تازہ تر ین

اب حنیف عباسی ،فریال تالپور ،اسلم رئیسانی اور جہانگیر ترین کی باری :ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نیب نے نئے اور پرانے تمام کیسز کھول دیئے ہیں کچھ ریٹائرڈ ججز، جرنیل اور مختلف سطح کے لوگ مل کر اسلام آباد میں ایک سیل کے طور پر اس کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جو مختلف اداروں سے معلومات حاصل کر رہے ہیں چودھری برادران کے بارے خبر لیٹ آئی تھی لیکن ہم اپنے پروگرام میں کہہ چکے تھے کہ بڑے بڑوں کے نام کھلنے والے ہیں۔ میری خبر اور تجزیے کے مطابق دو تین اور بڑوں کے نام سامنے آنے والے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ کے گرد گھیرا تنگ ہونے والا ہے اور ان کے کیسز بھی کھلنے والے ہیں۔ پی پی پی کے بڑے ناموں میں زرداری کی بہن فریال تالپور کا نام ہے۔ مریم نواز کے خلاف کارروائی شروع ہونے سے خواتین کے سلسلے میں بھی اب کارروائیاں شروع ہونے جا رہی ہیں۔ ماضی میں اس کی روایت نہیں تھی۔ تالپور کے خلاف سب سے بڑا کیس لاڑکانہ پر خرچ کیا جانے والا اربوں روپوں کا سکینڈل ہے۔ ایک شخص کو غلط نام سے کلرک بھرتی کیا گیا پھر اسے ترقی دے کر پروجیکٹ انچارج بنایا گیا۔ جب گرفتاری کا وقت آیا تو سندھ پولیس نے اسے فرار کروا دیا۔ پھر جب رینجرز نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے سکھر پولیس کو گرفتاری دے دی۔ شرجیل میمن، زرداری کے فیورٹ ہیں، ان حالات سے لگتا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کے حالات بھی خراب ہیں۔ شاید ان کی باری بھی آنے والی ہے۔ میرے خیال میں جیل کے ساتھ ہی ٹاﺅن ہاﺅس بنا دینے چاہئیں کیونکہ اب بہت سے وی آئی پیز جیل جانے والے ہیں۔ نوازشریف جب طیارہ سازش کیس میں جیل گئے تو زرداری صاحب پہلے سے وہاں موجود تھے ان کے وہاں ”ٹور“ تھے۔ انہوں نے نوازشریف کے لئے کھانا بھی بھجوایا۔ فریال تالپور کے خلاف کیسز شروع ہونے والے ہیں اور اصل کارروائی ان کے 5 پیاروں کے خلاف ہو رہی ہے۔ ان پانچ پیاروں میں سے چار کی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے جو رینجرز کی تحویل میں انہوں نے دیں کہ ہم تمام تر آمدنی رات کو بلاول ہاﺅس پہنچا دیا کرتے تھے۔ تالپور کا لنک آصف زرداری سے بھی بنتا ہے۔ اطلاع ہے کہ آصف زرداری کی اچانک ”دبئی“ آمد بھی اسی وجہ سے ہوئی تھی۔ کرپشن کی بہت خوفناک کہانیاں کھل رہی ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ کے کیس سے یہ بات کھلے گی کہ بلوچستان کے نام پر آنے والی دولت کہاں جاتی تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے میٹرو کی ذمہ داری حنیف عباسی کے سپرد کی تھی۔ حنیف عباسی، جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر ایم این اے ہوئے تھے۔ بعد میں وہ ن لیگ میں آ گئے۔ ان کے خلاف ایک میگا کیس ایفی ڈرین بھی ہے۔ ان کے خلاف بھی گھیرا تنگ ہونے والا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے خلاف جو کیسز رکے ہوئے تھے انہیں بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ ایک بڑی شخصیت کے پی کے سے سلیم سیف اللہ کی ہے ان کے بھائی جو اسحاق خان کے داماد بھی تھے۔ وہ بھی پکڑ میں آنے والے ہیں۔ سلیم سیف اللہ اور انور سیف اللہ کی بہن کلثوم سیف اللہ تھیں انہوں نے (ن) مسلم لیگ چھوڑ کر ”ہم خیال“ بنا لی۔ پانامہ کیس میں پتا چلا کہ ان کی 20 یا 22 آف شور کمپنیاں ہیں۔ یہ موبی لنک کے پاکستان میں پہلے مالک تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی جاوید سیف اللہ اس کے سی ای او تھے۔ سلیم سیف اللہ نے سب سے بڑھ کر منی لانڈرنگ کی۔ لوگ سوال کرتے تھے کہ عمران خان جو سب سے زیادہ آف شور کمپنیوں پر شور مچانے والے ہیں۔ سیف اللہ خاندان پر کیوں خاموش ہیں؟ ان میں سے اکثر لوگ پاکستان سے باہر ہوں گے۔ پشاور آفس سے کہا ہے کہ ان کے خاندان کے بارے مکمل معلومات فراہم کر دی۔ ہماری اطلاع کے مطابق موبی لنک بیچ کر اس کی بھی رقم باہر لے جا چکے ہیں۔ عمران خان کی پارٹی میں سب سے پہلے الزام علیم خان پر لگتا ہے۔ علیم خان، چوہدری برادران کی حکومت میں بھی آئی ٹی کے وزیر تھے۔ انہیں اپنی دولت پر کافی غرور ہے۔ میرے سامنے انہوں نے کہا الیکشن میں میں جیت جاﺅں گا۔ انہوں نے مجھے کہا ضیا صاحب ”اسی نوٹاں دی بوریاں دے منہ کھول دیاں گے“ میں مسکرایا۔ انہوں نے جواب دیا ”نوٹاں دا تعلق الیکشن دے نال ہوندا اے“ ان کے بارے مشہور ہے کہ وہ بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال میں آپ بڑی رقم ادا کریں تو ان کی لسٹ میںاچھے شہری بن سکتے ہیں۔ میں بھی شوکت خانم کے لئے چندہ جمع کرنے میں لگا۔ ہمارے دوست نے اس ٹرک کا بندوبست کیا جس میں عمران خان جگہ جگہ اور شہر شہر جایا کرتے تھے جس میں لوگ اور عورتیں چندہ پھینکا کرتے تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم بنا کر بہت اچھا کام کیا۔ اس میں صاف ستھرا نظام قائم ہے مریضوں کے ساتھ بلاامتیاز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ وہاں باری ٹوکن کے ساتھ آتی ہے۔ مجھے بھی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہسپتال کے بائیں جانب ایک عمارت علیم خان کی والدہ کے نام سے منسوب ہے جو انہوں نے عطیہ کی ہے۔ علیم خان کے بعد تحریک انصاف میں جس کا نام سامنے آنے والا ہے وہ ہے جہانگیر ترین۔ جہانگیر ترین صاحب سے میری اچھی گپ شپ ہے۔ وہ ہمارے ساتھ ورلڈ ٹریڈ پریس کے سوئٹزر لینڈ دورے پر موجود تھے۔ میں اسلام آباد ان کے گھر بھی گیا۔ اچھے شائستہ انسان ہیں۔ لودھراں سے گزرتے ہوئے مجھے لوگوں نے بتایا کہ جہانگیر ترین نے پیسہ خرچ کیا اور الیکشن جیت گئے۔ جہانگیر ترین کے بچے لندن کے امیر ترین علاقے میں رہتے ہیں۔ تحفے میں اربوں روپے دیئے جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک شوگر ملز سے اتنے پیسے نہیں آ سکتے۔ میرا جہانگیر ترین اور عمران خان سے سوال ہے۔ اگر پیسے کی بنیاد پر آپ نے الیکشن جیتا ہے تو نوازشریف پر کیوں اعتراض کرتے ہو۔ جہانگیر ترین نے اپنے حلقے میں پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ الیکشن جیتنے کے بعد بھی وہ لوگوں کو مالی امداد دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر پیسوں سے الیکشن جیتنا ہے تو جمہوریت کہاں گھس گئی۔ بہتر ہے نمائندوں کو بٹھا کر حلقے کی بولی لگا دی جائے۔ جو زیادہ دے اسے کامیاب کر دیں یہ لوگ اربوں روپے کما کر ہزاروں روپے حلقے کے انتخاب پر بھی خرچ کر دیتے ہوں گے۔ اس کو تسلیم کر لیا جائے تو جمہوریت کا کیا رول ہو گا۔ جہانگیر ترین کی باری آنے والی ہے۔ ان کی دولت کہاں سے نازل ہوئی۔ تحقیق ہونی چاہئے کہ اتنی دولت کہاں سے آئی۔ اگر احتساب نام کی کوئی چیز ہے تو ضرور جہانگیر ترین کے خلاف بھی کیسز کھلنے چاہئیں۔ کیا یہ مخدوم طالب المولیٰ تھے۔ جن کی جائیداد پاکستان میں سب سے زیادہ تھی۔ 1970ءکے الیکشن میں تین ریلوے اسٹیشنوں تک ان کی زمین تھی۔ مخدوم امین فہیم اس کا بیٹا تھا۔ یہ اربوں روپوں کے تحفے کسی طرح دیئے جاتے رہے۔ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی اپنے کیسز سے بری بھی ہو جاتے ہیں تو سوال یہ ہو گا کہ ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر بھی ان کے پاس پیسہ ہی پیسہ ہے۔ ہو سکتا ہے نوازشریف کی واپسی پر ان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔ لندن اجلاس میں اس پربحث بھی ہوئی تھی۔ وہ سابق وزیراعظم ہیں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اگر نواز شریف پر کیسز غلط ہیں تو وہ محبوب لیڈر ہیں انہیں اگلا وزیراعظم بننے دیں۔ اگر کیسز درست ہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ لندن اجلاس کے بعد اطلاع بھی آئی تھی کہ نوازشریف ایک مرتبہ جیل جانا چاہتے ہیں تا کہ ان کی تحریک اپنے عروج پر پہنچے۔ اگر وہ جیل گئے تو مریم نواز بھرپور تحریک چلائیں گی۔ الیکشن وقت پر ہی ہوں گے۔ پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ حلقہ بندیاں مقررہ وقت پر کر لی جائیں۔ اسلام آباد میں ایک سکیم زیر بحث ہے۔ اگر لوگ سپریم کورٹ چلے گئے تو عدالت کے آرڈر پر 6 ماہ تک مدت بڑھا دی جائے گی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv