لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پانامہ کیس میں نئے بنچ کی تشکیل پر تو سپریم کورٹ ہی روشنی ڈال سکتی ہے البتہ یہ واضح ہو گیا کہ نئے بنچ کے سامنے جو رپورٹ جے آئی ٹی پیش کرے گی اسی کی بنیاد پر فیصلہ ہو گا۔ پیپلزپارٹی اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی اور حکومت پر مکمل دباﺅ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اس نے آئندہ الیکشن لڑنا ہے اور اس الزام کو دھونا ہے کہ پیپلزپارٹی نون لیگ کی بی ہے۔ عوام بہت سادہ ہیں کسی لیڈر کی کسی بھی بات پر یقین کر لیتے ہیں۔ فیصل صالح حیات بہت بڑا لوٹا ہے۔ کئی بار پارٹی تبدیل کر چکا ہے اب پھر پیپلزپارٹی میں آ گیا ہے۔ خبر شائع ہوئی ہے کہ نون لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ پی پی کے ساتھ دوبارہ رابطے بڑھائے جائیں گے۔ نون لیگ اگر پی پی کی جانب ہاتھ بڑھاتی ہے تو ایک مرتبہ پھر دونوں میں مفاہمت ہو سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی مصنوعی نورا کشتی جاری رہتی ہے یا کوئی سمجھوتہ کر لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نون لیگ کا خاتمہ ہو جانے کی سوچ رکھنے والوں سے متفق نہیں ہوں۔ پانامہ فیصلے سے ن لیگ کو ایک دھچکا ضرور لگا ہے لیکن وہ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے فیصلے میں بوگس، دھوکہ، فراڈ لکھا لیکن آخر میں جے آئی ٹی کے سپرد کر دیا، اگر وہ بھی اختلافی نوٹ لکھنے والے 2 ججز کے ساتھ مل جاتے تو نوازشریف کی نااہلی کا عمل مکمل ہو چکا ہوتا، ابھی فیصلہ آنا ہے۔ پہلے بھی جے آئی ٹیز بنتی رہی ہیں، ان کا حشر سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیاں نوازشریف کے حق میں جبکہ سندھ اورکے پی کے ان کے خلاف قرارداد منظور کریں گی۔ دوسری جانب 2 ججزنے وزیراعظم کے خلاف جبکہ 3 ججوں نے نہ تو ان کے حق میں فیصلہ دیا نہ خلاف بلکہ مزید تحقیقات کرنے کا کہا، معاملہ ففٹی ففٹی ہے۔ پروگرام کے دوران تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کی اس بات پر کہ ”وزیراعظم کو اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہئے“ کے جواب میں تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کسی حیثیت کا حامل نہیں، اخلاقی طور پر تو خواجہ سعد رفیق کو اب تک 11 دفعہ استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا۔ انہوں نے جب سے ریلوے کی وزارت سنبھالی بہت سارے اچھے کام بھی کئے، جس پر 3,2 بار ان کو مبارکباد دی اور ایک بار وزیراعظم نوازشریف سے بھی کہا کہ ان کو انعام دیں، انہوں نے بند ہوتی ریلوے کو بچا لیا لیکن یہ وہی خواجہ سعد رفیق ہیں جن کے دور میں 11 بڑے ٹرین حادثات ہو چکے ہیں، اگر کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو متعلقہ وزیر استعفیٰ دے دیتا لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ انسداد منشیات کی عدالت کا ایفی ڈرین مقدمے میں فردِ جرم عائد کرنے کے حوالے سے تجزیہ کار نے کہا کہ میرے خیال میں اگر کیس اسی رفتار سے چلتا رہا توفیصلہ آنے میں دو سے اڑھائی ہزار سال لگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو احتجاج کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ سب کا جمہوری حق ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نوازشریف کا عہدے پر براجمان رہنے کا کوئی قانونی، آئینی و اخلاقی جواز نہیں رہا۔ ان کے ذہن میں جمہوری عناصر کا فقدان ہے، ہمیشہ غلط طریقے سے اقتدار کو بچانے کی کوشش کی۔ نون لیگ کو ڈر تھا کہ فیصلے کے بعد ان کی حکومت ختم ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا جو ان کے لئے بڑی خوش خبری تھی، اسی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے۔ اب ان کو آہستہ آہستہ معلوم پڑ رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے وفاق کے حوالے سے ان کی کوئی دلیل منظور نہیں کی اور جے آئی ٹی بنا دی تا کہ وہ معاملے کی تہہ تک جائیں اور حقیقت عوام کے سامنے لائیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ان تمام جماعتوں سے تعاون کر رہے ہیں جو نوازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ نعیم الحق نے کہا کہ پی ٹی آئی کے جلسے گزشتہ 3,2 ماہ سے جاری ہیں اورآئندہ بھی جاری رہیں گے۔ پانامہ کیس نہ بھی ہوتا تو بھی جلسے کئے جاتے کیونکہ یہ عام انتخابات کا سال ہے۔ ایسے وقت میں یہ کوئی غیر معمولی امر نہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں بدلتی ہوئی سیاسی فضاءسے عوام کوباخبر رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں عمران خان تقریر کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں موقع نہیں دیا گیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان اپنا کام کرے کیونکہ حکومت 3 ماہ سے بجٹ کی تیاری کر رہی ہے، ملک اس وقت سنگین سیاسی و اقتصادی صورتحال سے گزر رہا ہے، معیشت خطرناک زون میں داخل ہو چکی ہے جس کی ساری ذمہ داری نوازشریف پر عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد پہلے دن سے لے کر آج تک روزانہ 6 سے 7 ارب روپے کے قرضے لئے ہیں۔