تازہ تر ین
Zia Shahid ky Sath

”ٹرمپ کی پاکستان پر چڑھائی ،لگتا ہے ہمارا پاکستان سویا ہوا ہے“

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے۔ وہ انتہا پسندی کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان پر چڑھائی کا پچھلے ہفتے ہی فیصلہ کر لیا تھا۔ امید یہی کی جا رہی تھی کہ وہ پاکستان پر چڑھائی کریں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ دہشت گردی میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا ہے۔ 50 ہزار شہری اور 7 ہزار اہلکار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ الٹاا ہمیں طعنے دیئے جا رہے ہیں کہ دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ اندازہ پہلے سے ہی تھا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد بڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن ابھی بھی یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ وہ اپنی فوج یہاں بھیجے گا یا نیٹو کی فوج میں اضافہ کرے گا۔ امریکہ چاہے گا کہ ان کے ٹرینڈ فوجیوں کے ساتھ پاکستان کے فوجی مشترکہ کارروائیاں کریں۔ اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مل کر کام کریں۔ اب مشکل یہ بنے گی کہ حتمی فیصلے کون کرے گا۔ امریکہ میں یہ بحث چل رہی ہے کہ ہم نے حقانی گروپ کو نہیں پکڑا جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ ہم نے سب کے خلاف کارروائی کی ہے۔ پاکستان کے لئے مشکل ہوگا کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر مشترکہ جنگی کارروائی کرے۔ ہمارے وزیراعظم ابھی نئے ہیں۔ وہ اس سے پہلے گیس کے وزیر تھے۔ اسی طرح پانی اور بجلی کے وزیر کو وزیرخارجہ بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ سرتاج عزیز کو ایک طرف کر دیا گیا ہے جن کا تجربہ دوسروں سے بہت وسیع تھا۔ خواجہ آصف کبھی بھی وزیرخارجہ نہیں رہے۔ ان کی نسبت سرتاج عزیز بہت بہتر وزیرخارجہ ثابت ہو سکتے تھے۔ اسی طرح مریم اورنگزیب کو وزیراطلاعات لگا دیا گیا ہے۔ ان کی جگہ کوئی تگڑی آواز والی شخصیت ہوتی تو اس کا اثر کچھ اور ہوتا۔ ٹرمپ صاحب نے صبح سویرے 6 بجے ”ڈوز“ دی۔ اس کے جواب میں صرف مریم اورنگزیب کا چھوٹا سا ری ایکشن سامنے آیا ہے۔ وزیرخارجہ لگتا ہے سوئے ہوئے ہیں۔ احسن اقبال کو وزیرداخلہ بنا دیا ہے۔ ابھی تک کچھ وزیروں کو تو پورٹ فولیو ہی نہیں ملے۔ شاہد خاقان عباسی کو چاہئے کہ مشاورت کر کے محکموں کی صحیح تقسیم کریں۔ حلقہ 120 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہئے۔ حلقے سے جس طرح خبریں آ رہی ہیں۔ وہ ٹھیک نہیں۔ عام پاکستانی کو بھی اندازہ تھا کہ ٹرمپ کی طرف سے کسی طرح کا ری ایکشن آئے گا۔ لیکن حکومت یا حکومتی ارکان کو اس کا ادراک نہیں تھا؟ کوئی وزیر کچھ کر رہا ہے کوئی کچھ کر رہا ہے۔ اس معاملے کی طرف کسی کا دھیان نہیں تھا ہمارے نمائندے نے واشنگٹن سے 4 روز پہلے ہی خبر دی کہ امریکہ اس وقت بہت غصے میں ہے اور امریکی صدر پاکستان سے سخت ڈیمانڈ کریں گے۔ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی پیغامات آئے کہ ٹرمپ صبح سویرے 6 بجے بہت اہم اعلان کرے گا۔ ہمارے فارن منسٹر کو کچھ نہیں پتا تھا۔ انہوں نے تیاری نہیں کی تھی کہ اس کا ”ری ایکشن“ کس طرح دینا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ پاکستان کی فارن پالیسی اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک اس میں فوج کو شامل نہ کیا جائے۔ حالت یہ ہے کہ سول ملٹری معاملات ریل کی پٹڑی کی طرح ساتھ ساتھ ہیں لیکن ملنے کو تتیار نہیں۔ سول ملٹری فاصلوں کو ختم کرنا بہتت ضروری ہے۔ یہ ہمارے ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان ابھی درست طریقے سے خود کو لندن سے علیحدہ نہیں کر پائی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم (لندن اور پاکستان) ایک ہیں ان کے پیسوں کی تقسیم بھی برابر ہو رہی ہے۔ انہوں نے 20 ارب روپے میں 24 ووٹ حکومت کو بیچے ہیں۔ بیورو چیف چینل ۵ امریکہ محسن ظہیر نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ گزشتہ 7 ماہ سے اس پالیسی پر کام کر رہی تھی۔ جس کا اعلان کل ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کر دیا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ وزارت خارجہ کی طرف سے بیان جاری ہونے کے بعد پتا چلے گا کہ پاکستان کا اس پالیسی پر ردِ عمل کیا ہے۔ امریکہ کے اندر ”ٹرمپ“ کی پالیسی پر متضاد آرا ہیں۔ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف آج تک آنے والی تمام صدور سے نیچے چلا گیا ہے۔ امریکی میڈیا کے خیال میں بھی ٹرمپ کی پالیسیاں جذباتی ہوتی ہیں اور بعد میں اس پر عمل بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح کا ان کا ایکشن پاکستانی پالیسی پر بھی نظر آیا ہے۔ لندن سے تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا ہے کہ اس بات کا پہلے سے اندازہ تھا کہ پاکستان پر پابندیوں کا سلسلہ بڑھے گا اب امریکہ نے براہ راست پاکستان کا نام لے کر دھمکایا ہے۔ ہماری ڈپلومیسی بالکل فیل ہو گئی۔ ہمارا وزیرخارجہ موجود نہیں تھا۔ خارجہ پالیسی کو جس طرح چلایا جانا تھا نہیں چلایا گیا۔ ہماری سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ چین کے دورے پر ہیں وہ 24 کو واپس آئیں گی۔ ردعمل کی کوئی پالیسی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ اس طرح ملک نہیں چلتے۔ موجودہ فوجی سربراہ نے بھی راحیل شریف کی طرح ایکٹو رول نہیں ادا کیا نہ ہی غیر ملکی دورے کئے ہیں خواجہ آصف میں اتنی اہلیت دکھائی نہیں دیتی کہ وہ امریکہ جا کر ان سے بات کر سکتے ہیں اسی طرح اعزاز چودھری وغیرہ اپنے مفادات کی خاطر بیٹھے ہیں۔ ٹرمپ اپنے کاروبار کی طرح اپنی پالیسیاں چلا رہا ہے۔ اس نے اپنے خرچوں کو پہلے سامنے رکھنا ہے۔ اسی لئے اس نے نیٹو میں بھی اپنے خرچوں کو کم کیا ہے۔ یو این اے میں بھی اپنی فنڈنگ کو کم کیا ہے۔ اسی طرح اب وہ افغانستان سے بھی نکلنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتا رہا ہے کہ ”پاکستان ایک گندہ بچہ ہے“ لگتا ہے کہ اب وہ مشترکہ کارروائی نہیں کریں گے بلکہ براہ راست خود کارروائی کریں گے پاکستان کے لئے اب برے دن آ رہے ہیں۔ امریکہ ہم پر اب الزام مزید بڑھائے گا ہمیں ثابت کرنا ہے کہ خطے میں بھارت سے زیادہ ہماری اہمیت ہے۔ ہم نے 50 ہزار افراد کی قربانیاں دی ہیں۔ ڈپلومیسی میں کوئی آپ کا دوست نہیں ہوتا۔ ہمیں سول اور ملٹری ہم آہنگی دکھانی ہو گی۔ وہی ہمت جو کل ڈی جی، آئی ایس پی آر نے دکھائی۔ بہتر تھا کہ ان کے ساتھ خواجہ آصف بھی ہوتے اور ایک مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا۔ بین الاقوامی میڈیا کو بھی بلاتے۔ دوسرے ملکوں کے سفارتکاروں سے بھی رابطہ کرتے۔ تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ سینئر تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے بیان پر وزارت خارجہ کی طرف سے ری ایکشن آنا چاہئے تھا۔ حکومت نے نہ خود کوئی مناسب جواب دیا ہے نہ ہی وزیرخارجہ کی طرف سے کوئی بیان آیا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں پچھلے صدور بھی یہی راگ الاپتے رہے ٹرمپ کی تقریر پر چین کی طرف سے ری ایکشن آ گیا۔ لیکن ہم خاموش ہیں۔ ٹرمپ کی تقریر میں بھارت کی جھلک ہے۔ اس نے وہی کہا جو بھارت کہنا چاہتا ہے۔ پاکستان اگر افغانستان کے لئے لاجسٹک امداد بند کر دے تو افغانستان امریکہ کیلئے دوسرا ”ویت نام“ بن جائے گا۔ پاکستان نے افغانستان کو 64 حقانی نیٹ ورک کے افراد کی لسٹ دی تھی جن کے پیچھے بھارت یا امریکہ تھا۔ آج تک افغانستان نے ایک شخص بھی پکڑ کر ہمارے حوالے نہیں کیا۔ امریکہ کو اپنے اندرونی انتشار کا سامنا ہے۔ وہ بدترین حالات کا شکار ہے۔ اگر سعودی عرب ان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ نہ کھولتا تو امریکہ بالکل بیٹھ چکا تھا۔ نمائندہ خبریں کراچی گل محمد منگی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی کال بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ فاروق ستار نے کہا تھا کہ پی پی پی، ن لیگ، جماعت اسلامی نے شرکت کا عندیہ دیا تھا لیکن وہ شریک نہیں ہوئے نثار کھوڑو نے کہا کہ ہم نے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کی کال پر آنے کا فیصلہ نہیں کیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv