تازہ تر ین

آج اپوزیشن مظاہرے کرے لیکن بد امنی کے راستے پر نہ چلے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جمہوریت میں سب کو حق حاصل ہے کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے جہاں چاہے جلسہ کرے۔ دھرنا دے یا احتجاج کرے۔ پنجاب حکومت نے اچھا قدم اٹھایا اور طاہر القادری کو ما ل روڈ پر جلسہ کرنے کی اجازت دے دی۔ اگر انہیں اس جگہ روک دیا جاتا تو کل سے ہی ”کنفڈریشن“ شروع ہو جاتی۔ اچھے سیاستدان چیخ و پکار کو ابتداءمیں نہیں روکتے۔ کیونکہ اٹیم نکل جانے سے ماحول ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔ طاہرالقادری کا آج کا جلسہ دونوں جانب کا امتحان ہے۔ ایک طرف حکومت کی طاقت اور قوت ہے۔ جہاں وہ پولیس، ادارے، رینجرز اور کسی حد تک فوج بھی استعمال کر سکتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کو اختیار ہے کہ کسی بھی قسم کا احتجاج یا دھرنا کر سکتے ہیں۔ عدالت نے دھرنا روکنے سے انکار کر دیا تھا۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں میں عقل سلیم سے کام لیں۔ کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے کہ یہ دھرنا۔ خونی احتجاج میں تبدیل ہو جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کیا چاہتی ہے اگر وہ الیکشن چاہتی ہے تو اس بات سے طے ہو چکا کہ وقت مقررہ پر یعنی چار پانچ ماہ بعد اس کا انعقاد ہونا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ اب انہیں سینٹ میں بھی اکثریت مل جائے گی۔ کوئی ایک صوبائی حکومت مستعفی ہو جائے۔ سینٹ الیکشن رک جائیں گے۔ جنرل الیکشن سرپر ہیں۔ لوگوں کا سوال ہے کہ پی پی پی کے پاس سندھ حکومت، تحریک انصاف کے پاس کے پی کے کی حکومت ہے وہ انہیں توڑ کر سینٹ الیکشن کیوں ملتوی نہیں کروا دیتے۔ اس بات کو غیر ضروری طور پر اہمیت دی جا رہی ہے کہ عمران خان اور آصف زرداری ایک اسٹیج پر بیٹھیں گے یا نہیں۔ دونوں باری، باری اپنے اپنے سیشن میں آ جائیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ماڈل ٹاﺅن واقعہ پر انصاف ملنا چاہئے۔ اور موجودہ حکومت کو رخصت ہونا چاہئے۔ طاہرالقادری پنجاب حکومت کو گرانے کی بات ضرور کرتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ پنجاب حکومت نے جان بوجھ کر ماڈل ٹاﺅن یا تحریک انصاف کے کارکن کے گھر قصور والا واقعہ کروایا ہو۔ ہاں مجھے حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ میاں شہباز شریف ڈی این اے رپورٹ کی طرح اگر اپنے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں ان کے آئی جی صاحب، ان کے لگائے ہوئے دوسرے افسران ان کے حق میں جا رہے ہیں؟ یا خطرناک قسم کے مسائل میں الجھا رہے ہیں۔ ان کا وزیر قانون ہر آئے روز انہیں ایک تکلیف میں مبتلا کر رہا ہے۔ سانحہ قصور پر معلوم ہوا ہے کہ ایک شخص گرفتار کیا گیا ہے۔ جو سکیورٹی سے تعلق رکھتا ہے جبکہ دو لوگ گرفتار نہیں ہو سکے۔ شہباز شریف صاحب کی حکومت کو گرانے کیلئے باہر سے کسی کی ضرورت نہیں ہے ان کے جمع کئے ہوئے چاند اور ستارے ہی کافی ہیں۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ڈی پی او کا انتخاب آئی جی نہیں کرتا۔ بلکہ انٹرویو ہوتا ہے جس میں وزیراعلیٰ حتمی منظوری دیتے ہیں۔ حکمرانوں کی سب سے زیادہ بدقسمتی ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ انہیں دکھانے والا ہی موجود نہیں ہوتا۔ وزیراعلیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ ڈی پی او، یا ڈی سی او خود منتخب کرے۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ ادارے مفلوج ہو چکے ہیں۔ ون مین رول ہر طرف نظر آ رہا ہے۔ صوبے میں بھی ایک بادشاہ ہے ہے باقی سب اس کی رعایا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ قصور جیسے حساس علاقے میں خانون افسر کو مقرر کیا گیا۔ جو مظاہرہ شروع ہوتے ہی گھر بھاگ گئی اور دو دنوں تک عقب میں موجود اپنے گھر میں چھپ جاتی ہے۔ تیسرے دن دفتر آتی ہے۔ کوئی پولیس مین یا گارڈ کسی کے حکم کے بغیر گولیاں نہیں چلا سکتا ہجوم کو بھگانا مقصود ہوتا ہے۔ مظاہرین کو روکنے کے اور بھی طریقے ہوتے ہیں ملک احمد خان کہتے ہیںکہ گولی چلانے کا حکم کسی نے بھی نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت جلد خوشخبری دیں گے۔ ان کے پاس کوئی خوشخبری موجود ہی نہیں ہے۔ معاملہ پہلے دن کی طرح تاریکی میں ہے۔ ہمارے نمائندے نے خبر بریک کی تھی کہ قصور واقعات کی ایک بچی کائنات چلڈرن ہسپتال لاہور میں زیر علاج ہے۔ آج ہم نے وہاں رپورٹر اور کیمرہ مین کو بھیجا اور یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پنجاب حکومت نے اس بچی سے ملاقات پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اس باپ سے کوئی بات نہیں کر سکتا۔ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شروع میں ایک دو میڈیا والے آئے تھے وہ خبر لے گئے ہیں اب اس پر اوپر سے پابندی لگائی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب پاکستان کا کون سا قانون کسی انسان کی تیمارداری کرنے سے روک سکتا ہے۔ جمہوریت میں آزادی اظہار کا سب کو حق حاصل ہے حکومت نے کس طرح اس کے باپ سے ملنے سے اس بچی سے ملنے سے روک دیا ہے۔تحریک انصاف کے نعیم الحق نے کہا ہے کہ تمام بڑی سیاسی قوتیں چاہتی ہیں کہ نوازشریف حکومت کا ملک میں جلد از جلد خاتمہ ہو۔ اور عام انتخابات کیلئے راہ ہموار کی جائے۔ نوازشریف کو نااہل ہونے کے بعد یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ حکومت میں رہیں۔ اسی طرح مارچ کے سینٹ الیکشن میں نوازشریف کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس پر ہاوی ہوں۔ ہماری کوشش ہے کہ حکومت جلد از جلد رخصت ہو۔ ہماری طرف سے عام انتخابات کی مہم شروع ہو چکی ہے طاہرالقادری کے ساتھ شامل ہونا بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ سیاسی قوتیں اب نہیں چاہتیں کہ شہباز شریف کی حکومت بھی اب قائم رہے۔ مجھے سینئر وکیل نے بتایا ہے کہ ایک صوبائی حکومت ٹوٹ بھی جائے تو بھی سینٹ کے الیکشن ہو سکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک حکومت درست فیصلے نہیں کر رہی۔ اس کے غلط فیصلوں سے عوام مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبتے جائیں گے۔ نوازشریف معزول ہونے کے باوجود اپنے اختیارات کو غلط استعمال کر رہے ہیں۔ ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے کہا ہے کہ مال روڈ پر دفعہ 144 کا نفاذ ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تھریٹ موجود ہے تو تھریٹ الرٹ سے انہیں آگاہ بھی کیا گیا ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ فارماسوٹیکل کے کارکنان کے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مال روڈ پر آ گئے جس پر سکیورٹی ”کمپرومائز“ ہوئی۔ انتظامیہ نے مظاہرین کو بتایا ہے کہ یہاں جلسے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر بھی یہ اگر ہجوم اکٹھا کر لیتے ہیں اور پی ٹی آئی اور پی پی پی کو ساتھ ملا کر روڈ کو بلاک کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہاں جلسہ کریں گے۔ سڑک کے درمیان اسٹیج لگانا ہے۔ یہ ہائیکورٹ کے احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ قانون شکنی کیسے قانونی حق ہو سکتا ہے۔ گورنمنٹ نے انہیں کہا کہ اگر جلسہ وغیرہ کرنا چاہتے ہیں تو ناصر باغ میں کر لیں۔ اگر یہ پھر بھی نہیں مانتے تو حکومت اپنا کردار ادا کرے گی۔ اگر پرائیویٹ پراپرٹی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ اور ہجوم اکٹھا کر کے کوئی خلاف قانون حرکت ہو گی تو اس کی روک تھام کے لئے پولیس وہاں موجود ہو گی۔ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے پارٹیاں ایسا کیا کرتی ہیں۔ ان کا مطالبہ غیر منطقی ہے۔ اگر یہ انصاف کی تلاش میں ہیں تو وہ کسی دھرنے یا چوک چوراہے مںی جلوس نکالنے سے نہیں ملے گا۔ عدالتیں موجود ہیں مسلم لیگ کہہ چکی ہے آپ عدالت میں جائیں اور اپنا مقدمہ لڑیں۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کریمینل کو پکڑنے کیلئے عدالتیں ڈیڈ لائن دیا کرتی ہیں لیکن گراﺅنڈ پر حقائق کے مطابق کام کیا جاتا ہے۔ سانحہ قصور کا ملزم زیادہ دیر تک قانون سے بچ نہیں پائے گا۔ ہمیں بہت اشارے مل چکے ہیں بہت جلد ملزمان کو پکڑ لیا جائے گا۔ قصور سانحہ میں کسی کو بھی گولی چلانے کا حکم نہیں دیا گیا، ڈی سی کی حفاظت پر معمور گارڈز وہاں موجود تھے۔ وہاں کوئی اضافی نفری تعینات نہیں کی گئی۔ نمائندہ خبریں قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ عمر سعید ملک، ڈی پی او وہاڑی ابھی ابھی قصور پہنچے ہیں ان کے ساتھ مزید 3 افسران موجود ہیں۔ وہ پہلے بھی اس قسم کے کیس ڈیل کر چکے ہیں۔ آٹھ دنوں بعد آج وہ یہاں پہنچے ہیں۔ انہوں نے آج 8 بندے اٹھائے ہیں۔ اور تفتیش شروع کی ہے۔ ملک احمد خان بالکل غلط کہہ رہے ہیں ان کے پاس کوئی اشارے موجود نہیں نہ ہی کوئی خوشخبری دینے والے ہیں۔ آج ایک شخص محمد امین پیش ہوا وہ کہہ رہا ہے کہ میری فوٹیج چلائی جا رہی ہے۔ مجھے گرفتار کر لیں۔ پولیس نے گرفتار کر کے اس کا ڈی این اے کروایا۔ وہ میچ نہیں ہوا۔ آج پولیس نے چوتھی فوٹیج جاری کر دی ہے۔ کائنات کا ریپ دو ماہ قبل ہوا۔ اس کے بعد ملزم نے اپنی طرف سے قتل کر کے قبرستان میں دبا دیا تھا۔ اس سے ملنے والا ڈی این اے زینب سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہ دونوں ایک ہی شخص کے کارنامے ہیں۔ قصور کے سانحات میں گیارہ متاثرہ خاندان میں سے کسی ایک بھی خاندان کو حکومت وقت کی جانب سے ایک پیسہ بھی نہیں ملا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv