تازہ تر ین

شہباز شریف کو ن لیگ چلانے کا موقع دیا جائے تو الیکشن ہو سکتے ہیں :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ الیکشن وقت مقررہ پر ہوں گے جولائی 15 کو الیکشن ہونگے اور 30 تاریخ کو اگلی حکومت بن جائے گی۔ یہ تاثر غلط ہے کہ میرے مام میں کس طرح کا کوئی اور شخص مداخلت کرتا ہوں۔ میاں نوازشریف ہمارے لیڈر ہیں لیکن انہوں نے مجھے کبھی ڈکٹیٹ نہیں کروایا۔ ہم نے ان سے اسپیکر صاحب کے بیان کے حوالے سے پوچھا جنہوں نے کہا اسمبلی چلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں سب کو اظہار رائے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس پر بہت جرح ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اسمبلی کو فارغ بھی کر دیا جائے تو اسپیکر اور سینٹ چیئرمین تو باقی رہتا ہے۔ ان کے بیان سے آپ کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوا۔ میرے خیال میں شاہد خاقان عباسی نوازشریف کے خلاف چل نہیں سکتے۔ میاں نوازشریف نے قومی اداروں کیخلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔ اداروں میں فوج اور عدلیہ سرفہرست ہیں۔ نوازشریف اگر ایسی کوئی تحریک چلائیں گے تو وہ آئین کے خلاف ہو گی۔ کیونکہ آئین کی فوج اور عدلیہ کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اب شاہد خاقان عباسی کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنے کہے پر عمل کریں۔ اور کسی کو بھی قومی اداروں کے خلاف کوئی تحریک نہ چلانے دیں۔ اگلے الیکشن میں بہت کم وقت باقی ہے۔ وزیراعظم نے گفتگو کے شروع میں کہا کہ اصل فیصلہ پولنگ اسٹیشن میں ہی ہوتا ہے۔ عوام فیصلہ کرتی ہے کہ کون درست ہے کون غلط انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں دو لیڈر ہیں ایک نوازشریف اور دورے عمران خان۔ زرداری کے بارے انہوں نے کہا کہ وہ نواز شریف کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے اور اپوزیشن کی ایک ہی شخصیت ہے وہ عمران خان ہے۔ نوازشریف کے خلاف تیز ترین اپوزیشن عمران خان ہی ہے۔ لیکن آصف زرداری کی پوزیشن سندھ میں مضبوط ہے۔ وہ اپنے ارکان کو وہاں بڑی تعداد میں کامیاب کروا سکتے ہیں۔ البتہ ایم کیو ایم کا ووٹ اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ لہٰذا ایم کیو ایم کو زیادہ ووٹ نہیں جا سکے گا۔ ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کر رہی ہے۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کو بھی میدان میں آنا چاہئے۔ اس کی قیادت اس وقت متنازع ہو چکی ہے۔ جب تک عدالتوں سے کلیرنس نہ مل جائے۔ شہباز شریف زیادہ اچھی پوزیشن میں ہیں حدیبیہ کیس کے خاتمہ کے بعد اب صرف ماڈل ٹاﺅن کا کیس ہی ایک بڑا الزام رہ گیا ہے۔ لہٰذا نوازشریف از خود اگر مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے سپرد کرتے ہیں اور سیاسی طور پر بڑے جلسے کریں اور وہ عمران خان کے مقابلے میں اپنی پارٹی کو منظم کریں اس کے سوا چارہ نہیں۔ اگر نوازشریف جلسوں کی قیادت کریں گے تو انہیں عدالت اور فوج کے خلاف بولنا پڑے گا۔ جس سے ان کی پوزیشن آئینی طور پر خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اگر میاں نوازشریف عدلیہ اور فوج کے خلاف تحریک چلاتے ہیں تو نا چاہتے ہوئے بھی لاءاینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنے کے لئے پہلے پولیس پھر رینجرز اور آخر میں فوج کو طلب کرنا پڑے گا۔ ایک شہر تک محدود رہی تو کچھ نہیں اگر میاں صاحب کی تحریک گلی گلی کوچے کوچے پھیل گئی تو فوج کو ہر جگہ سامنے آنا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جمہوری نظام کو لپیٹ دیا جائے۔ میں نے آخر میں وزیراعظم کو اپنی کچھ کتابیں پیش کیں اور ان سے یہی کہا کہ میرے خیال میں آپ کو سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ 2018ءکے الیکشن کے انعقاد تک ایک پُرامن فضا قائم رکھی جائے۔ اور لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اور خوش اسلوبی سے الیکشن تک پہنچا جائے۔ مگر اس سے پہلے اداروں میں ٹکراﺅ ہو گا تو الیکشن نہیں ہو سکے گا۔ جوڈیشری کے خلاف جتنی باتیں اب ہو رہی ہیں ہم نے آج تک تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی چیف جسٹس آف پاکستان کے لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف کو وقتی طور پر پیچھے ہٹ کر قیادت شہباز شریف کو سونپ دینی چاہئے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی الیکشن میں فتح یاب ہو جائے گی۔ کیوں شہباز شریف کا انداز تھا ہمارے اور وہ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے برعکس نواز شریف اپنے خلاف آنے والے فیصلے کے بعد سے اداروں سے ناراض دکھائی دیتے ہیں اور ان پر تابڑ توڑ حملے بھی کرتے ہیں اور ان پر چڑھائی بھی کرتے ہیں۔ ان کی صاحبزادی ان کے خیر خواہ اور چند وزراءبھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ طلال چودھری، دانیال عزیز کو تو نوکری ہی اس لئے ملی تھی کہ عمران خان کے ایک سوال کے دس جواب دینے ہیں۔ بہت سے لوگ اس وقت شک و شبہ میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوتے ہیں یا نہیں۔ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں۔ ملک میں جمہوریت جاری رہنی چاہئے۔ آرمی چیف کی سینٹ میں بریفنگ کو میں خوش آئند سمجھتا ہوں۔ کیونکہ فوج ریاست کا ادارہ ہے اور وہ وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔ ہمارے آرمی چیف بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ آئین کا احترام کرتے ہیں اور وہ جمہوریت کو جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں فوج مارشل قسم کی چیز لانے کی خواہش مند ہے۔ قمر جاوید باجوہ کی بریفنگ سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ فوج خود کو کس کے آگے جوابدہ نہیں سمجھتی۔ اور ثابت ہوتا کہ ملک میں جمہوریت ہے اور منتخب پارلیمنٹ ہو یا سینٹ ہو اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور سارے ادارے آئین کے تحت کام کر رہے ہیں۔ آرمی چیف کا یہ اقدام جمہوری قدروں کو مضبوط کرے گا۔ اس سے ساری دنیا دیکھے گی کہ ہماری فوج جمہوری اداروں کو ختم نہیں کرنا چاہتی۔ بلکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے۔ اس کے برعکس اگر آرمی چیف خود کو کسی کے آگے جوابدہ نہ سمجھتے تو پھر دنیا کو اعتراض ہوتا کہ فوج جمہوری اداروں کو تسلیم نہیں کرتی اور ملک میں اضطراب اور ٹینشن ہے جس کے فوری بعد سب سے پہلے امریکہ اور پھر دوسری سپر طاقتیں جو پہلے بھی اعتراض کرتی آئی ہیں کہ پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ہے لیکن اس کے نیوکلیئر اثاثے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ فوج کسی سول ادارے کو نہیں مانتی۔ آرمی چیف کی بریفنگ بالخصوص دشمنوں کو اور بالعموم تمام دنیا کو یہ تاثر جائے گا کہ ہمارے نیوکلیئر اثاثے محفوظ ہیں۔ جبکہ ہمارے دشمن ممالک یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ ہمارے اثاثے محفوظ نہیں ہیں یہ دشمن چاہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا تاثر پھیلا دیا جائے کہ پاکستان کا کاروبار فوج کے ہاتھوں میں ہے۔ یہاں انتہا پسند آ گئے ہیں یہ سویلین حکومت کی برتری تسلیم نہیں کرتے لہٰذا نیوکلیئر ایسٹ کو محفوظ بنانے کے لئے کسی کو نگران مقرر کیا جائے۔ ایک وقت میں یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ یو این او کی کسی ادارے کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک میں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ نہیں اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ اس لئے ان کی چیکنگ ضروری ہے۔ جبکہ ہمارے اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ فوج آئین کے مطابق کام کر رہی ہے منتخب جمہوریت ہے۔ دشمن پراپیگنڈے کا جواب ہم سب کو مل کر دینا ہے۔ ہمارے اکثر پارلیمنٹرین لکھنے پڑھنے سے ذرا دور ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ ہمارا قانون کسی فوجی نے بنایا تھا۔ اچھا تھا یا بُرا۔ اس میں درج ہے کہ ایک چپڑاسی کی بھرتی کے لئے میٹرک اور ایک سائیکل شرط ہو گی۔ اس طرح، سینٹ، قومی سمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لئے شرط کم از کم بی اے ہونی چاہئے۔ لیکن جہلاءکی بڑی تعداد ان اداروں میں موجود ہے۔ انگوٹھا چھاپ اور انڈر میٹرک افراد بیٹھے ہیں سب نے ملی بھگت کر کے جب جعلی سرٹیفکیٹ پکرے جانے لگے اور عدالتیں ان کو نااہل قرار دینے لگیں تو یہ آپس میں مل گئے اور قانون کو ہی اڑا دیا۔ اب کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ جسے دستخط بھی نہ کرنے آگے ہوں وہ ان اداروں کے ممبر بن سکتے ہیں۔یہ ان پڑھ ٹولہ اپنے علاقے میں راجے، مہاراجے بنے ہوئے ہیں۔ وہ عوام کی سہولتوں کو اپنے لئے مخصوص کر چکے ہیں۔ یہ جمہوری نظام کی بدقسمتی ہے۔ پاکستان ہندوستان کے درمیان انڈس واٹر کمیشن 1960ءمیں بنا تھا۔ اس کے تحت 3 دریا پاکستان کے حصے میں آئے۔ چناب، جہلم اور سندھ۔ ستلج بیاس اور راوی ان کا زرعی پانی انڈیا کے حصے میں آیا۔ اس کے بعلے ورلڈ بینک کے تعاون سے ہم نے تربیلا اور منگلا کی دو جھیلیں بنائیں۔ اس معاہدے میں درج ہے ہم نے دریاﺅں کے زرعی پانیوں کا معاہدہ کیا۔ جبکہ دریا کے پانی کے چار استعمال ہیں۔ (1) زرعی پانی (2) پینے کا پانی (3) آبی حیات کا پانی (4) ماحولیات کا پانی۔ بھارت نے یقین دہانی کروائی کہ چناب جہلم سندھ سے ان چیزوں کے لئے وہ پانی استعمال کرے گا اور وہی سہولت انہوں نے ستلاج، بیاس اور راوی کے پانی پر پاکستان کو نہیں دی۔ انڈس واٹر کے کمشنر سے پوچھا تو انہوں نے قبول کیا کہ ہم اس بنیاد پر کشن گنگا جو کشمیر میں داخل ہو کر دریائے ستلج کی شکل اختیار کر گیا ہے اس کے پانی کا کیس ہم انٹرنیشنل مصالحتی عدالت سے جیت چکے ہیں۔ جس کے تحت پورا پانی کسی بھی دریا کا بھارت نہیں روک سکتا۔ ہم نے تو مطلوبہ پانی دریائے نیلم میں چھوڑ دیا۔ ہم نے وکلائ، کمشنرز اور اہم لوگوں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا ہم عدالت میں جا سکتے ہیں اور اپنے حصے کا تینوں دریاﺅں کا مطلوبہ پانی حاصل کر سکے ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں پہلے لوگوں کو اکٹھا کریں گے پھر عدالتوں میں جائیں گے اگر حکومت نہ گئی تو ہم انٹرنیشنل عدالت میں یہ ایشو لے کر جائیں گے۔ میں نے اور محمد علی درانی نے مختلف خطوط لکھے جس کے جواب میں یورپی یونین اور دیگر اہم اداروں کو خطوط لکھے ہیں۔ ارکان اسمبلی اور سینٹ کو بھی خطوط لکھے ہیں۔ صوبائی ارکان کو بھی خطوط لکھے ہیں۔ آج وزیراعظم سے بھی درخواست کی جس کے جواب میں انہوں نے کہا ہم پہلے ہی یہ مسئلہ ورلڈ بینک کے سامنے لے جا چکے ہیں۔ امید ہے ہمارے حق میں فیصلہ ہو گا۔ یورپ ایک ”برین سیل“ ہے اگر ہم اسے قائل کرنے میں کامیاب ہو سکے تو انٹرنیشنل لیول پر یہ بات اجاگر ہوتی کہ بھارت نے سو فیصد پانی روک کر انڈس واٹر ٹریسٹی کی خلاف ورزی کی ہے یہ پانی ہمیں ملنا چاہئے۔ اگر 20 فیصد پانی بھی لینے میں کامیاب ہو گئے تو نہ صرف اوپر آ جائے گا بلکہ آبی حیات ماحولیات سے پینے کے پانی کا معیار بھی بہتر ہو جائے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv