تازہ تر ین
governer punjab and zia shahid

”قلم چہرے “گورنر ہاﺅس میں سب سے بڑی ادبی تقریب،کتاب بیش بہا خزانہ ہے ،گورنر پنجاب رفیق رجوانہ

لاہور(وقائع نگار)گزشتہ روز پنجاب کے گورنر ہاﺅس میں چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کی تصنیف ” قلم چہرے “کی تقریب ہوئی۔ یہ تقریب اس تاریخی عمارت کی اب تک کی سب سے بڑی ادبی محفل تھی ۔جیسا کہ اخبار میں شائع ہونے والے اشتہار میں موجود ناموں سے ظاہر ہوتا ہے اس تقریب میں ملک کے ادب ودانش اورصحافت سے جڑے سب بڑے نام موجود تھے ۔گورنرز پنجاب رفیق احمد رجوانہ نے اس موقعہ پرخودبھی اس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ صحافت اور ادب کے سارے ستارے آج گورنر ہاﺅس میں جمع ہیں اور مجھے انکی میزبانی کرکے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔ اس تقریب کی صدارت بھی گورنر پنجاب نے کی جبکہ ضیا شاہد اور نمرہ عروج نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ تقریب میں نامورادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

لاہور (سپیشل رپورٹر+ وقائع نگار) گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہی نہیں بلکہ معاشرے کا عکس بھی ہے۔ معاشرے کی اصلاح اور بگاڑ میں اس کا کردار انتہائی اہم ہے ۔انہوں نے کہا کہ میڈیا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ منفی ذہن کے رجحانات اور منفی ذہن کی شخصیات کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ ملک و قوم کا مثبت امیج ابھر کر سامنے آئے۔ تنقید برائے تنقید ہی نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے معروف صحافی اور دانشور ضیا شاہد کی نئی کتاب ”قلم چہرے “کی تعارفی تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔گورنر پنجاب نے کہا کہ جو قومیں اپنے اسلاف اور تاریخ کو یاد رکھتی ہیںتاریخ بھی انہیں یاد رکھتی ہے اور انہیں بام عروج پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔انہوں نے کہا کہ اہل علم ودانش حضرات ہمارے ملک کا حقیقی سرمایہ ہیں جو اپنی تحریروں کے ذریعے نہ صرف زمانے کی نبض شناسی کرتے ہیںبلکہ آنے والی نسلوں کو سچے جذبوں کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔گورنر پنجاب نے کہا کہ برصغیر کی صحافتی تاریخ میں ایسی ایسی قد آور شخصیات آتی ہیں جنہوں نے صحافت کے ساتھ ساتھ ادب کی مختلف جہتوںمیں بھی کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔گورنرنے کہا کہ جو تعلق شاعری اور غزل کا ہے وہی ناطہ ضیا شاہد اور صحافت کا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب قلم چہرے میں معروف صحافی نامورخطیب اور شاعر آغا شورش کا شمیری پر طبع آزمائی کر کے بطور مصنف اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب عہد ساز شخصیات کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے بیش بہا خزانہ ہو گا۔گورنر پنجاب نے کہا ہے کہ ملک اس وقت جن حالات سے گذر رہا ہے اس میں اہل قلم کی ذمہ داریاںاور بھی بڑھ گئی ہے اور انہیں اپنے قلم کے ذریعے ملک کی نظریاتی ، دفاعی،فکری ، علمی اور سیاسی اساس کا دفاع کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے جو ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہو تو پورا جسم قرب میں مبتلا ہوجاتا ہے، ہمیں پورے جسم کا خیال رکھنا ہے۔گورنر نے کہا کہ ہم ایک ہی گاڑی کے سوار ہیں، آزادی حق کا اختیار سب کو ہے تاہم اہم قومی ایشوزپر تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو متحد ہونا چاہیے۔انہوں نے ضیا شاہد کی صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور قرار دیا کہ ان کی حیثیت اس شعبہ کے چانسلر کی ہے۔ اس موقعہ پرسینئرصحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ضیا شاہد کی یکے بعد دیگر ے شائع ہونے والے تصانیف دیکھ کر ایسا لگتا ہے ہے کہ ان کے اندرکوئی چھاپہ خانہ ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ سپاہی سے جنر ل بنے جس میں ان کی طویل جدوجہد اور طویل سفرشامل ہے۔ اس سفر میں انہوں سخت مشقت بھی اٹھائی ۔ان کی یہ کتاب صحافت اور سیاست کے طالب علموںکے لیے مشعل راہ ہے ۔معروف کالم نگار اسد اللہ غالب نے کہا کہ گورنرپنجاب کا مشکور ہوں جنہوںنے گورنر ہاﺅس کو ثقافتی اور ادبی مرکز بنا دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ کتاب کلچر ختم ہوتا جارہا ہے جسے پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے ان کا کہنا تھاکہ یہ کتاب عام فہم اور اپنی مثال آپ ہے ۔اس موقع پرایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت سعید آسی کا کہنا تھا کہ ضیا شاہد نے قلم کاروں کو مدعو کرنے کا اچھا سلسلہ جاری رکھا ہواہے ان کی یہ تصنیف نہ صر ف طالب علموں کے لیے باعث رہنمائی ہے بلکہ اس سے اپنی کمیونٹی بھی مستفید ہوگی۔معروف کالم نگار اور سینئر صحافی خوشنود علی خان نے کہامیں ضیا شاہد کے بہت قریب رہا ہوں اور کتاب میں درج بہت سے واقعات کا گواہ بھی ہوں ان کی یہ کتاب میںنے اول سے آخر تک پڑھی ہیں جس کا چناﺅ ضیا شاہد کا خاصہ ہے جس میں شورش کاشمیری۔ ”سقوط ڈھاکہ “کا دن مولانا کوثر نیازی کی مٹھائی کھلانااور مسعوکھددپوش کے بارے میں اہم معلومات موجود ہیں میر ی خواہش ہے کہ وہ اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی لکھےں ۔کتاب کے حوالے سے ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا قلم چہرے میں جن شخصیات کا تذکرہ کیا ہے ان کے حوالے سے ان کا قلم تعصب سے پاک ہے ارشاد حقانی کی کنجوسی اور مجید نظامی کے اوصاف کے حوالے سے انہوں نے خوب اور ٹھیک لکھا ہے۔ معروف اینکر اور کالم نگارسہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ضیا شاہد کی اس کتاب نے تاریخ کو زندہ کردیا ہے جس میں شورش کاشمیری سمیت دیگر شخصیات کے حوالے سے وہ باب بھی ہم پر کھل گیا ہے جو ہم سے چھپا ہوا تھا ۔گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر روزنامہ دنیاسلمان غنی کا کہنا تھا کہ سیاست اورصحافت کو پڑھنا اور جاننا ہو تو قلم چہرے کا مطالعہ ضروری ہے یہ کتاب مجھ سمیت نئے طالب علموںکے لیے بلاشبہ مشعل راہ ہے۔ اس حوالے سے اجمل نیازی کا کہنا تھا ایم اے عربی کرنے کے بعد صحافی بننا اور پھر مصنف بننا حیران کن ہے ہمیں کتاب سے رشتہ جوڑنا ہوگا ۔حافظ شفیق الرحمان کا تھا کہ اس موضوع پر یہ پہلی کتاب نہیں ہے مگر کوئی کتاب اتنی تفصیل میں نہیں لکھی گئیں جس میں سینکڑوں افراد کااحاطہ کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ضیا شاہد ایک شخصیت نہیں ایک ادارہ ہے انجمن ہے پورا ادبستان ہے ۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم نے کہا کتاب شروع سے لے کر آخر تک دلچسپ اور معلومات سے بھرپور ہے جو تاریخ کے طالب علموں کے لیے رہنمائی کا باعث ہے ۔سینئر صحافی سلمان عابد کا کہنا تھا اس کتاب میں تیرہ شخصیات کا چناﺅ کیا۔ بہت سی شخصیات ایسی ہے جو تاریخ کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہیں جس کا بیڑ ہ ضیا شاہد نے لکھاری کے طور پر اٹھا یا ہے اور ان شخصیات کو نوجوان نسل میں متعارف کروایا ہے قیوم نظامی کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں لکھنے کا رواج بہت کم ہے ضیا شاہدکی اس کتاب کے زریعے ماضی میں سیاست دان اور صحافت کیسی تھی اس تاریخ کو نئی نسل کو ٹرانسفر کر رہے ہیںجو کہ ایک اچھا اقدام ہے ۔ایڈیٹر روزنامہ92ارشاد عارف نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب جرات ، صاف گوئی ، قلم بند روانی اور شگفتگی کے ساتھ لکھی گئی ہے جس کو پڑھ کر بوریت نہیں ہوتی جس میں نمایاں شخصیات کی خوبیاں اورخامیاں بیان کی گئی ہیں اس موقعہ پر بشری اعجاز نے کہا کہ ضیا شاہد کالم نگاری میں میر ے محسن اور سرپرست رہے ہیں اس کتاب میں ان خاکوں کو پیش کیا گیاہے جو وقت کی دھند میں کھوچکے ہیں اور جس بسیار نویسی سے یہ کتاب لکھی گئی ہے وہ داد کے لائق ہے۔سلمی اعوان کا کہنا تھا کہ ضیا شاہد کی ا ن شخصیات کے لیے یہ کاوش قابل ستائیش ہے اور میں چاہوں گی کہ و ہ اس کا دوسرا حصہ بھی لکھیں۔سید سجاد بخاری نے کہا یہ کتاب براہ راست تاریخ کے طالب علموں کے لئے بہت مفید ہے جس میں ان شخصیات کے حوالے سے ذاتی معلومات اور دیگر حوالہ جات کر تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اس بارے نئی نسلوں کو آگاہ کرنا چاہئے جو ہم نے دیکھا ہے اس کو لکھنا بھی چاہے یہ ہمارا فرض بھی ہے اور قرض بھی ۔اس موقع پر صوفیہ بیدار کاکہنا تھا کہ 1992میں مزدروں کااخبار بنانا ناممکن کام تھا مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا اور نادرونایاب زندگی بسر کی اور سرمایہ کاروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا احمد بشیرکے بعد خاکہ نگاری میں سب بڑا نام ضیا شاہد کا ہے۔اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر طیب اعجاز قریشی نے کہا دیوار پر لکھنے سے لے کر ایک اخبار کا مالک بننے کے لیے انہوں نے زندگی بھر خوب محنت کی ان کی کتاب نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے ۔ایڈیٹر روزنامہ پاکستان ایثار رانانے کہا ضیا شاہد کا سب سے زیادہ احترا م کرتا ہوں میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کی طرزتحریر کے بارے کچھ بیان کر سکوں وہ بادشاہ نہیں بادشاہ گر ہے ۔اس حوالے سے سیکرٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے کہااس کتاب میں طالب علموں کے لیے رہنمائی پوشیدہ ہے جس کے لیے صاحب کتاب داد اور تحسین کے مستحق ہے ،ایگزیکٹو ایڈیٹر روزنامہ خبریںتوصیف احمد خان نے کہا ضیا شاہد سچے اور کھرے پاکستانی ہیں اور سخت گیر متنظم ہے ان پر بھی کتاب لکھی جانی چاہئے ۔معروف شاعرہ صغری صدف کا کہنا تھا کہ یہ کتاب داستان گوئی کی چاشنی ہے ضیا شاہد کی کتاب ماں جی اور دیگر کتب کی طرح یہ ایک اور خوبصورت تخلیق ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہے ۔۔صوبیہ خان کا کہنا تھاکہ قلم چہرے میں جن شخصیات کا زکر ہے وہ ہمارا اثاثہ ہیں اور ضیا بھی انہیں میں شامل ہیں جنہوں نے ان کو یاد رکھا اور خراج تحسین پیش کیا ۔رانا عامر رحمان نے کہا یہ کتاب ضیا شاہد کے مشاہدات کا نچوڑ ہے انہوںنے صحافت میںخوب نام کمایا ہے میں ایک عمدہ کتاب لکھنے پر ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں سنئیر صحافی کاظم خان نے کہا کہ ضیا شاہد نے بہت اہم کام کیا ہے ہمیں بھی ان کی جدوجہد سے سیکھنا چاہیے کتاب کے حوالے سے کالم نگار محمد فاروق چوہان نے کہا کہ ہم نے گزشتہ تین دہائیوں میں ضیا شاہد کی کامیابیوںکا سفر اپنی آنکھوںسے دیکھا ہے اس عرصے میں وہ کامیاب ایڈیٹرسے کامیاب مصنف بھی بنے ہیں ان کی کتابوںاسلوب عام فہم ہے اس وجہ سے پورے ملک میں انہیں پذیرائی مل رہی ہیں۔نامور ادیب علامہ عبدالستا ر عاصم نے کہا کہ ضیا شاہد کی کتابوں کے ایڈیشن پے درپے آرہے ہیں اورعوام میں ایسی کتابوں کی گنجائش موجودہیں ۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv