ ہونے کا حق اور جنسیت کے حوالے سے معلومات کو پڑھانے‘ حاصل کرنے یا جاننے کا حق وغیرہ شامل ہیں۔ اقوام متحدہ نے (SRHR) کی تعریف اور وضاحت جس کتابچے میں کی‘ اس کے سرورق پر دو ہم جنس پرست لڑکوں کی تصویر آویزاں ہے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کی گئی Adole scent strategy and strategicplan 2013,17 میں ویسے تو کوشش کی گئی ہے متنازعہ موضوعات کی پالیسی میں نہ لکھا جائے مگر اس پالیسی میں (SRHR) کا واضح ذکر موجود ہے کیلئے این جی اوز کے لازمی کردار کا ذکر ہے۔ اقوام متحدہ کے زیراہتمام پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 2009ءسے اس ایجنڈے کو مختلف سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی اداروں میں اس کو پڑھانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ بعض این جی اوز نے دھوکے سے علماءکو ساتھ ملا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی اس ایجنڈے میں ان سے متفق ہیں حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ یہ ساری سازش ایک ویڈیو پروگرام میں بے نقاب ہوئی۔ کسی بھی نظریاتی ریاست کی کہ حکومت کی تین بنیادی ترجیحات ہوا کرتی ہیں۔ 1۔ اپنے نظریئے کو عوام پر نافذ کرنا 2۔ اپنے نظریئے کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانا 3۔ اپنے نظریئے کو ساری دنیا میں پھیلانا اور منوانا۔ نبی کریم نے جب مدینے میں اسلامی نظریاتی ریاست قائم کی تو وہاں اسلامی عقیدے کی بنیاد پر شریعت کو نافذ کیا گیا۔ اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے حدوداللہ کے عدالتی نظام کو نافذ کیا گیا۔ بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے جہاد اور امت کو نظریاتی طور پر مضبوط کیا گیا۔ نیز پھیلاﺅ کیلئے دوسری ریاستوں کے حکمرانوں کو وفود اور خطوط بھیجے۔ تبلیغ اور جہاد کے احکام کو اپنایا گیا۔ آج مسلمانوں کے حکمرانوں اور حکومتوں دونوں کی ترجیحات بدل چکی ہیں مگر کفر آج انہی تین ترجیحات کو اپنا کر عالم اسلامی کیلئے نئے چیلنجز پیدا کررہا ہے۔ کفر آج عیسائیت اور یہودیت کی روایتی یلغار سے ہٹ کر ایک سرمایہ دارانہ عقیدے پر کھڑا ہے‘ جس کی بنیاد خدا سے زندگی کے تمام نظاموں میں آزادی ہے۔ ان آزادیوں کو ایک خوبصورت نام ”بنیادی انسانی حقوق“ کے نام سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ انسان کے حقوق و فرائض کا تعین اسلام میں اللہ رب العزت کرتے ہیں‘ مگر ان بنیادی انسانی حقوق کا تعین اپنے عزائم اور دوسرے مقاصد کو مدنظر رکھ کر اپنے نظریئے کے پھیلاﺅ کیلئے سرمایہ دارانہ نظریئے کے حامیوں نے خود کیا۔ ان حقوق میں عقیدے کی آزادی‘ اظہار رائے کی آزادی‘ ملکیت کی آزادی اور شخصی آزادی خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ‘ یورپ میں سرمایہ دارانہ ریاستوں میں اسلام کی سزاﺅں کو ظالمانہ قرار دیا گیا ہے۔ عقیدے کی اہمیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں جبکہ ملکیت کی آزادی کے نام پر تمام وسائل کو پرائیویٹائز کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضہ کر کے لوگوں کو سرمایہ دار کی معاشی من مانیوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی ہمیشہ انبیائے کرام اور مذاہب کا مذاق اڑانے کیلئے بے دریغ استعمال کی جاتی ہے اور ساتھ ہی شخصی آزادی کے نام پر مادر پدر آزاد معاشرہ جس کو (FREE SEX SOCIETY)بھی کہا جاتا ہے‘ قائم کر دیا جاتا ہے۔ دریں اثناءجنسی اور حاملہ صحت اور حقوق (SRHR) انسانی حقوق کے فریم ورک کا ایک اہم ستون ہیں اور اس علاقے میں مندرجہ ذیل اوسط نتائج پاکستان میں عام انسانی حقوق کی صورتحال پر غریب عکاس ہیں۔ پاکستان ایک ممتاز نوجوان سلاٹ کے ساتھ دنیا میں چوتھا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ تاہم آبادی کی جنسی اور تولیدی صحت اور صحیح خدشات، خاص طور پر نوجوانوں، پالیسی کی سطح پر عملدرآمد کے لحاظ سے بھی بے چین نہیں رہتے ہیں۔عام شطرنج جب اس طرح کے موضوع کے بارے میں بات کرنے کے لئے آتا ہے کیونکہ ثقافتی اصولوں نے جنسی اور تولیدی حقوق کو ایک ممنوع موضوع کے طور پر سمجھا ہے، جس کے نتیجے میں اس معاملے میں لوگوں کے انتخاب کو محدود کردیتا ہے۔مردوں اور عورتوں کے درمیان غیرمساوی طاقت کا تعلق ایک اہم عنصر ہے جسے لڑکیوں اور عورتوں کے لئے خودمختاری کا استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جب یہ اپنے جسم کے بارے میں باخبر فیصلے کرنے اور محفوظ جنسی مذاکرات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘کہنے کی ضرورت نہیں، نوجوانوں کو ان کی جنسی اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال کے بارے میں مناسب اور عمر کے مناسب علم تک رسائی حاصل کرنے کا حق ہے۔ تاہم وہ وہی ہیں جو سب سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ وہ معلومات کی کمی نہیں رکھتے ہیں اور متعلقہ خدمات تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔اگرچہ نوجوانوں کی شمولیت قومی آبادی کی پالیسی اور قومی پروموشنل صحت کی حکمت عملی میں ایک لازمی حصہ ہے۔ ان پالیسیوں کے مطابق مداخلت کے پروگرام اب بھی چھپا رہے ہیں جب نوجوانوں کے لئے جنسی ایڈی (جنسی تعلیم) کے بارے میں مسائل اور نوجوانوں کی دستیابی کے بارے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آج نوجوانوں، بلوغت اور جنسی سرگرمی کے پہلے پیشرفت سمیت پہلے پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر ان کی جنسیت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ وہ حاملہ حملوں اور حملوں کے خطرے سے متاثر ہوتے ہیں اور استحصال، جنسی تشدد، طوفان، تبعیض اور دیگر بحرانوں کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سماجی اور اقتصادی دباﺅ سے نمٹنے اور مطلع، ذمہ دار انتخاب کرنے کے لئے عام طور پر موزوں زندگی کی مہارتوں کا فقدان ہیں۔اس کے نتیجے کے طور پر، نوجوان افراد کو بدعنوانی (تمباکو، شراب، دیگر منشیات) مادہ سے زیادہ خطرہ اور جنسی طور پر منتقلی انفیکشنز (ایسٹیآئ) جیسے ایچ آئی وی / ایڈز سے نمٹنے کے لئے انتہائی خطرہ ہے۔پاکستان کی بڑی تعداد میں آبادی غریب سماجی و اقتصادی عوامل کے باعث ابھی معاشرے کے کنارے پر رہتی ہے۔ بے گھر جوان اکثر اقتصادی بحران کے باعث ہوتے ہیں۔ جنگ‘ تنازع، غربت، روایتی اقدار کے نقصانات، گھریلو تشدد، ٹوٹ گھروں، جسمانی اور ذہنی طور پر بدسلوکی کے نتیجے میں بے گھر افراد۔پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی کے بارے میں یہ اعداد و شمار نوجوانوں کی کمزوریوں کی دیکھ بھال کے لئے انتہائی پروگرام سازی اقدامات کا مطالبہ کرتی ہیں۔ہمیں ان کو کافی طاقتور بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ترقی میں تبدیلی لائیں تاکہ وہ پاکستان میں غربت کا دورہ توڑ سکیں۔ بنیادی طور پر ذمہ دار اور صحت مند تولیدی اور جنسی طرز عمل کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ پاکستان بھی بچوں کے حقوق کے بین الاقوامی کنونشن (سی آر سی) کے لئے دستخط بھی رکھتا ہے، جس میں مندرجہ بالا آٹھ بنیادی حقوق بھی شامل ہیں۔15 ممالک کے سرگرم کارکنوں اور خواتین کے حقوق کے وکلاء نے پاکستان میں جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق (SRHR) کو عالمگیر رسائی کی ضرورت پر زور دیا اور ایشیا پیسفک میں آر ایس ایچ ایچ کے مہم کی شروعات کا اعلان کیا۔یہ مہم اقوام متحدہ کے پیسفک نیٹ ورک کے یورپی یونین کی طرف سے فنڈ کے لئے نیٹ ورکنگ، علم مینجمنٹ اور ایڈوکیسی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے منصوبے کا حصہ ہے۔یہ شراکت داروں کے ساتھ ایشیائی پیسفک ریسورسس اور ریسرچ سینٹر برائے خواتین (آر آر ڈبلیو) کی طرف سے لاگو کیا جا رہا ہے۔ایشیا پیسفک ممالک میں بنگلہ دیش، کمبوڈیا، چین، بھارت، انڈونیشیا، لاﺅس، ملائیشیا، مالدیپ، منگولیا، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں۔پاکستان میں عملدرآمد پارٹنر ایک خاتون کے وسائل مرکز شرک گاہ ہو گا۔ شرک گو کوآرڈی نیٹر مواصلات سیمینار شہباز نے میڈیا کو بتایا کہ اگرچہ خواتین خواتین کے خلاف تمام شکلوں کے امتیازی سلوک کے خاتمے اور سی ایس سی کے حقوق پر قابو پانے کے لئے ایک دستخط تھے، حالانکہ اس صورتحال کا جائزہ ملک میں جنسی اور تولیدی حقوق کا مثبت نتیجہ نہیں تھا۔ شہباز نے مزید کہا کہ جنسی اور تولیدی حقوق انسانی حقوق کی اہم اہمیت تھی اور منفی نتائج نے ملک میں مجموعی طور پر انسانی حقوق کی صورتحال پر عکاسی کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مہم ایک اجتماعی کوشش تھی جہاں مقامی لاگو شراکت داریوں نے حکومتوں کو زور دیا کہ وہ SRHR کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ساز سازوں کو آر ایس ایچ آر کے پروگراموں کو بہتر بنانے کے لئے معیار اور جامع اور مکمل طور پر جنسی اور تولیدی صحت کی خدمات کو یقینی بنانا ہے۔ SRHR پروگرام آفیسر میروم صدیقی نے بتایا کہ پاکستان دنیا میں چھٹیوں کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور ابھی تک عام طور پر اور نوجوانوں میں جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق کی تشویشات کو خاص طور سے خطاب نہیں کیا جا رہا تھا۔ پالیسی کی سطح یا سروس کی ترسیل کے لحاظ سے‘ روایتی اور ثقافتی معیارات پر مبنی جنسی اور تولیدی حقوق پر پابندیوں کا موضوع ہے۔ اشخاص رضامندی کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ایک معاملے میں شادی ہے۔ انہوں نے ایک سے زیادہ صحت سے متعلق، نفسیاتی اور سماجی اقتصادی ردعمل کے نتیجے میں بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ، جنسی اور تولیدی حقوق سے منسلک طور پر منسلک، خواتین کے خلاف تشدد تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ SRHR مسائل کے عوامی نقطہ نظر کو بڑھانے کے لئے بڑے SRHR فریم ورک کے بارے میں ایک آن لائن بحث شروع کرنا چاہتے ہیں۔آررویو ایگزیکٹو ڈائریکٹر شو تتنہویرین نے کہا، یہ اہم ہے کہ جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق کے لئے عالمی رسائی تک رسائی حاصل ہے (SRHR) ایشیا پیسفک میں حاصل کی جائے اور یہ کہ SRHR پوسٹ 2015 ترقیاتی ایجنڈا کا جائزہ لینے کا ایک لازمی حصہ بن جائے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv