تازہ تر ین
ziazia shahid

”دیکھنا ہے ہمارا جوڈیشل سسٹم کتنا سیاسی دباﺅ برداشت کرتا ہے“ نامور تجزیہ کار ضیاشاہد کی چینل ۵کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی سوالات کے جوابات سے مطمئن نہیں ہو رہی۔ قانونن دانوں کے مطابق جے آئی ٹی کو تفصیلی معلومات نہیں مل رہیں۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم یا اس کے خاندان سے کیا پوچھ گچھ ہو سکتی ہے۔ مروجہ قانون ے مطابق کوئی شخص یا محکمہ 10 سال سے پرانا ریکارڈ محفوظ رکھنے کا پابند نہیں ہے۔ اس لئے شریف خاندان کے اس موقف سے اتفاق کرتا ہوں کہ 20 سال پرانی دستاویزات دینے کے پابند نہیں۔ نوازشریف کے صاحبزادوں کا یہ موقف بھی درست ہے کہ ہم پاکستانی شہری نہیں اور یہاں کے قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتے البتہ ایک بات ان پر لاگو ہوتی ہے کہ جواب دیں پیسہ باہر کیسے اور کس طریقے سے بھیجا گیا۔ اکثر قانون دانوں کی رائے میں شریف خاندان نے واحد ثبوت قطری خط پیش کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دو دن سے افواہیں گرم ہیں کہ مریم نواز کی پیشی کے لئے خواتین کے دستے تشکیل دیئے جا رہے ہیں اگر خواتین جوڈیشل اکیڈمی میں گھس گئیں تو تشویشناک صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ نون لیگی رہنما اپنے لیڈر اور ان کے اہل خانہ کو بچانے کیلئے عروج پر پہنچے ہوئے ہیں۔ جوڈیشل سسٹم کیا اتنا دباﺅ برداشت کر سکتا ہے، اس کا فیصلہ چند روز میں ہو جائے گا۔ عدالت کی بنائی جے آئی ٹی کی سکیورٹی کی ذمہ داری سرکاری مشینری پر عائد ہوتی ہے۔ ساری عدلیہ، محکمے و ادارے خوف سے لرز رہے ہیں کیونکہ منتخب وزیراعظم اور ان کے خاندان کے احتساب کی موجودہ صورتحال پہلی بات پیدا ہوئی ہے، ماضی میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جے آئی ٹی کے پاس ملک سے باہر کسی شہری کی جائیداد یا منی ٹریل کی تحقیق کرنے کے اختیارات نہیں ہیں لیکن شریف خاندان سے کئے جانے والے سوالات کا تعلق بیرون ممالک کے بینکوں، فنانشل انسٹی ٹیوشن، رجسٹری و لیز کے قوانین سے ہے اس لئے اگر جے آئی ٹی نے باہر کی خدمات حاصل کی ہیں تو اس میں کوئی خرج نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک عدالت ثابت نہ کر دیئے اس وقت تک عمران خان کی اس بات سے اتفاق نہیں کروں گا کہ یہ چوروں کا خاندان ہے۔ نون لیگی رہنما اور پی ٹی آئی ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ عوام کو فریقین کی کسی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور الیکشن کمیشن کے درمیان ایک لڑائی جاری ہے لیکن ان کے پاس مقبول ووٹوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اگر الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف فیصلہ دے بھی دیتا ہے تو عوام کی بڑی تعداد اسے تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ الیکشن کمیشن پر خود بہت سارے سوالیہ نشان ہیں۔ اس کی تشکیل غلط طور پر ہوئی۔ اس کا طریقہ کار دنیا کے دوسرے الیکشن کمیشن سے بالکل مختلف ہے۔ چاروں صوبوں نے اپنا ایک ایک ممبر دیا جن پر ایک سربراہ مقرر کر دا گیا۔ چاروں ارکان اگر ایک طرف ہو جائیں تو اکیلا سربراہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ چودھری شجاعت حسین نے چینل ۵ کے پروگرام میں خصوصی گفتگو میں کہا تھا کہ اگر انتخابات موجودہ الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات کے تحت ہونے ہیں تو موجودہ حکمران پارٹی ہی کامیاب ہو گی، کبھی شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کی تبدیلی اور انتخابی اصلاحات ہونے تک شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ چند روز قبل میری کتاب ”پاکستان کے خلاف سازش“ کی تقریب رونمائی ہوئی تھی۔ اس میں بھی ذکر کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد آج کا ملک بھی سیاسی طور پر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے یا ہونے جا رہا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو حد سے زیادہ ملنے والے اختیارات سے وفاق کمزور ہو گیا ہے۔ صوبے کسی نہ کسی طرح وفاق کو چیلنج کر رہے ہیں۔سندھ حکومت نے نیب کو نہیں وفاقی ادارے کو چیلنج کیا ہے اس قرارداد کی شدت سے مخالفت کرتا ہوں۔ سندھ حکومت نیب کے سربراہ، طریقہ کار، اقدامات پر تنقید کا پورا اختیار رکھتی ہے لیکن وفاقی ادارے کو چیلنج کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ملکی سالمیت اور آئین کے خلاف ہے۔ اس قسم کی باتیں بلوچستان کے سیاستدان لندن میں بیٹھ کر کر رہے ہیں۔ ہربیار مری، نواب سلیمان داﺅد، براحمداغ بگٹی اور بانی متحدہ ”را“ اور ”اسرائیل“ کی مدد سے پاکستان کی سرحدیں مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم و وفاقی حکومت صوبوں کو انتہائی اقدام تک جانے سے روکیں ورنہ وفاق کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں صوبائی حکومتوں کے ساتھ وفاقی حکومت بھی پاکستان کو توڑنے و کمزور کرنے میں برابر کی شریک ہوں گی۔ آج نیب تو کل دوسرے اداروں پر بات آئے گی۔ سندھ حکومت اس سے پہلے 2 مرتبہ رینجرز معاملات کو چیلنج کر چکی ہے۔ رینجرز خود صوبائی حکومت کی دعوت پر آئی تھی ہر تیسرے مہینے ان کی نوٹی فکیشن روک دی جاتی تھی۔ وہی حکومت ڈاکٹر عاصم سمیت دیگر کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بنتی رہی۔ عوام فوج، قانون دان اور سیاسی جماعتیں بتائیں کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی اور کبھی کسی صوبے نے فوج کے عمل دخل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو پھر کیا کیا جائے گا لہٰذا اس رجحان کو فتح کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جمشید دستی ہوں یا بابا جی ہزارہ والے، الگ صوبے کا مطالبہ آئین و قانون کے مطابق پورا کروانا چاہئے۔ آئین میں الگ صوبے کے قیام کی اجازت ہے اور اس کا طریقہ کار بھی موجود ہے۔ ایسے مطالبوں پر دنگا فساد یا شور شرابہ کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مارشل لاءکا مطلب ہے ”نو لائ“ کہ کوئی قانون نہیں ہے۔ مارشل لاءلگنے کے بعد آئین پس پردہ چلے جاتا ہے۔ فوجیوں نے بھی مجھ سے کہا کہ اگر فوجی بغاوت ناکام ہو جائے تو فوجی افسر کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اسے سزا ملتی ہے۔ اگر کامیاب ہو جائے تو آئین اس کو تسلیم کر لیتا ہے۔ ہمیں تاریخ کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔ فوجی بغاوت کامیاب ہو یا ناکام دونوں صورتوں میں اچھی بات نہیں ہے۔ وزیراعظم اتنے بھولے و معصوم ہیں کہ جے آئی ٹی بننے پر مٹائیاں بانٹی کہ ہم کامیاب ہو گئے اور اب جب وہ سوالات کے لئے بلا رہی ہے تو کہتے ہیں کہ وہاں خواتین کے دستے داخل کر دیں گے، یہ افراط و تفریق ختم ہو جانی چاہئے۔ ذاتی تعصبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مستقل رویے اپنانے چاہئیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کرنی چاہئے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv