تازہ تر ین

مسلمان ممالک ٹرمپ کے فیصلے کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں :سرتاج عزیز


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بیت المقدس کی دارالحکومت بنانے کا فیصلہ اسرائیل نے بہت پہلے کر لیا تھا۔ لیکن اس وقت دنیا نے اسے منظور نہیں کیا تھا۔ اور یو این او نے ایک قرارداد میں اس کو نامنظور کیا تھا۔ دنیا کے تمام ہی مسلمانوں کا کہنا تھا کہ یہ ایک مذہبی تقدیس کا شہر ہے۔ اگر اسرائیل یہاں پر اپنے سفارتخانے منتقل کرے گا۔ تو اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔ اس وقت بیت المقدس کا ایک حصہ اردن کے پاس موجود تھا۔ بعد میں اسرائیل نے حملہ کر کے اس سے یہ علاقہ خالی کروا لیا تھا دیکھنا یہ ہے کہ کیا مسلم ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ وہاں کے سکالرز وہاں کے عالم وہاں کے دانشور اگر احتجاج شروع کریں۔ جو کہ اکثر ایسی تحریکیں جمعہ کے روز سے شروع ہوتا ہے کل کے خطبات میں اسی طرف توجہ دی جائے گی کیا مسلمان ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ اس فیصلے پر اثر انداز ہو سکیں۔ یا دنیا کے دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر سفارتی سطح پر ایک بڑی موومنٹ پیدا کر سکتے ہیں؟ موجودہ دور میں کسی بھی اسلامی ملک میں کوئی شاہ فیصل دکھائی نہیں دیتے۔ نہ ہی سفارتی سطح پر ذوالفقار علی بھٹو جیسی قد آور شخصیت بھی نظر نہیں آتی۔ کچھ لوگ ترکی کے صدر اردگان کا نام لیتے ہیں۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ ترکی نے بہت پہلے سے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر رکھا ہے بلکہ اچھے سفارتی تعلقات بھی قائم کر رکھے ہیں۔ اگر اس موقع پر بھی اسلامی کانفرنس کا احیاءنہیں ہوتا اور وہ اپنا اجلاس تک نہیں بلاتی۔ اجلاس بلا کر چند قرار دادیں منظور کر کے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں تو ہمیں امید نہیں رکھنی چاہئے۔ چند دن قبل نظریہ پاکستان میں لیکچر کے دوران میں نے کہا کہ پاکستان کو خود دار بننے کیلئے پہلے خود کفیل ہونا پڑے گا۔ کیونکہ بھکاریوں کی خودداری نہیں ہوا کرتی۔ پاکستان کے معاشی حالات کے تناظر میں دیکھیں کہ سالانہ بجٹ بنانے کیلئے بھی ہمیں دنیا کے مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔ جنہیں امداد کی توقع ہو۔ وہ ان کے خلاف کیسے اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین ایک قابل اور تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور وہ مختلف ممالک میں سفیر بھی رہ چکی ہیں۔ ان سے پوچھتے ہیں کہ ٹرمپ کے تازہ فیصلے کے ردعمل کے طور پر مسلمان ممالک میں یکجہتی کی ملاقات پیدا ہو سکیں گے؟ یا اسلامی حکومتیں زبانی جمع خرچ کے بعد بیٹھ جائیں گی؟ شاہ فیصل کے دور حکومت میں تیل کے ہتھیا کی بات ہوئی تھی۔ یہی سب سے بڑا پریشر بنا تھا مغربی ممالک پر۔ امریکہ کیلئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ اسلامی ممالک کے بڑے بڑے اشخاص امریکہ میں اپنے بینک اکاﺅنٹ بند کر دیں۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ ان کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسا ہو گا یا نہیں کیونکہ دنیا کے مسلمان امراءنے وہاں اپنے اپنے پیسے لوٹ کر وہاں جمع کرا رکھے ہیں۔ صرف سوئیٹزر لینڈ سے پیسہ واپس آ جائے تو ہمارے ملکی حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ قومیں جب اپنی ذلت کو پہنچ جاتی ہیں۔ تب کہیں سے کوئی مرد قلندر کھڑا ہوتا ہے اور کوئی ایسی قوت ابھرتی ہے کہ وہ اس سارے گلے سڑے نظام کو عیاش حکمرانوں کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ قطری شہزادے جس نے ہمارے حکمرانوں کو خط لکھا جب اسے بلایا گیا تو وہ نہیں آیا۔ لیکن اس مرتبہ خود آیا۔ کیا مجھ سے کسی نے پوچھا کہ ذرا دیکھیں قطری شہزادوں نے ہماری کتنی زمین لیز پر لے رکھی ہے۔ یہ زمین شکار کے لئے لیز پر دینے کی بجائے وہاں کے پاکستان کو دی جائے تو ہمیں فائدہ ہے۔ وگرنہ قطری شہزادوں، دبئی کے امراءکی دولت کو فقط حکمرانوں کو فائدہ ہی ہو گا۔ ہم جسے آج دہشت گردی کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ عرب ممالک سے شروع ہوئی۔ جب آپ کسی کے علاقے پر قبضہ کر لیں گے۔ اور وہاں سے مقامی لوگوں کو مار مار کر نکال دیں گے۔ دنیا بھر کی سپر پاورز اسرائیل کی مدد کریں گی اور حکمران فوجیں بھی بھیجیں گی۔ صدر ناصر کی طرح جو عرب دنیا کا بادشاہ تھا اس کی بھی تین روزہ جنگ میں پٹائی ہو جائے گی۔ تو پھر کیا عوام خاموش بیٹھیں گے۔ دہشت گردی کو سپر پاورز اپنی ناانصافی سے جنم دیا کرتی ہیں۔ لوگوں کو حقوق ملتے رہیں تو یہ سلسلہ شروع ہی نہ ہو۔ اب تحریکیں دوبارہ شروع ہوں گی اور معاملہ وہاں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ساری دنیا میں پیلیں گے۔ ان کے ساتتھ بنی بنائی تنظیمیں، داعش، طالبان اور دیگر بھی مل سکتے ہیں۔ ٹرمپ خود دعوت دے رہا ہے کہ آﺅ آپس میں مل جاﺅ ہم نے تمہاری بات نہیں سنی۔ یورپی یونین اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِن کو اتنا تنگ نہ کرو کہ یہ پلٹ کر وار کریں۔ لیڈر لوگ آپس میں ملاقات رکھتے ہیں۔ طاہر القادری باہر سے آئے ہیں۔ اب سب لوگ ان سے ملیں گے۔ میں بھی ان سے ملنے گیا تھا۔ یہ کوئی اچنبھا کی بات نہیں۔ عمران نے کہا ہے کہ دھرنے میں طاہر القادری کا ساتھ دوں گا۔ ہو سکتا ہے کہ زرداری نے بھی یہی تسلی کروائی ہو۔ انہیں عملاً یقین دلانا پڑے گا۔ یہ الیکشن نہیں یہ انسانی ایشو ہے جس نے زیادتی کی اسے ضرور پکڑنا چاہئے۔ وہ گلو بٹ ہو یا پولیس والے۔ میڈیا نہ ہوتا تو یہ معاملہ اتنا نہ پھیلتا۔ میرے وہ ہمسائے ہیں۔ مجھے روکا گیا کہ ابھی باہر نہ جائیں۔ لوگ وہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ طاہر القادری صاحب نے فیصلہ کرنا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کر رہے ہوں گے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہم قانونی جنگ لڑیں گے۔ رانا ثناءاللہ کی بریفنگ میں آج ہی گیا تھا۔ وہ کسی کی بات نہیں سُن رہے تھے میں نے انہیں کہا کہ قانونی مسائل ان کے حل کر دیئے جائیں تا کہ سڑکوں پر دھرنے نہ ہوں۔ خرم نواز گنڈا پور نے کہا ہے کہ نجفی رپورٹ میں سے کچھ حصے حذف کئے گئے ہیں۔ اگر وہ اس پر رہے تو جھگڑا ہو گا۔ حکومت کو چاہئے کہ ان کی قانونی مدد کر دے اور مصدقہ نقل نکلوا دے تا کہ یہ مسئلہ یہیں حل ہو جائے۔ جماعت اسلامی کے عبدالغفار عزیز نے کہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ یہ رنگ زبان یا کسی نسل کا مسئلہ نہیں ہے سب لوگ جانتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے بعد مسلمانوں کے لئے سب سے متبرک سرزمین بیت المقدس ہے جو آنحضرت کا مقام معراج ہے۔ جہاں آپ نے انبیاءکرام کی امامت کروائی۔ یہ امت مسلمہ کی امانت ہے کسی کی جاگیر نہیں۔ 1917ءمیں برطانیہ نے اپنی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہاں ایک یہودی بستی بنائیں گے۔ آج تک جتنے بھی معاہدے ہوئے اس میں بیت المقدس کو خارج کیا گیا۔ یو این کے معاہدے میں بھی بڑا علاقہ یہودیوں کا اور چھوٹا علاقہ مسلمانوں کو دینے کے بعد بھی بیت المقدس کو علیحدہ رکھا گیا کہ اس کے بارے فیصلہ دونوں فریقین خود کریں گے۔ آج کے اخبارات میں خود عیسائیوں کا موقف ہے کہ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے جلتی پر تیل چھڑکا ہے جس کے نتیجے میں بہت سی انسانی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ ٹرمپ ایک احمق انسان ہے۔ وہ تو ایسی حرکتیں کرتا ہی رہتا ہے لیکن بہت سے مسلمان ممالک بھی اس گھناﺅنے کھیل کے پیچھے ہیں۔ کچھ امریکی ذمہ داران نے ان کا نام بھی لیا ہے کہ ہم نے ان سے پوچھ کر یہ کام کیا ہے۔ مصری ڈکٹیٹر جنرل عبدالخنیسی نے اعلان کیا کہ ہم ڈیل آف سنچری کرنے والے ہیں جس کے مطابق پورے فلسطین سے ہی دست بردار ہو جانا مقصود ہے۔ دوسری طرف فلسطین کے منتخب وزیراعظم نے اعلان کر دیا کہ اس حماقت اور گھناﺅنے جرم کے بعد اب کوئی راستہ نہیںکہ ہم جمعہ سے تیسری تحریک شروع نہ کر دیں۔ تمام مسلمان حکمران جو کہ عملا ٹرمپ کے اس منصوبے یعنی ڈیل آف سنچری کے بارے ایسپی یہ کہتا ہے کہ ہم آپ کو مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہیں یہ ممالک بھی اس فیصلے پر مجبور ہوئے کہ اس کی مذمت کرے۔ ترکی کے صدر اردگان پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اس قسم کا فیصلہ آیا تو او آئی سی کا اجلاس بلا کر امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کیا جائے گا۔ شاہ فیصل نے کہا تھا کہ ہم اونٹنی کے دودھ اور کھجوروں پر اکتفا کر لیں گے لیکن مسجد اقصیٰ سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ اس پر امریکہ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ فلسطینی عوام نے چھ ماہ قبل جب اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئی تو یہاں کی خواتین نے کئی کئی دنوں کا اعتکاف کر کے ان کی جسارت کو ناکام بنایا۔ اصل قوت تو اللہ کے پاس ہے اگر ہم نبی کی ضمانت کا احساس کرتے ہوئے جائیں گے تو کوئی بعید نہیں کہ اس فتنے کو روک سکیں۔ سابق سفیر سیدہ عابدہ حسین نے کہا ہے کہ او آئی سی کے اجلاس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا یہ اسلامی ممالک امریکہ کے تعلقات پر نظر ثانی کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کر دیئے جائیں۔ امریکہ جو تیل مشرق وسطیٰ سے لیتا ہے وہ نہیں لے پائے گا۔ تو اس صورت حال میں ٹرمپ کو اپنے فیصلے پر غور کرنا ہو گا۔ یورپی یونین نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔ امریکہ کی سرزمین پر حملوں کا خطرہ بڑھ جائے گا اور امریکیوں کی جانوں کو خطرہ ہو گا۔ قراردادوں کے ذریعے اسے نہیں روکا جا سکتا۔ تجارت کو کم کر کے یا روک کر ہی ٹرمپ کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ کسی اسلامی ممالک میں قد آور شخصیت کو نظر نہیں آتی۔ تجزیہ کار لندن شمع جونیجو نے کہا ہے کہ سارے مسلم ممالک کو پہلے سے خبر تھی کہ ٹرمپ یہ کرنے جا رہا ہے۔ اس نے اس پر ووٹ لئے ہیں۔ جب ٹرمپ سعودی عرب کے دورے پر تھا تو سب کو علم ہو گیا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے اس دستخط کے بعد سوائے طیب اردگان کے کسی نے بھی آواز نہیں اٹھائی اب لیگلی کچھ نہیں ہو سکتا۔ کل سکیورٹی کونسل نے ایک میٹنگ بلائی ہے لیکن امریکہ کے پاس ویٹو پاور ہے اس نے اسے ”ویٹو“ کر دینا ہے۔ چاہے جتنی مرضی قراردادیں پاس کروا لی جائیں۔ اور جتنے چاہیں اجلاس بلا لئے جائیں۔ سعودی اگلے چند دنوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی مسلم ممالک امریکہ سے تعلقات منقطع نہیں کرے گا۔ سعودی عرب اگر اپنی انویسٹمنٹ امریکہ سے نکال لے تو امریکہ کو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ہمارے ملک میں احتجاج ہو گا۔ املاک کو نقصان پہنچائے جائیں گے اس سے امریکہ کو کیا فرق پڑے گا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس کے منفی اثرات بہت دور رس ہوں گے۔ خاص طور پر یہ فلسطین کے حوالے سے مسلمانوں کو پرامن احتجاج ضرور کرنا چاہئے تا کہ دنیا کو پتا چلے کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ او آئی سی کی جانب سے سمٹ بلائی گئی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کو مل کر اس پر لائحہ عمل بنانا چاہئے۔ احتجاج کے ساتھ ساتھ سمٹ کا انتظار کرنا چاہئے کہ وہاں کیا فیصلے ہوتے ہیں۔ او آئی سی میں تمام جانب سے تجاویز آئیں گی۔ پاکستان کی وزارت خارجہ بھی اپنی تجویز سامنے رکھے گی۔ لیکن اہم یہی ہے کہ انفرادی کوشش سے کچھ نہیں ہو گا۔ سب کو مل کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ یہ او آئی سی کا امتحان ہے۔ اس وقت موثر اور متفقہ فیصلہ نہ کیا تو او آئی سی کی افادیت کم ہو جائے گی۔ وزارت خارجہ میں اس پر کام ہو رہا ہے۔ توقع ہے کہ او آئی سی اجلاس میں موثر اور اہم فیصلے کرے گی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv