تازہ تر ین
ziazia shahid

”سپریم کورٹ فیصلہ پر عملدرآمد کیلئے فوج بُلاسکتی ہے“ سابق صدر سپریم کورٹ بار کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے ایک حصہ مکمل ہو گیا۔ جے آئی ٹی کے ارکان کو سپریم کورٹ نے مکمل ”پروٹیکشن“ فراہم کی۔ حکومت کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ انہیں کسی مرحلے پر بھی فارغ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر سپریم کورٹ اس کی ذمہ داری اس طرح نہ نبھاتی تو مستقبل میں کوئی ملازم اس بات پر تیار نہ ہوتا کہ وہ کسی قسم کی تفتیش کا حصہ بنے۔ بہرحال یہ رپورٹ ہے ابھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ نوازشریف نے اپنی آمدن جو دکھائی ہے ان کے اثاثے اس سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ کہیں زیادہ ہیں۔ اسی طرح وہ منی ٹریل پر تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ ایک سفارش یہ پیش کی گئی ہے کہ نوازشریف کے خلاف ریفرنس‘ نیب میں جمع کرا دیا جائے۔ دوسرا بڑا فیصلہ اس رپورٹ کے مطابق یہ ہے کہ ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ دائر کیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی شروع کی جائے‘ کیا انہوں نے حکومت کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ وزیرداخلہ کے تحت ہی سی ای سی پی کا ادارہ کام کرتا ہے‘ لیکن جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کو اس معاملہ پر طلب نہیں کیا۔ نوازشریف اور ان کی فیملی کا سب سے بڑا دفاع قطری شہزادے کا خط تھا۔ حکومتی وزراءبار بار اس کا اعلان کرتے رہے کہ اگر اس خط کو نہیں شامل کیا گیا تو ہم فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔پارلیمنٹ اور سینٹ میں کوئی شخص جب اپنا استعفیٰ پیش کرتا ہے تو اداروں کے سربراہ اس وقت تک استعفیٰ قبول نہیں کرتے جب تک وہ خود پیش ہو کر دستخطوں کی تصدیق نہ کر دے۔ یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے استعفیٰ بغیر کسی دباﺅ کے دیا ہے تو وہ قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح قطری شہزادے نے عدالت کے نمائندوں کے سامنے اس خط کو قبول کرنا تھا۔ اگر وہ پاکستانی عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہتے تھے۔ تو جے آئی ٹی ارکان کو اپنا بیان ریکارڈ کروا دیتے۔ جے آئی ٹی کے دو ارکان دبئی تک تو پہنچے لیکن قطر نہیں گئے۔ قطری خط پر عدالت کو حق حاصل تھا کہ وہ اس کی توثیق کرے یا سوال جواب کر کے مزید تفاصیل حاصل کرے۔ یہ معاملات نہیں ہوئے اس لئے صاف دکھائی دیتا تھا کہ عدالت اسے قبول نہیں کر رہی۔ تمام سیاسی جماعتوں کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس رپورٹ کو کس طرح دیکھتی ہے اور اس کے بارے کیا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کی ماضی کی کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ اگر حکومت اس رپورٹ کے خلاف عدالت جائے گی تو اس کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ عدالت کے ساتھ معذرت کے ساتھ یا تو حکومت تمام بنچ کو فارغ کر دے اور اس کی چھٹی کرا دے کیونکہ ان کا فیصلہ انہیں پسند نہیں آیا۔ ابھی سپریم کورٹ کا اصل فیصلہ آنا باقی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ فریقین، نواز لیگ، شیخ رشید، سراج الحق اور عمران خان کو دے دی گئی ہے۔ بہتر ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ اس کے بعد وہ نظرثانی پر جا سکتے ہیں۔ تمام فریقین کو آئینی اور قانونی جنگ لڑنی چاہئے بجائے اس کے کہ میڈیا میں سڑکوں اور جلسوں میں معاملات اچھالے جائیں۔ سیاسی پارٹیوں میں جان نثاروں اور جیالوں کی کمی نہیں ہوتی وہ ہر وقت اپنے لیڈر کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں کہ اب کیا کرنا ہے۔ جس طرح ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ بھی ہو چکا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تحت میاں فیملی منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کے اخراجات آمدن سے بہت زیادہ ہیں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے بارے کہا گیا کہ ان کی باتیں غلط ہیں۔ یہ معمولی الفاظ نہیں ہیں۔ بہتر ہے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد فریقین آئینی اور قانونی جنگ لڑیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا معاملہ کچھ اور تھا۔ جس طرح ان کی چھٹی کرائی گئی۔ ایسا اب دکھائی نہیں دیتا کہ حکومت کسی طریقے سے بھی چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوشش کرے گی۔ میں نے چوہدری نثار علی خان صاحب سے ذاتی طور پر پوچھا کہ ڈان لیکس کی تو بات بار بار ہوتی ہے یہ تو بتائیں کہ رپورٹ کی ایک کاپی آپ کے پاس دوسری کاپی وزیراعظم صاحب کے پاس ہے۔ تاہم اس رپورٹ کی تفاصیل تمام چینلز پر آ رہی ہیں اور اخبارات میں اس کا مواد شائع کیا جا رہا ہے؟ یہ لیکس کون کر رہا ہے؟ چوہدری نثار علی خان نے اس لیکس پر جو جواب دیا وہ پھر کسی وقت بتاﺅں گا اور اس پر لکھوں گا۔ ہمارے اخبارات کو بھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وقت سے قبل چیزیں شائع نہ کریں۔ آج بھی یہ معاملہ سامنے آیا ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان نے یہ تمام معلومات کسی اخبار کو دی ہیں۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ یہ سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے تمام ذمہ داران کو منظر عام پر لے کر آئے۔ سپریم کورٹ کی کوئی بھی کارروائی اور جے آئی ٹی کی کوئی بھی کارروائی خفیہ نہیں رہتی۔ نہ ہی ڈان لیکس کی رپورٹ خفیہ رہتی ہے۔ یہ کس قسم کی حکومت ہے کہ ہر خفیہ معلومات ”آوٹ“ ہو جاتی ہیں۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ معلومات کہاں سے آئی ہیں تو وہ کہنے لگے ٹائپ کی ہوئی رپورٹ کی کاپی نکال لی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق منی ٹریل ثابت نہیں ہو سکا۔ ان کے الفاظ جھوٹ ہیں؟ اتنے سخت الفاظ کے بعد کیا میاں فیملی کے حق میں فیصلہ دیا جا سکتا ہے؟ بعض وزراءکے خیال کے مطابق فوراً احتجاج کا سلسلہ شروع کر دینا چاہئے کیا موجودہ صورتحال میں سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف حکومت کوئی کارروائی کر سکتی ہے؟ کیا حکومت کی طرف سے کئے جانے والے احتجاج کو سپریم کورٹ روکے گی؟ سابق صدر سپریم کورٹ بار علی ظفر شاہ نے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ آج کی رپورٹ کے بعد ایک معاملہ تو ختم ہو گیا کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کو کلین چٹ نہیں دی۔ اس کا امکان بھی ختم ہو گیا ہے۔ تاہم ابھی 63,62 پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ کورٹ نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ نوازشریف اوران کی فیملی کے خلاف جوڈیشل یا کریمینل ”پروسیڈنگ“ کرنی ہے یا نہیں۔ عدالت کے آج کے فیصلے کے مطابق وزیراعظم نااہل نہیں ہوئے تاہم ابھی عدالت فریقین کو سنے گی اور پھر حتمی فیصلہ دے گی۔ جے آئی ٹی نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ نوازشریف اور ان کی فیملی منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لیکن یہ کوئی عدالت نہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنی معاونت کے لئے ایک ٹیم بنائی تھی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ ایک بات ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ دوسری بات لیکن اس رپورٹ سے ایسا نہیں لگتا کہ نوازشریف اور ان کی فیملی کے حق میں کوئی فیصلہ دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ آف یو ایس اے کا سکول کے بارے میں آنے والے فیصلے کو سدرن اسٹیٹس نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہاں ایک احتجاجی کیفیت بن گئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے آہستہ آہستہ اپنے فیصلے کو منوانے کے لئے اقدامات کر لئے۔ ہمارا آئین اور قانون یہ کہتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ مانا جا رہا ہو تو وہ فوج کو کال کر سکتے ہیں کہ ہماری مدد کرے۔ سجاد علی شاہ کے معاملے میں دو بنچ بنے ہوئے تھے۔ ایک بنچ جو فیصلہ دیتا تھا۔ دوسرا بنچ اس کو رد کر دیتا تھا۔ ایسا معاملہ چلتا رہا۔ بالآخر جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹا دیا گیا۔ لیکن ایسا ہوتا اب دکھائی نہیں دیتا کہ حکومت، چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوشش کرے۔ سپریم کورٹ جے آئی ٹی پر یہ ریمارکس دے رہی ہے کہ میاں فیملی منی ٹریل ثابت نہیں کر سکی اور حسن، حسین اور مریم نواز کے الفاظ جھوٹ ہیں۔ کیا جے آئی ٹی کی رپورٹ کے متن کی کاپیاں جو سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلاءکو دی ہیں۔ ان کا متن جاری ہو گیا ہے؟پروگرام میں تجزیہ کار مزمل گجر نے کہا کہ ایک کاپی ہمیں ابھی تھوڑی دیر پہلے موصول ہوئی ہے جس کے مطابق مریم نواز نیسکول اور لیکسن کمپنی کی مالک ثابت ہوئی ہیں اور وزیراعظم صاحب بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک ثابت ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم کے بچوں کے اثاثے کم ”شو“ کئے گئے ہیں۔ کمپنیوں کو نقصان میں دکھایا گیا ہے لیکن بہت زیادہ پیسے استعمال کئے گئے ہیں۔ نقصان کے بعد کمپنی سے زیادہ پیسے کس طرح استعمال کئے جا سکتے ہیں۔حکومت کہتی ہے کہ ہم جے آئی ٹی کی رپورٹ کو نہیں مانتے اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے نوازشریف ہی وزیراعظم رہیں گے اور ان سے کوئی استعفیٰ نہیں لے سکتا۔ عمران خان کا کہنا ہے نوازشریف مجرم ثابت ہو چکے ہیں۔ انہیں اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہئے ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ نوازشریف کے ساتھ ساتھ ایاز صادق بھی استعفیٰ دیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ حکومت اب سپریم کورٹ سے جنگ کرے گی وہ چاہتی ہے کہ اسے غیر آئینی طور پر ہٹا دیا جائے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv