تازہ تر ین

سانحہ ماڈل ٹاﺅن ۔۔۔ صورتحال کشیدہ ،اب کیا ہونے جا رہا ہے ؟ضیا شاہد کے پروگرام میں اہم گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عدالتیں تمام ہی قابل احترام ہیں۔ سپریم کورٹ ہو یا ہائیکورٹس ہوں۔ عدالتیں قانون کے مطابق ہی فیصلے کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے اوپرنیچے کچھ واقعات اس طرح رونما ہوئے ہیں۔ لگتا ہے کہیں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس کھڑے کھڑے اڑا دیا جس کے متعلق شیخ رشید کہہ رہے تھے کہ یہ کیس سب کی ماں ہو گا۔ اس طرح اسحاق ڈاار کے متعلق نیب کورٹس نے فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڑا دیا۔ نیب عدالت نے اسحاق ڈار کا اعترافی بیان ساتھ لگایا۔ جس کے متعلق اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ پولیس حراست میں زبردستی ان سے لیا گیا تھا۔ عدالتی فیصلے ملکی تاریخ کو تہہ بالا کر رہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر بیان نہیں دیئے جا سکتے لیکن جس قسم کی اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے۔ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ سچ کہہ رہے ہیں کہ ”بابے“ پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کی ملک میں حکومت ہے۔ ان کے صدر کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کے بعد تحریک چلائیں گے۔ موجودہ حکومت جس کی وفاق اور صو صوبوں میں حکومت کے علاوہ چاروں گورنرز بھی موجود ہیں۔ وہ کس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ کیا اپنی حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے؟ شاہد خاقان عباسی نے میرے ساتھ ملاقات میں کہا کہ میں آئین کے خلاف کوئی بھی کام برداشت نہیں کروں گا۔ آئین کے خلاف کسی تحریک کا ساتھ نہیں دوں گا۔ نوازشریف کی تحریک آئینی ہے یا غیر آئینی؟ ہمارے عدالتی فیصلوں کو کوئی قبول کرتا ہے کوئی قبول نہیں کرتا۔ روش یہ بن گئی ہے کہ فیصلہ جو حق میں آ جائے وہ قابل قبول ہے۔ جو خلاف آ جائے اس کے خلاف شور مچانا شروع ہو جائیں۔ دنیا میں جب سے تہذیب تمدن وجود میں آیا۔ تو فیصلہ ہوا کہ ایک عدالت موجود ہونی چاہئے۔ اور ایک کتاب موجود ہونی چاہئے۔ جس میں آئین درج ہو۔ دو فریق جب عدالت چلے جائیں تو فیصلہ عدالت پر چھوڑ دینا چاہئے۔ اور اس کے فیصلوں کو قبول کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ باقی تمام راستے خواہ وہ دھرنے کے ہوں، احتجاج کے ہوں یا تحریک چلانے کے ہوں سب غیر آئینی بنتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی۔ جس وقت ڈکٹیٹر نے چیف جسٹس آف پاکستان کو نظر بند کر دیا۔ اس تحریک میں وکلاءاور دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی باہر نکلے گوجرانوالہ پہنچتے ہی اارمی چیف کا فون آ گیا کہ حکومت کو منا لیا ہے۔ وہ افتخار چودھری کو واپس لے لیں گے۔ لہٰدا آپ گھر جائیں۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ نوازشریف جسے تحریک کہہ رہے ہیں کچھ لوگ اسے کے حق میں ہیں لیکن بہت سارے لوگ اس کے خلاف ہیں۔ میرا خیال ہے کہ طاہر القادری کے بیان پر سنی سنائی بات نہیں کرنی چاہئے کل یا پرسوں میں خود ان سے ملتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ ان کی طرف سے ایک نئی ٹرم سامنے آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماڈل ٹاﺅن پر آنے والی رپورٹ کو وہ تسلیم نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ غیر جانبدار عدالت ہونی چاہئے۔ اسی طرح رانا ثناءاللہ سے پوچھتے ہیں کہ وہ طاہر القادری کی تاریخ کو ان کی واپسی کی تاریخ کس طرح سمجھتے ہیں کہ طاہر القادری نے اپوزیشن کی جماعتوں کو ساتھ ملا لیا ہے لگتا ہے وہ واپس نہیں جائیں گے اور اب یہ معاملہ سنجیدگی سے آگے بڑھائیں گے۔ آرمی چیف کی سینٹ میں 3 گھنٹے تک سوالوں کے جواب میں سے یہ ایک جواب لگتا ہے کہ اگر دھرنے میں کردار ثابت ہو جائےت و مستعفی ہو جاﺅں گا۔ سینٹ چیئرمین خود بھی قانون دان ہیں اور اعتزاز احسن بھی ان کے ساتھ تھے۔ نامعلوم کتنے پائے کے دیگر لوگ وہاں موجود ہوں گے یقینا انہوں نے پوچھا ہو گا کہ دھرنے میں کیا کردار ادا کیا؟۔ ہمارے سامنے آرمی چیف کا جواب تو آ گیا لیکن ابھی سوال سامنے آنا باقی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل غفور سے ہم نے کل بھی درخواست کی تھی کہ وہ تفصیلات بتا دیں تا کہ معلوم ہو کہ کیا سوال کئے گئے جس کے بعد آرمی چیف کی جانب سے اس طرح کے جوابات سامنے آئے ہیں۔ ترجمان پنجاب حکومت، زعیم قادری نے کہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی تحریک چلانے والی بات کو لوگ صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پائے۔ جس تحریک کا انہوں نے ذکر کیا ہے وہ کسی ایک مقدمے یا ایک فیصلے تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کے جوڈیشل معاملے کو درستگی کی جانب لے کر جانے کے بارے میں ہے۔ سستے اور فوری انصاف کی بات بہت سارے لیڈر کر چکے ہیں اور جوڈیشل اصلاح کی بات کرتے رہے ہیں۔ جج کا کردار پورے معاشرے میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر اس کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق نہ ہو تو وہ بہت سارے سوالات چھوڑ جاتا ہے انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔ میاں صاحب جوڈیشل نظام کی اصلاح کےلئے تحریک چلانے جا رہے ہیں۔ اس میں ملک کے ہر شہری کو حصہ لینا چاہیے۔ کیونکہ فوری بے لاگ، سستا انصاف سب کی ضرورت ہے۔
ماہر قانون دان، جسٹس(ر) وجیہہ الدین، دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ اقتدار والی پارٹی تحریک چلانے کا اعلان کرے۔ مسلم لیگ ن کی وفاق میں حکومت ہے پنجاب اور بلوچستان میں ن کی حکومت ہے۔ ان کی تحریک آزاد عدلیہ کے خلاف ہی ہو سکتی ہے جبکہ عدلیہ کو آئین اور قانون نے بااختیار بنایا ہے۔ اس کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی جا سکتی۔ دین اسلام میں بھی قاضی کے فیصلوں کو قبول کرنا فرض ہے۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے خلاف تحریک چلائیں گے جبکہ ادارے ان کے انڈر میں ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے ایک ضرب المثل پیش کی تھی اور ”بابے رحمے“ کا نام لیا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ برے کی بات سننی چاہیے اور اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ امریکی سپریم کورٹ میں جارج بش کا کیس تھا۔ 9 میں سے5 ججز نے بش کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ 4 نے ان کی مخالفت میں فیصلہ دیا یعنی مکمل سیاسی فیصلہ دیا گیا جو کہ غلط بھی تھا۔ فیصلے صحیح بھی ہوتے ہیں غلط بھی ہوتے ہیں لیکن ملک کو آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن حتمی فیصلے کو قبول کرنا چاہیے۔ تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اس کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ میاں صاحب نے واضح اعلان نہیں کیا کہ وہ تحریک کس کے خلاف چلائیں گے۔ لگتا یہی ہے وہ عدالت کے خلاف ہی تحریک چلائیں گے۔ میاں صاحب کو یاد ہونا چاہیے کہ مشرف نے تمام ججز کو فارغ کر دیا تھا۔ اسی طرح میاں صاحب تمام ججز کو نااہل کر کے گھر کیوں نہیں بھیج دیتے۔ یہ ضیاءالحق کے پیروکار ہیں۔ ضیاءالحق اور مشرف میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ عدالتوں کو تالے لگا دیں، سارے فیصلے خود کریں۔ میاں نواز شریف کی تحریک بالکل غیرآئینی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ میرے وزیراعظم تو نواز شریف ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ غیرآئینی تحریک کا ساتھ نہیں دونگا اور دوسری جانب میاں صاحب کو وزیراعظم تسلیم کرتے ہیں تو ان کی بات کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے؟



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv