تازہ تر ین

”ٹی وی ٹاک شوز کو بند کرنا خلاف آئین جھوٹی خبر پر کڑی سزا دیں“ نامورتجزیہ کار ضیاشاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ڈان لیکس کے معاملے پر سب سے اچھا تبصرہ سراج الحق نے کیا ہے کہ ”جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“ اگر فوج راضی ہے تو پھر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ٹویٹ بھی واپس لے لیا گیا جو کہ اچھی بات ہے۔ اداروں کے درمیان محاذآرائی ملکی مفاد میں نہیں ہوتی۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی کے فوج میں اضطراب کے بیان پر انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے اگر ہوتا تو ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کر کے معاملہ ختم نہ کرتے۔ حکومت کے ذہن میں یہ بات ہو گی کہ ڈان لیکس جن کے بارے میں ہے اگر وہ مطمئن ہیں تو پھر اپوزیشن کے پیٹ میں کیوں درد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی اس بات سے متفق ہوں کہ جب ایک مسئلہ ہوا، شورشرابا مچا، انکوائری کمیٹی بنی تو معاملہ اتنی سادگی سے کیسے ختم ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک صحافی کی حیثیت سے محسوس کرتا ہوں، جب کوئی بڑے سے بڑا مسئلہ ہو تو پاکستان کے صحافیوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا نہ ہی کچھ بتایا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز پر تو پابندی لگانی چاہئے،میرے خیال میں تمام ٹاک شوز بند کرنا ٹھیک نہیں۔ مخصوص الزام متعین کرنا چاہئے کہ فلاں ٹاک شو ملکی مفاد کے خلاف ہے یا اس کے حقائق غلط ہیں، یہ طرز عمل نہیں ہونا چاہئے کہ سب کو بند کر دو۔ اگر تمام ٹی وی ٹاک شو بند کر بھی دیئے جاتے ہیں تو بین الاقوامی ٹی وی کیسے بند کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا رویہ عجیب و غریب ہے کہ ملک بھر کے قومی اخبارات کے رپورٹرز، ایڈیٹرز، اداروں یا ٹی وی چینلز کوکچھ نہیں سمجھا جاتا جبکہ بی بی سی کا کوئی چپڑاسی بھی آ جائے تو وزارت خارجہ اس کے آگے پیچھے گھومتی ہے۔ یہ طرز عمل ختم ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ بی بی سی کی وزیراعظم اور جندال ملاقات کے حوالے سے خبر کی حکومت یا فوج کسی نے بھی ابھی تک کوئی تردید یا تصدیق نہیں کی، ایسے حالات میں میڈیا کیا سمجھے؟ انہوں نے کہا کہ اگر ہماری کوئی خبر غلط ہوتی ہے تو ہمیں سزا دیں، یہ عدالتی نظام کا قصور ہے کہ مقدمے کو 11 سال لٹکا دیا جاتا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو عام آدمی کو لاعلم اور ذرائع ابلاغ کو اعتماد میں نہیں لینا چاہتے۔ ڈان لیکس پر اتنا شور برپا ہے اسے عدالت میں کیوں نہیں لے کر جاتے۔ دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا ہے کہ فوج میں ڈان لیکس کے مرکزی سوالوں کے جواب ملنے تک اضطراب لازمی ہے۔ خبر لیک اور شائع کرانے والے کے بارے میں پتہ نہیں چلا۔ جن لوگوں کو نوٹیفکیشن میں سزا دی گئی، میں اسے سزا نہیں سمجھتا۔ آرمی چیف نے جمہوریت بچانے کیلئے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے لیکن جب سینئر افسران ان سے پوچھیں گے اور اضطراب کا اظہار کریں گے تو ان کو وضاحت بھی کرنا پڑے گی ۔ فوج کی جانب سے کوئی ٹویٹ آرمی چیف کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا، فوج کو اپنے چیف کے حکم پر کوئی شک نہیں ہوتا لیکن اضطراب ضرور ہو گا۔ خبر لیک کرنے والے سامنے نہیں آئے، کسی کو سزا نہیں ہوئی اس حوالے سے اضطراب ضرور ہو گا۔ ڈان لیکس معاملے پر ملک میں طوفان برپا ہو گیا تھا ایسی صورتحال میں دانشمندانہ فیصلہ ہے، آرمی نے ایک قدم پیچھے ہٹایا ہے، ملٹری مائنڈ سمجھ سکتا ہے کہ کتنی مشکل سے یہ فیصلہ ہوا ہو گا۔ دعا ہے کہ ملک کے لئے بہتر ہو لیکن اعتراضات پہلے اور دوسرے دونوں فیصلوں پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر سجن جندال جیسے معاملات میں آرمی چیف کو پہلے سے آگاہ کر دیا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں جندال ملاقات کے لئے فوج کو پوری طرح اعتماد میں لینے کی بات درست نہیں، بعد میں بات کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی تشویش جندال کے بارے میں رہی ہے، ایسے شخص سے نہیں ملنا چاہئے جس نے ملک و فوج کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ماہر قانون حامد خان نے کہا ہے کہ آزادی صحافت پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہئے، ایسی کوششیں کہ عام لوگوں تک کوئی خبر نہ پہنچے افسوسناک پہلو ہے۔ ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر آنی چاہئے۔ قوم کے سامنے پوراسچ نہیں آ رہا یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تمام ٹاک شوز کو بند کرنے کا کہنا مناسب نہیں، یہ ہمارے بنیادی حقوق کے منافی ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی جندال سے ملاقات پر کوئی اعتراض نہیں لیکن جس طرح خفیہ آمد اور ملاقات ہوئی اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریسرچر جتنا مرضی سینئر ہو اس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی لکھاری باہر سے آیا ہو تو ارباب اختیار اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں جو غلامانہ ذہن کی نشاندہی ہے۔ بیرون ملک سے بھی اگر کوئی مرد صحافی آتا ہے تو اس کے ساتھ امتیازی سلوک جبکہ خاتون ہو تو بیورو کریسی سارے کھاتے کھول کر سامنے رکھ دیتی ہے۔ چیئرمین پاکستان کسان اتحاد چودھری محمد انور نے کہا ہے کہ حکومت سے گزارش ہے کہ ہماری گندم خریدے، بے شک 100 روپیہ کم ریٹ لگائے۔ 10 سال پہلے گندم باہر سے منگوائی جاتی تھی، آج یہاں وافر ہے تو سنبھال نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت دیہاتوں میں 6 سے 8 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کر رہی ہے تو درخواست ہے کہ جو بجلی دے رہے ہیں وہ تواتر کے ساتھ دے دیں۔ وقفے وقفے سے لوڈ شیڈنگ نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس جس کھیت سے 25 من گندم پیدا ہونی تھی وہاں 45 سے 50 من پیداوار ہوئی۔ جو کٹائی کے بعد کھیتوں میں پڑی ہے لیکن خریدار نہیں ہے۔ اگر حکومت نے گندم نہ خریدی تو جنوبی پنجاب میں جہاں کپاس سب سے اہم ہے، لیکن گندم کی فروخت میں تاخیر کے باعث کپاس کی کاشت کا موسم گزر جانے کا خدشہ ہے۔ ملک سے کپاس ختم ہو رہی ہے، کبھی یہ ملک کپاس کی برآمد میں تیسرے نمبر پر تھا۔ آج باہر سے روئی منگوائی جا رہی ہے یہ بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت زراعت کو بچائے میٹرو چلانے سے ملک خوشحال نہیں ہو سکتا۔ دیہاتوں میں غربت کا یہ عالم ہے کہ کپاس کاشت کرنے، پانی، بجلی و ڈیزل کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ملتان، بہاولپور ، ڈی جی خان تینوں ڈویژنوں میں 90 فیصد دیہاتوں کا دارومدار کپاس کی فصل پر ہے۔ اگر یہ سب بیروز گار ہو گئے تو ملک میں غربت کا بڑا طوفان آئے گا۔ پاکستان کسان اتحاد کی دو تنظیموں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ خالد کھوکھر میرے ساتھ ہوتا تھا۔ 2012ءمیں کسان اتحاد کی بنیاد رکھی تو ان کو ضلع خانیوال کا صدر بنایا تھا۔ یہ فخر امام کا منشی تھا، تعلیم میٹرک فیل ہے۔ جب حکومت نے ہماری جماعت کو مضبوط ہوتے دیکھا تو خالد کھوکھر کو پروٹوکول دے کر جماعت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ حکومتی کارنامہ ہے۔ خالد کھوکھر چند ایکڑ کا مالک ہو کر لاکھوں کے اشتہارات دے رہا ہے جبکہ میں مربعوں کا مالک ہو کر اتنے اشتہارات نہیں دے سکتا۔ خالد کھوکھر کا اسلام آباد میں مظاہرہ کرنے کا اشتہار ایک چال ہے۔ وہ حزب اختلاف و حکومت سے پیسے لے کر مک مکا کر لے گا، یہ مظاہرہ نہیں ہو گا جبکہ ہم نے کبھی مک مکا نہیں کیا۔ ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے کہا ہے کہ کسان اتحاد کا دیہاتوں میں وقفے وقفے سے لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا مطالبہ جائز ہے، ہم خود اس چیز کو محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوڈ مینجمنٹ کو کچھ اس طرح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں کاشتکار زیادہ ہیں، وہاں وقفے وقفے سے لوڈ شیڈنگ نہ ہو تا کہ کسانوں کو فائدہ ہو سکے۔اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے بات کریں گے۔امید ہے کاشتکاروں کو 3 سے 4 گھنٹے مسلسل بجلی فراہم کی جا سکے گی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv