تازہ تر ین

پشاور کے حلقہ این اے 120میںانتخابی دنگل سج گیا کون فاتح ہو گا ؟؟

لاہور (نیوز ڈیسک) پشاور میں قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن حلقہ این اے 4 میں پی پی تحریک انصاف، ن لیگ اور اے این پی میں جوڑ آج پڑے گا۔ یہ نشست پی ٹی آئی رکن اسمبلی کی وفات سے خالی ہوئی تھی۔ اس حلقے میں ووٹروں کی کل تعداد 3لاکھ 97 ہزار904 ہے،837 پولنگ بوتھ جبکہ 269 پولنگ اسٹیشن بنے ہیں۔ دیہی علاقوں میں مشتمل حلقے میں ایک لاکھ 62ہزار470 خواتین ووٹر ہیں۔ این اے 4ماضی میں اے این پی کا گڑھ رہا ہے۔ حساس علاقہ ہونے کے باعث سکیورٹی انتظامات سخت کیے گئے ہیں۔ امن و امان قائم رکھنے کیلئے پاک افواج کے 1700 سکیورٹی اہلکار تعینات ہونگے جبکہ 7ہزار پولیس اہلکار ہونگے۔ پولنگ صبح 8 سے شام5 بجے تک بلاتعطل جاری رہے گی۔ ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 14 امیدوار مدمقابل ہونگے، حلقے میں آج عام تعطیل ہوگی۔ارباب عامر این اے 4 سے اب پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ ان کے بھائی ارباب ظاہر پچھلے تیس سال میں سب سے زیادہ تین بار یہاں سے اے این پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی پہنچے۔ پی ٹی آئی سیٹ نہ جیتے یہ تو کے پی کی ہر پارٹی دل سے چاہتی ہے۔ اے این پی کو زیادہ بڑا چیلنج درپیش تھا کہ انہیں ارباب عامر کے امیدوار بننے کے بعد اپنا ووٹ بینک بھی ارباب فیملی سے الگ کرنا تھا۔ اے این پی کے دو ہزار اٹھرہ میں این اے فور سے متوقع امیدوار ارباب کمال ہیں۔ اپنا ووٹ بینک واپس لانے کے لئے البتہ اے این پی نے ٹکٹ اس حلقے میں اپنے سب سے مقبول کارکن خوشدل خان کو دیا۔ ارباب فیملی سے اے این پی اپنا ووٹ الگ کرے تو نقصان پی ٹی آئی کے ارباب عامر کو ہی دکھائی دیتا تھا۔ سیٹ جیتنے کا نہ ارادہ تھا نہ امید لیکن خوشدل خان نے ایسے مہم چلائی کہ اب وہ مضبوط ترین امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ اسفند یار ولی خان اس حلقے میں جلسہ کرچکے ہیں۔ 2013ءکے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کے گلزار خان اس سیٹ سے الیکشن جیتے تھے۔ انہوں نے 55 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ نون کے ناصر موسیٰ زئی رہے تھے جن سے گلزار خان کی برتری تیس ہزار ووٹوں کے لگ بھگ تھی۔ گلزار خان کے حاصل کردہ ووٹوں کا ایک بڑا دلچسپ پہلو ہے۔ این اے فور کے نیچے تین صوبائی حلقوں سے بھی پی ٹی آئی ہی جیتی تھی۔ ان تینوں حلقوں سے جیتنے والے امیدواروں نے جو کل ووٹ حاصل کئے گلزار خان نے ان سے بھی پندرہ ہزا ووٹ زیادہ لئے تھے۔ اب یہ اضافی ووٹ یا تو کپتان کے تھے یا پھر گلزار خان کے اپنے۔ لیکن صوبائی امیدوار بھی تو کپتان کے ہی جیتے تھے۔ دھرنے کے دوران گلزار خان نے استعفیٰ پارٹی کے پاس جمع کرانے سے انکار کیا اور کپتان سے پھر ان کی راہیں الگ ہی رہیں۔ گلزار خان کی وفات پر پی ٹی آئی کا کوئی اہم لیڈر ان کی دعا کے لئے نہیں آیا۔ ان کے فرزند اسد گلزار اب پی پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ وہی این اے 4 سے پی پی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ پی پی میں تین مزی اہم لوگ بھی شامل ہوئے ہیں۔ ناصر پور سے سدا بہار سیاستدان صوبائی اسمبلی کے کئی بار رکن رہنے والے ارباب ایوب جان مرحوم کے فرزند بھی پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ ابراب سعد اللہ اے این پی کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے 97ءمیں ممبر قومی اسمبلی بنے وہ بھی پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی حلقے میں مانکی شریف کے پیروں کا بہت اثر ہے۔ پیر نبی امین بھی پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ اتنی بھاری بھرکم شمولیتوں کے بعد پی پی امیدوار کو نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون کے امیدوار ناصر موسیٰ زئی واحد امیدوار ہیں جو دوسری بار اسی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ باقی تمام امیدوار نئے ہیں اور پہلی بار میدان میں اترے ہیں۔ ناصر موسیٰ زئی نے پچھلی بار دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انہوں نے جو کل ووٹ حاصل کئے تھے وہ مسلم لیگ نون کے تینوں صوبائی امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے سات ہزار کم تھے۔ یعنی مسلم لیگ ن کے صوبائی امیدوار اپنے حاصل کردہ ووٹ اپنے ہی قومی اسمبلی کے امیدوار کو نہیں دلوا سکے تھے۔ کے پی کے تین سیاستدان ایسے ہیں جو بم پروف برادران ہیں۔ امیر مقام‘ آفتاب شیرپاﺅ اور مولانا فضل الرحمن تینوں پر دہشت گردوں نے بار بار حملے کئے ہیں۔ شکر ہے کہ یہ تینوں سیاستدان محفوظ رہے ہیں اور یہی تینوں سب سے زیادہ رابطہ عوام میں مشغول رہتے ہیں۔ این اے فور میں یہ تینوں ہی مسلم لیگ نون کے ناصر موسیٰ زئی کو سپورٹ کررہے ہیں۔ مولانا کے ماننے والوں کے ایک تہائی ووٹ بھی ناصر موسیٰ زئی کو پڑ گئے تو دو آسانی سے ہاریں گے نہیں۔ امیر مقام کا تو خیر اس حلقے سے براہ راست تعلق یوں بھی ہے کہ وہ یہاں سے دو ہزار آٹھ میں الیکشن لڑ چکے ہیں۔ اس الیکشن میں انہوں نے پوزیشن تو چوتھی حاصل کی تھی لیکن ووٹ کافی مناسب لئے تھے۔ امیر مقام نے اس حلقے سے براہ راست رابطہ رکھا ہے۔ یہ علاقہ دہشت گردی سے بہت متاثر رہا ہے کہ تین اطراف سے فاٹا کے ساتھ منسلک ہے۔ جماعت اسلامی کے واصل فاروق یہاں سے امیدوار ہیں۔ ان کا تعلق بھی ایک اہم گاﺅں چمکنی سے ہے جہاں سے وہ ناظم بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ پہلے کلین شیو ہیں نہایت سرگرم سیاسی کارکن ہیں۔ چمنی‘ جھگڑا اور ناصرپور کے خان روایتی سیاسی حریف رہے ہیں۔ اقبال ظفر جھگڑا اس وقت صوبائی گورنر ہیں۔ این اے 4 میں سب سے اہم اور سائلنٹ ووٹر آفریدی قبائل کا ہے۔ قبائل لندن میں بھی رہتے ہوں تو پی اے کا کہنا جلدی نہیںٹالتے اور پی اے گورنر کے ہی ماتحت ہوتا ہے۔ اس حلقے کا ایک تفصیل چکر بھی لگایا ۔ یہ بھی دیکھ لیا کہ سارے ہی امیدوار اپنے اپنے روایتی علاقوں میں مضبوط ہیں۔ ملی مسلم لیگ کے امیدوار بھی پوری طرح سرگرم ہیں۔ نتیجہ کیا نکلے گا اس بارے کچھ بھی کہنے سے معذرت۔ بھائی یہ کے پی کا ووٹر ہے کچھ بھی کر دے گا لیکن بتانے والی بات کچھ اور ہے اور یہ کہ پچھلے کئی ہفتوں سے آپ کا اپنا وسی بابا پنجاب کے بلدیاتی نمائندوں کی نبض دیکھ رہا ہے ابھی صرف اتنا سنیں کہ این اے فور کا الیکشن بڑا کچھ طے کرنے جارہا ہے۔ مسلم لیگ نون یہ سیٹ ہاری تو اس کی نالائقی ہوگی۔ کپتان یہ سیٹ ہارا تو اس کو پاکستان بھر میں ایک دھچکا لگے گا۔ جیت گیا تو اس کی سیاست کو مطلوبہ کرنٹ مل جائے گا پھر شریفوں کو پنجاب بچانے کا سوچنا ہوگا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv