تازہ تر ین
nawaz and nisar

چوہدری نثار کا وزیر اعظم سے حیران کن مطالبہ، ن لیگی حلقوں میں ہلچل

ملتان، اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد ملک میں سیاسی بھونچال کی سی صورتحال ہے اور ایسے میں سٹے باز بھی میدان میں آگئے۔ نوازشریف استعفیٰ دیں گے یا قانونی جنگ لڑیں گے۔ اس حوالے سے پاکستان بھر میں کروڑوں روپے کی شرطیں لگائی جارہی ہیں جبکہ سٹاک ایکس چینج میں بھی غیریقینی صورتحال کے پیش نظر سرمایہ کار تشویش میں مبتلا ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد عہدے سے مستعفی ہونے کیلئے مشورے شروع کردیئے ہیں جبکہ احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف نے ڈٹ جانے کا مشورہ دیا ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعدمیاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے اپنی کابینہ کے اہم وزراءاور قانونی ماہرین سے صلاح مشورے شروع کردیئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ نواز کابینہ کے اہم وزراءخواجہ ، آصف، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال سمیت بیشتر وزراءنے میاں محمد نواز شریف کو ڈٹ جانے اور مستعفی نہ ہونے کا مشورہ دیا ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارخان او رپیر صدر الدین شاہ نے فوری طور پرعہدہ چھوڑنے اور عوام سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر نواز شریف نے استعفیٰ دیا تو شہباز شریف اور سردار ایاز صادق میں سے کسی ایک کو مسلم لیگ ن کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کیلئے متبادل کے طور پر لانے کا امکان ہے جبکہ قانونی ماہرین نے جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی تجویز دی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن سندھ کی قیادت نے میاں نواز شریف کے حق میں سڑکوں پر آنے کے بجائے قانونی جنگ لڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ پانامہ سکینڈل میں وزیراعظم محمد نوازشریف اور ان کے صاحبزادوں کو ملوث قرار دینے کے معاملے پر آئندہ کے لائحہ عمل پر مشاورت کےلئے بڑی اپوزیشن جماعتوں میں رابطے تیز ہو گئے ، مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کےلئے آج(منگل کو) اسلام آباد میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے درمیان ملاقات ہوگی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں وسیع تر مشاورت کےلئے دیگر جماعتوں سے رابطوں کا بھی امکان ہے ۔دونوں قائدین کے درمیان ملاقات میں جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق) اور دیگر جماعتوں سے رابطوں اور متحدہ حزب اختلاف کا وسیع ترمشترکہ اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ متوقع ہے ۔ قبل ازیں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماءشاہ محمود قریشی کا بھی قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ وزےر اعظم نواز شرےف کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کےلئے سےاسی دباﺅ پہلے سے کئی زےادہ بڑھ گےا ہے تمام تر دباﺅ کے باوجود وزےر اعظم نے اپنے قرےبی رفقاءکے مشاورت کرنے کے بعد مستعفی نہ ہونے کا فےصلہ کےا ہے ۔ حکومتی حلقوں کو پہلے سے اس متوقع تحقےقاتی رپورٹ کے بارے مےں جو تحفظات اور خدشات تھے وہ درست ثابت ہوئے ہےں ۔ جے آئی ٹی کی تحقےقاتی رپورٹ نے حکومتی سےاسی مشکلات مےں کئی گنا اضافہ کردےا ہے اب پوری قوم کی نظرےں سپرےم کورٹ پر مزکور ہےں کہ اس تحقےقاتی رپورٹ پر سپرےم کورٹ کےا فےصلہ کرتی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنی ایک حالیہ ٹوئٹ میں لکھا کہ اگر آپ نے اسے ایک سیاسی جنگ بنا دیا ہے تو مسلم لیگ (ن) سے بہتر اسے کوئی نہیں لڑسکتا۔ پاکستان کی بحرانوں سے اٹی تاریخ میں اس پر کسی کو حیرت نہیں کہ اس قانونی اور انتظامی معاملے کو بشکریہ میڈیا ملک کا سب سے بڑا سیاسی مقدمہ بنا دیا گیا، اس کی وجہ قانونی اور ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت کے اندر بات کرنے کے بجائے اسے سیاسی نعروں اور بیانات کی بنیاد پر عوامی سطح پر لڑنا شاید زیادہ آسان ہونا ہے۔ ان حالات میں حکمران جماعت کے اندر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے 60 روز مسلسل مشاورتوں کا ایک بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ کئی سطحوں پر جاری ہے، ہر قسم کے میڈیا پر کڑی نظر بھی رکھی جارہی ہے۔ جماعت کے اندر مختلف رہنما اور دھڑے مختلف مشورے اور تجاویز دے رہے ہیں لیکن کلیدی فیصلے پارٹی قائدنوازشریف چند قریبی ساتھیوں کی مدد سے ہی کررہے ہیں۔ جماعت کے رہنماو¿ں کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ دو اہم نکات پر طویل مشاورت ہوئی ہے لیکن کوئی فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ ایک دھڑا جماعت کو کسی اچھی ساکھ کے وکیل کے ذریعے جے آئی ٹی کے اب تک کے ان قابل اعتراض اور بقول ان کے قابل گرفت اقدامات کو چیلنج کرنے کی تجویز دے رہا ہے لیکن اس پر جماعت کے اندر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کسی کی بھی جانب سے پاناما کی جاری تحقیقات کے خلاف عوامی مفاد میں ایک بھی پٹیشن کا سامنے نہ آنا ہے۔ فی الحال پٹیشن کی تجویز کو نظرانداز کرتے ہوئے جماعت نے جے آئی ٹی پر زبانی حملے جاری رکھنے پر اکتفا کیا ہے۔ دوسری قابل غور بات یہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی صورت میں عام انتخابات کے بارے میں کیا حکمت عملی ہوگی؟ جماعت کے اندر ابھی بعض حلقے اسے قبل از وقت بحث قرار دے رہے ہیں لیکن عدالتی فیصلہ جو بھی سامنے آئے، مسلم لیگ کو ایک بڑا فیصلہ کرنا ہوگا جس پر اس کے انتخابی مستقبل کا دارومدار ہوگا۔ جماعت کے اندر یہ بحث چل رہی ہے کہ عدالتی فیصلہ نوازشریف کے حق میں یا مخالفت میں ہونے کی صورت میں کیا فوری عام انتخابات جماعت کے حق میں ہوں گے یا نہیں؟ بعض لوگوں کے خیال میں یہ جماعت کے فائدے میں ہوگا کہ اگر وہ دونوں صورتوں میں جلد انتخابات کا بندوبست کرلے۔ ایک پارٹی رہنما کا خیال تھا کہ اس طرح چلنے سے بہتر ہے عوام سے نیا مینڈیٹ لے لیا جائے کیونکہ ایک سال بعد کیا حالات ہوں گے کسے معلوم، موجودہ حالات میں تو ہم ترقیاتی کاموں پر توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv