تازہ تر ین

پاکستان مخالف قوتوں کیخلاف آخری سانس تک لڑتا رہوں گا چیف ایڈیٹر خبریں اور سی پی این ای کے صدر ضیاشاہد کی خصوصی گفتگو

اسلام آباد (رپورٹنگ ٹےم) چےف اےڈےٹر خبرےں اور سی پی اےن ای کے صدر ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میں پاکستان کے خلاف بات کرنے والوں کے خلاف آخری سانس تک لڑتا رہوں گا میں نے اپنی کتاب میں کسی کو غدار نہیں لکھا اورنہ غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کئے میری یہ نئی کتاب ایک نقطہ آغاز ہے مجھے صوبوں کے قیام سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن صوبوں کا قیام مملکت پاکستان کے استحکام کے منافی نہ ہو،ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی نئی کتاب ”پاکستان کے خلاف سازش“ کی تقریب رونمائی سے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کیا، ضیا شاہد نے کہا کہ میں تقریب میں شامل ہونے والے تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر ہماری اس تقریب کو رونق بخشی، انہوں نے وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے انتہائی مصروف ہونے کے باجود تقریب میں شرکت کیلئے وقت نکالا ان کا اور ہمارا کافی پرانا ساتھ ہے اور عمر بھر کے رفیق ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں قابلیت اور دانش کے باعث بڑا مقام حاصل کیا، انہوں نے سابق چیئر مین سینٹ وسیم سجاد کے بارے میں کہا کہ یہ قائم مقام صدر اور چیئرمین سینٹ رہے جن کے ساتھ میں ان کی انتخابی مہم میں کارکن اور سپاہی کی حیثیت میں حصہ لیا اور خود ان کیلئے ووٹ مانگے، پرویز رشید کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میں گارڈن کالج کے زمانے سے ان کا معترف ہوں ان کے ساتھ میری ذاتی محبت ہے ان کی شفقت اور میری ذاتی محبت میں کبھی فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے تقریب میں شریک ہونے والے اخبارات کے ایڈیٹرز، اخبار نویسوں، کالم نگاروں اور اہل دانش و فکر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میری کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کتاب ایک نقطہ آغاز بن سکتی ہے جس کے نتائج آنے والے دور میں سامنے آئیں گے اور ان سے راہنمائی لی جا سکے گی، صوبوں کی خود مختاری کے بارے میں۔ انہوں نے کہا کہ یہی بات بلوچستان میں شروع ہوئی وہاں پر صوبوں کے حقوق کے حوالے سے باز گشت شروع ہوئی، آج زبان کے مسئلے پر الگ صوبے بنانے کی بات کی جا رہی ہے پختون خواہ سے اور پشتو بولنے والے علاقوں کو افغانیہ کے نام سے نیا صوبہ بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں ، مجھے صوبوں کے قیام سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن صوبوں کا قیام مملکت پاکستان کے استحکام کے منافی نہ ہو ،آج یہ کہا جا تا ہے کہ بلوچستان کی نئی نسل برامداغ بگٹی ہو یا نواب سلیمان کا بیٹا داﺅد ہو یا باقی ناراض گروپوں کے لیڈر ہوں جن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ وفاق میں واپس آ گئے ہیں جن کو ہم نے آج تک نہیں دیکھا کہ وہ واپس آئے ہوں اس پر میں نے سوچا کہ کچھ نہ کچھ لکھوں میں یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے کہ وہ حرف آ خر ہے آپ سب لکھنے پڑھنے والے لوگ ہیں، یہاں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو سیاست سے وابستہ ہیں میں ان کی بہت عزت و احترام کرتا ہوں اخبارات کے ایڈیٹرز ہیں وہ بھی سوچنے اور سمجھنے والے لوگ ہیں جو اینکرز ہیں وہ سوچنے اور سمجھنے والے ہیں جو کالم نگار ہیں وہ بھی اس معاملے کو مجھ سے زیادہ جانتے ہوں گے، میری یہ کتاب محض ایک نقطہ بن سکتی ہے اس بحث کا کہ ہم نے آگے جا کر پاکستان کو کس طرح چلانا ہے ، کیا زبان اور نسل کی بنیاد پر پہلے صوبائی حقوق اور پھر پرائمری کی تحریکیں بنانی ہیں یا قائد اعظم کی تھیوری جو 23مارچ 1940ءکی ہے کہ ہندو ایک طرف اور مسلمان دوسری طرف ہے ، دونوں کی تہذیب مختلف ہے ، دونوں الگ الگ رہنا چاہتے ہیں البتہ ہم نے وعدہ کیا تھا قائد اعظم کی صدارت میں پاکستان کو ایک الگ اسلامک ویلفیئر سٹیٹ بنائیں گے معلوم نہیں کہ ہم اس میں کتنے کامیاب ہوئے ہیں آپ اس بارے بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں،یہ کتاب ایک نقطہ آغاز ہے میری گزارش ہو گی کہ آپ اس موضوع پر کالم لکھیں ، تقاریر کریں ، اس پر پروگرام کریں اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہم اپنے پاکستان کے سب علاقوں کے لوگوں کو ان کے حقوق دے سکیں ،ان کی زبان اور تہذیب کی نگہداشت بھی کر سکیں اور ان کو فروغ بھی دے سکیں یہ سب کام ایک پاکستان کی چھت کے اندر ہونا چاہیئے اور یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ بھارت نے ڈھاکہ میں اپنی فوج اتا ر کر ہماری فوج کو شکست دی تھی اور وہاں قابض ہو گئی تھی، اس درد سے میں نے یہ کتاب لکھی مجھے ان تقاریر سے کتاب کی پروموشن کی غرض نہیں ہے میں نے 200کاپیاں سب دوستوں میں خود اعزازی پیش کی ہیں اورنہ مےں نے کتاب کی رائلٹی لی ہے مےں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس بحث پر سب اہل نظر ، اہل قلم اور اہل علم لوگ سوچےں اور اپنی رائے سے ہمےں نوازےں ہم بھی اسے چھاپےں گے باقی اخبارات بھی اسے چھاپےں اپنے اپنے طور پر ہمےں دےکھےں کہ ہم اپنے پاکستان کے سب علاقوں کے لوگوں کے حقوق کو کس طرح تحفظ دے سکتے ہےں زبان و بےان کو اور ان کی تہذےب کو کس طرح فروغ دے سکتے ہےں ان کی تسلی کےسے کرسکتے ہےں یہ سب کچھ اےک پاکستان کی چھت کے نےچے ہونا چاہےے ۔ اور اس کی حدود کے اندر ہونا چاہےے اسی وجہ سے اےک لاہور مےں تقرےب کا اہتمام کےا اور اب اسلام آباد مےں تقرےب منعقد کی گئی ہے ۔ 15 جولائی کو کراچی مےں بھی تقرےب رکھی ہے اور پاکستان کے 28اخبارات نے میری کتاب کے اشتہارات مفت شائع کئے ہیں میری کتاب پر تمام اخبارات نے21سے زائد کالم شائع ہو چکے ہیں اللہ جانتا ہے ان کالموں کی اپنی ذات کےلئے ضرورت نہےں ہے بلکہ اس اےشو پر بات ہو اور یہ آگے چلے ۔ انہوں نے کہا کہ میں قطعی طور پر اپنی کتاب میں کسی کوغدار قرار نہیں دیا اور نہ کسی صوبے کے متعلق بات کی،انہوں نے پطرس فاروق کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس مضمون میں ایک خاتون کا ذکر ہے کہ وہ کتابوں پر تبصرہ کیا کرتی تھی میں نہیں کہتا کہ آپ یہ کتاب پڑھے بغیر تبصرہ کریں ، پطرس فاروق کے حوالے سے ہے کہ وہ جب اس خاتون کے گھر گئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں پر موجود کتابیں بالکل نئی تھیں اور ان کے صفحات جڑے ہوئے تھے خاتون نے کتاب کھول کر دیکھی بھی نہیں ہوتی تھی میری گزارش ہے کہ جن دوستوں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہو وہ جانتے ہیں اور اللہ شاہد ہے کہ میں کسی کو بھی غدار نہیں کہا اور نہ ہی میں اس پر یقین رکھتا ہوں میں نے مختلف بات کی ہے اور یہ کہا ہے کہ دو قومی نظریہ چھوڑ کر جب ہم زبان اور نسل کی بنیاد پر علاقے کی تفریق کریں گے تو ملک کیلئے آگے چل کر نقصان دہ ہو گامیرے بہترین تعلقات اپنی زندگی میں ولی خان کے ساتھ رہے ہیں اور بیسیوں مرتبہ ولی باغ گیا بلوچستان میرے سب سے اچھے تعلقات نواب اکبربگٹی کے ساتھ رہے ، میں نے بیسیوں مرتبہ ان کے گھر کھانا کھایا جب انہوں نے سو کالڈ بغاوت کی تو میں آخری آدمی تھا جو ان کے پاس گیا اور منع کیا لیکن وہ اس میں بہت آگے نکل چکے تھے میں نے پوری زندگی یہ کوشش کی کہ ان دوستوں کو قریب لاﺅں ان کے تحفظات دور کروں ہمیں یہ جاننا چاہیئے کہ یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں اور کیوں الگ ہوتے ہیںلیکن میں اس کے ساتھ ساتھ تاریخ کو نہیں جھٹلا سکتا۔ غفار خان کے ساتھ ہم نے کیا زیادتی کی نواب آف قلات کے بیٹے سلیمان داﺅد کو کیا کہا، برامداغ بگٹی جو بھارت میں بیٹھے ہیں ان کو کےا کہا تھا۔ یہ فلاسفی ہے کہ اب پاکستان میں آہستہ آہستہ قائد اعظم کے فرمودات اورعلامہ اقبال کی تھیوری کے مطابق چلا جا رہا ہے مسلمان ایک قوم ہے اور دوسری ہندو قوم ہے لاہور میں ایک منعقدہ تقریب میں سٹیج پر بحث چھڑ گئی جس میں کہا گیا کہ ہر پاکستانی آدھا بھارتی ہے اور بھارتی آدھا پاکستانی ہے دونوں طرف ایک جیسے لوگ رہتے ہیں ایک جیسا کھانا ہے لباس ہے بس درمیان میں ایک سرحد ہے اس متعلق ہمارے اخبار میں ایڈیٹیوریل چھپا دوسرے اخبارات میں بھی ایڈیٹیوریل اور کالم چھپے ہیں،ایک دوست ہیں جن کا بڑا مقام ہے ان کو کہا کہ آپ قائد اعظم کی جماعت مسلم لیگ کے آج سربراہ ہیں مہربانی کرکے ہندو کو دوست بنانے کیلئے اس حد تک نہ چلے جائیں کہ آپ یہ کہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف ایک سرحد ہے میں نے خود ایک کالم لکھا اور ایڈیٹوریل لکھوایا کہ یہ صرف سرحد نہیں ہے بلکہ یہ دو تہذیبوں کاباڈر ہے ۔ مےری پوری کتاب کا تھےسز یہی ہے مےں نے کسی کو غدار نہےں کہا ۔کےا مےں نے بگٹی کو کہا تھا کہ پہاڑوں پر چڑ ھ جائےں اور اسلحہ ہاتھ مےںا ٹھالےں کےامےں نے الطاف حسےن کو یہ مشورہ دےا کہ آپ را اور اسرائےل کی مدد سے پاکستان کو توڑ نے کی بات کریںیہ درست ہے کہ لوگوں کی زبان تہذےب اور ان کے حقوق کا تحفظ دےا جانا چاہےے ۔ آپ سب لوگوں کی تجاویز اور مشوروں کا خیر مقدم کرتا ہوں ضیا شاہد نے تمام شرکاءکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی یہ ثابت کردے کہ میں نے اپنی کتاب میں کسی کے نام کے ساتھ غدار لکھا ہے اور یہ ثابت ہو جائے تو میں معافی مانگنے کیلئے تیار ہوں اور اخبار میں بھی معافی کا اشتہار شائع کروں گاپاکستا ن کے خلاف بات کرنے والوں کے خلاف آخری سانس تک لڑتا رہوں گا جس پر شرکاءنے زور دار تالیاں بجائیں۔
ضیاشاہد



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv