تازہ تر ین

لاہور نواز شریف کا گھر ، پنجاب میں ن کی اکثریت ، یہاں شو کامیاب کیوں نہ ہوتا

 لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ نواز شریف کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو عدلیہ پر اعتماد نہیں رہا۔ جو سنجیدہ صورتحال ہے۔ سابق وزیراعظم پہلے بار بار کہتے رہے کہ عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے اور فیصلہ جو بھی ہو گا تسلیم کرینگے لیکن جب فیصلہ ان کے خلاف آ گیا ہے تو اب ججوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا مو¿قف ہے کہ نااہلی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا، ججز نے وہی کرنا تھا جس کا وہ طے کر چکے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ججوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 5 لوگ کسی کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں، عوام اسے قبول نہ کریں۔ سپریم کورٹ کو اور ماہر قانون دانوں کا فرض ہے کہ وہ نواز شریف کے بیانات پر غور کریں کہ کیا اس کی آئین میں کوئی گنجائش ہے؟ کیا منتخب ہونے کے بعد کسی شخص پر آئین و قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ چند دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ عدلیہ نوٹس لیتی ہے یا خاموش بیٹھی رہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بظاہر تو اداروں میں ٹکراﺅ کی صورتحال نظر آ رہی ہے جو کسی بھی ریاست کےلئے خوفناک ہے۔ جج حضرات کا فیصلہ درست تھا یا غلط، اس کا فیصلہ عوام کے بجائے دنیا بھر کے آئین و قانون کی تشریح کرنے والے ادارے ہی کریں گے۔ سابق وزیراعظم جس کی پارٹی کی حکومت میں اکثریت ہے وہ کھل کرعدلیہ پر الزام لگارہا ہے جس سے ملک میں سنگین بحران پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد سے لاہور تک سارا علاقہ ن لیگ کا ہے۔ یہاں ایک دفعہ غیر جماعتی نظام تھا، نواز شریف اس میں کامیاب ہو کر وزیراعلیٰ بنے۔ اس سے پہلے وہ ضیا دور میں نامزد وزیرخزانہ تھے۔ ایک بار وزیراعلیٰ رہنے کے بعد 3 مرتبہ وزیراعظم بنے۔ مشرف دور نکال دیں تو نواز شریف 27 برس حکمران رہے۔ لاہور ان کا اپنا علاقہ ہے یہاں سے جس کو بھی ٹکٹ دیا گیا وہ بھاری اکثریت سے جیتا۔ ماہر قانون خالد رانجھا نے کہا ہے کہ نواز شریف کی گفتگو ماں بہن کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کی اس سے بڑی تضحیک نہیں ہو سکتی۔ ان کے بیانات توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ عدالت عظمی تحمل و برداشت سے کام لے رہی ہے شاید نیب ریفرنسز کا انتظار ہے۔ نواز شریف نے توہین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ ایک نئی روش پیدا کر رہے ہیں کہ اگر کل کسی کے خلاف فیصلہ آئے تو وہ چار لوگ اکٹھے کر کے لے آئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس فیصلے پر نظرثانی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ جب سجاد علی شاہ نے نوٹس دیا تھا تو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس کو ایک دن کےلئے جیل بھیجنا چاہتا ہوں۔ سپریم کورٹ پر حملہ بھی کر چکے ہیں۔ نواز شریف سے توقع ضرور ہے کہ وہ دوبارہ عدالت پر حملہ کر سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی حفاظت کےلئے فوج کو بلا سکتی ہے۔ اگر ایسی نوبت آئی تو فوج ماضی کی طرح اجتناب نہیں کرے گی۔ عوام کی رائے بھی یہی ہے کہ میاں صاحب نے بددیانتی کی ہے۔ فیصلہ درست ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ این اے 120 میں سابق وزیراعظم نے نہیں بلکہ ان کے ہم نام نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ ماہر قانون اے کے ڈوگر نے کہا ہے کہ نواز شریف نے عدالت کے حکم کو مانا ہے اسی لئے گھر جا رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ انہوں نے محاذ آرائی کی صورتحال پیدا کی۔ جب کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس پر دنیا بھر میں ا ظہار خیال ہوتا ہے۔ نواز شریف کے عدلیہ بارے بیانات توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتے۔ یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ عوام نے منتخب کیا، عدلیہ نے نکال دیا۔ جب بھی مارشل لاءلگا تو اس وقت فاضل جج صاحبان نے ہمیشہ سرتسلیم خم کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی کیس ہمیشہ چھوٹی عدالتوں سے ہوتا ہوا بڑی عدالت تک پہنچتا ہے تاکہ اپیل کا حق محفوظ رہے۔ موجودہ کیس جنہوں نے دائر کیا وہ سب سے پہلے عدالت عظمیٰ میں چلے گئے اب مشکل یہ ہے کہ اپیل کا حق نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ایک بحران اور گھمبیر صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv