تازہ تر ین

ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح نوازشریف کا کیس بھی ان کے وکیلوں مشیروں نے خراب کیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجزیوں اور تصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہمارا میڈیا بہت آزاد ہو چکا ہے یہ بھی دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے تو شریف فیملی کو بری کر دیا ہے جبکہ دوسرے گروپ نے نوازشریف اور ان کی فیملی کو ملزم ثابت کر ہی دیا ہے ان کے مطابق وہ آج گئے تو کل گئے۔ ہمارے ملک میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ”چیف ایگزیکٹو“ خود اس طرح عدالتوں میں پیش ہو رہا ہے۔ اس سے قبل چھوٹی موٹی عدالتوں میں کیس ضرور جاتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ وزیراعظم نے بڑی بہادری دکھائی اور خود عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ نیب، احتساب و دیگر ادارے چونکہ حکومت کے کنٹرولہ میں ہوتے ہی لہٰذا وہاں خود کو بچانا اور دوسروں کو اچھالنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ آصف مرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تو اچھا لگا لیکن وہ جب کر کرپشن کی بات کرتے ہیں تو عجب لگتا ہے۔ میں پی پی پی کو پسند تو نہیں کرتا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو پلس پوائنٹ دیتا ہوں حالانکہ ان کے دور میں دو اخبار بھی بند کروائے اور جیل بھی کاٹی۔ اسی طرح ضیاءالحق کے دور میں بھی پابندیاں برقرار رہی، تاہم جونیجو کے دور میں حالات بہتر ہوئے۔ اور پابندیاں ہٹائی گئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو کا مقدمہ سیاسی طور پر لڑا گیا۔ بھٹو صاحب پر فوجداری مقدمہ تھا۔ کیونکہ وہ قتل کا کیس تھا۔ جو وکلاءاسے لرنے کے لئے سامنے آئے وہ اس کے اہل ہی نہیں تھے۔ انہوں نے بھٹو کا مقدمہ چلی عدالتوں میں غلط لڑا اسی طرح سپریم کورٹ میں بھی بہتری لانے کی بجائے مقدمے کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ بھٹو کیس کا فیصلہ جسٹس آفتاب حسین نے لکھا اور اسے جسٹس مولوی مشتاق نے سنایا۔ مولوی مشتاق کی ذاتی طور پر بھی بھٹو صاحب سے لاگت بازی تھی۔ سپریم کورٹ بھی بھٹو کا کیس یحییٰ بختیار نے لڑا۔۔ وہ فوجداری مقدمات کے ماہر نہیں تھے۔ انہوں نے سارا مقدمہ سیاسی انداز میں لڑا فلاں جگہ پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جلوس نکل آئے ہیں۔ نصرت بھٹو نے احتجاج کر دیا ہے ایک سپاہی نے ان کا سر پھاڑ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو خود قاتل نہیں تھے۔ ان پر قتل کیلئے اکسانے کا مقدمہ تھا۔ حالانکہ مسعود محمود نے قتل کا حکم دیا تھا۔ مسعود کے پیچھے کون تھا۔ وہ بھٹو صاحب تھے۔ درمیان میں اس لنک کا کاٹا جانا چاہئے تھا۔ مسعود بعد میں وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ اگر درمیان میں لنک کٹ کر دیا جاتا تو ٹرائل مختلف ہونا تھا۔ اس طرح بھٹو صاحب کا کیس سیاسی بنا دیا گیا اور اسے خراب کر دیا گیا۔ نتیجہ بھٹو کی پھانسی نکلا۔ اسی طرح پانامہ کا کیس بھی شریف فیملی کی جانب سے درست نہیں لڑا جا رہا۔ اگرچہ وہ اس پر کروڑوں خرچ کر چکے ہیں۔ میرے نزدیک کیس بگڑنے کی تین وجوہات ہیں اول یہ کہ چھوٹے سے چھوٹا وکیل بھی اپنے کلائنٹ کو سمجھاتا ہے کہ پولیس پوچھے تو یہ کہنا ہے۔ عدالت میں یہ بیان دینا ہے وغیرہ۔ شریف فیملی کے مختلف بیانات کی وجہ سے کیس بری طرح خراب ہو گیا۔ اوپر سے میڈیا نے اس کی ایسی کی تیسی پھیر دی دوسری وجہ یہ کہ کیس شروع اکرم شیخ نے کیا پھر وہ اچانک غائب ہو گئے۔ سلمان راجہ سامنے آ گئے پھر خواجہ حارث کی باری آئی۔ بہرحال یہ وکلا نواز شریف کو سوٹ کرتے ہوں گے۔ اسی طرح اپوزیشن کی کہانی رہی پہلے حامد خاں پھر فواد چودھری پھر نعیم بغاری، نعیم بخاری لیبر کے وکیل ہوا کرتے تھے۔ نعیم بخاری کو مشرف کے زمانے میں خط لکھنے کی وجہ سے شہرت ملی۔ وہ اچھے کمپیئر تھے طاہرہ سید کے پہلے شوہر تھے۔ ان کی مقبولیت کی یہی وجوہات تھیں۔ پانامہ کا فیصلہ دو ججوں نے شریف فیملی کے خلاف دے دیا۔ تین نے کہا مزید تحقیقات ہونی چاہئے اب وکلاءنے اس میں مزید وقت مانگا ہے۔ یہی وکلاءکے حربے ہوتے ہیں۔ دو ججوں کی جانب سے خلاف فیصلہ آنے پر انہیں فوراً عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ ہو سکتا ہے انہیں اسٹے مل جاتا۔ اسی طرح جے آئی ٹی رپورٹ کو بھی عدالت میں چیلنج کیا جانا چاہیے تھا۔ ان کے وکلاءاور دیگر وکلاء نے بھی برملااظہار کیا ہے کہ جے آئی ٹی اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل غلط تھی۔ جے آئی ٹی کو عدالت میں چیلنج کرنے کی بجائے انہوں نے سیاسی طور پر اسے نشانہ بنانا شروع کر دیا اور گالم گلوچ شروع کر دی۔ باہر اس قسم کے حالات کا اندر بیٹھی ٹیم پر کیاا ثر ہوگا۔ وہ اگر خلاف نہیں بھی تو بھی ان کے خلاف ہو گئی۔ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم پر پریشر ڈالا جا رہا ہے فون ٹیپ ہو رہے ہیں۔ دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ مجبوراً چاروں کو اپنی فیملیاں ملک سے باہر بھیجی پڑیں۔ اس کے برعکس عدالت میں یہ کیس عمدگی کے ساتھ لڑا جا سکتا تھا ان کے حمایتی ٹولے نے ان کا بیڑا غرق کردیا۔ دانیال عزیز، طلال چودھری، عابد شیر علی سب نے اس میں حصہ ڈالا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ دو ججوں کے فیصلے کے خلاف انہوں نے درخواست تک نہیں دی۔ حتمی فیصلہ آ جائے پھر چیلنج کریں گے۔ انہیں تینوں سٹیج پر مقدمے کو مضبوط بنانا چاہیے تھا۔ ان کے وزراءمشیر، وکلاء یا تو لاعلم ہیں یا ان کے خلاف وہ نواز شریف کو درست مت دے ہی نہیں رہے۔ یہ سیدھا سادھا آئینی اور قانونی کیس ہے۔ آج بھی ججوں نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت ہی نہیں نہ غبن کانہ کرپشن کا۔ کورٹ نے کہا اگر بچے ٹریل پیش نہ کر سکے تو پبلک آفس ہولڈر ذمہ دار ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس جیسی صورتحال نواز شریف کے وکلاءنے پیدا کر دی ہے۔ وزیرقانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی تقریر پی ٹی وی کے علاوہ دیگر چینلز پر بھی چلتی رہی۔ پی ٹی وی سے اگر کچھ حصے ”مس“ ہو گئے تو وہ کسی ٹیکنیکل خرابی کا سبب ہو سکتے ہیں تاہم اگر کسی نے قصداً ایسا کیا ہے تو ضرور اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آج کل دو عدالتیں لگ رہی ہیں۔ ایک عدالت اندر لگتی ہے جس میں جج صاحبان سنتے ہیں اور وکلاءاپنے موقف بیان کرتے ہیں۔ ایک عدالت، عدالت سے باہر لگتی ہے۔ جس میں مختلف قسم کے لوگ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی سات سال قید کوئی 10 سال قید کوئی عمر قید کا فیصلہ سناتا ہے۔ حالانکہ ان کی اپنی اوقات نہیں کہ کسی کو ایک دن کی بھی سزا دے سکیں۔ یہ مخالفین اپنا گند نکالنے کے لئے ایسی تقریریں کرتے ہیں۔ پانامہ کا کیس اس وقت جس سٹیج پر ہے اس پر تو بات کرنا بھی توہین عدالت ہے۔ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ کا کیس عدالت میں ہے۔ اس پر قانون کے مطابق سزا ہو گی۔ یہ عدالت کی صوابدید ہوتی ہے۔ وہ کیس کو کس انداز میں دیکھتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے سپریم کورٹ خود فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ ٹرائل کے لئے یہ معاملہ نچلی کورٹ میں جائے گا۔ اس صورت میں مقدمے کی کارروائی سے کیس کی نوعیت کے حساب سے چلتا ہے۔ وہاں ملزم کو بلایا بھی جا سکتا ہے۔ اور وہ حاضری سے استثنیٰ بھی لے سکتا ہے۔ پھر شہادت ہو گی اور پھر جرح ہو گی۔ لیکن سپریم کورٹ جو مشاہدہ دے گی اس کا اثر ضرور ہو گا۔ رہنما تحریک انصاف فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے خواجہ آصف کی تعریف کے پل باندھ دیئے۔ سیالکوٹ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کون سے دن یہ صاحب عوام کے پاس جاتے ہیں اور ان کے مسائل سنتے ہیں اور کس جگہ پر متحرک نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تعریف کرنے میں وہ لائن آف کنٹرول کے شہداءکو بھول گئے وزیراعظم نے کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کی جرا¿ت نہ کی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv