تازہ تر ین

درگاہ حضرت نظام الدین اولیا ….سجادہ نشین ”را“ کے کارندے نکلے….سنسنی خیز انکشافات

کراچی (خصوصی رپورٹ)دو روزقبل لاہور اور کراچی کے ایئرپورٹس سے لاپتہ ہوجانے والے دو بھارتی شہریوں، درگاہ نظام الدین اولیاؒ دہلی کے سجادہ نشین سیدآصف علی نظامی اور ان کے عزیز ناظم نظامی کے داتا دربار لاہور کے کسی ذمہ دار سے نہ ملنے اور پاک پتن میں نظامی خانوادے کے بڑوں سے بھی ملاقات کے شعوری گریز نے ان کی کراچی اور لاہور میں مصروفیات کا معاملہ مشکوک بنادیا ہے۔ داتا دربار مسجد کے خطیب مفتی رمضان سیالوی نے درگاہ نظام الدین اولیاؒ سے ایسے کسی مہمان کی دربار آمد سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ہم اجمیرشریف سے جن سجادہ نشین صاحب کو عرس پر دعوت دیتے ہیں، وہ یہ دونوں حضرات نہیں، جن کا ان دنوں نام لیا جارہا ہے۔ ڈی جی اوقاف پنجاب داکٹر طاہر بخاری نے بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسے کسی مہمان کی آمد کا علم نہیں ہے۔ نہ ہی کسی نے آنے سے پہلے یا پہنچنے پر رابطہ کیا تھا۔ جبکہ دربار عالیہ پاکپتن شریف کی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار نے بھی کسی بھارتی سجادہ نشین کی پاکپتن آمد سے بے خبری ظاہر کی ہے۔ پاکستان میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے لئے غیر معمولی احترام پائے جانے کے باوجود وہاں کے دو سجادہ نشین کی پاکستانی درگاہوں پر آمد اور اپنی حاضری کو خفیہ رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ نیز انہوں نے کراچی میں اپنی مصروفیات کو متحدہ قومی موومنٹ کے اثرات والے علاقے لائنزایریا تک ہی کیوں محدود رکھا؟ اس حوالے سے ذرائع نے کراچی کے علاقے ملیر میں نظامی خاندان کے بزرگ سید سیف الاسلام نظامی سے رابطہ کیا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ ”ان دونوں سجادہ نشین نے مجھ سے ملنے کیلئے آنے کی زحمت نہیں کی۔ میں یہاں خاندان کا بڑا ہوں، اس لئے میں ان کے پاس لائنز ایریا جاکر تو ملاقات نہیں کرسکتا تھا“۔ سید سیف اسلام نظامی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ناظم نظامی تو پاکستان آتے رہتے ہیں، لیکن آصف نظامی 20سال بعد آئے ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی ملاقات ضروری خیال نہیں کی۔“ نظامی خاندان کے ذرائع نے بتایا کہ سید آصف علی نظامی اور ناظم نظامی جن کے بارے میں بھارتی ذرائع ابلاغ نے خبر بریک کی ہے کہ وہ پاکستان میں لاپتہ ہوگئے ہیں،وہ دہلی کے امیر کبیر سجادہ نشینوں میں سے ہیں اور ان کے برطانیہ و امریکہ کے دورے بھی ایک معمول ہیں۔ دریں اثنا ایک اہم سکیورٹی ادارے سے متعلق ذریعے نے استفسار پر کہا کہ درگاہ نظام الدین اولیاؒ کے بعض وابستگان کا ”را“ کے ساتھ تعلق خارج ازامکان نہیں ہے۔ واضح رہے اس سے پہلے یہ باتیں بھی سامنے آچکی ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ پنجاب کی سرائیکی پٹی میں بعض دہشت گرد عناصر اور بعض درگاہوں کے توسط سے پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکپتن میں دربار عالیہ کا عرس محرم الحرام میں ہوتا ہے لیکن یہ دونوں حضرات نہ صرف عام طور پر عرس میں آنے والے بھارتی وفد سے بھی پہلے پہنچے، بلکہ انہوں نے پاکپتن اور لاہور میں اپنی مصروفیات کی درباروں کی سرکاری انتظامیہ کو ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ان دونوں بھارتی شہریوں کو مبینہ مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے کسی ادارے نے اپنی گرفت میں لیا ہے تو لازم ہوگا کہ ان کی درباروں کے اندر ہونے والی ملاقاتوں کے علاوہ درباروں سے باہر ہونے والی ملاقاتوں اور رابطوں کی بھی ٹریل تیار کی جائے۔ ادھر لاہور میں اپنے مبینہ طور پر ایک دن کے قیام کیلئے کسی مذہبی شخصیت یا کسی مقامی معروف درگاہ کے سجادہ نشین کے ہاں ٹھہرنے کے بجائے دونوں بھارتی شہریوں کا میزبانی کیلئے پیپلزپارٹی کے مقامی رہنما عزیز الرحمان کی رہائش گاہ کا انتخاب بھی معنی خیز ہے۔ لیکن انہوں نے بھی ظاہری طور پر ان دونوں کو کم ہی وقت دینا پسند کیا اور ائیرپورٹ تک الوداع کرنے بھی نہیں ساتھ گئے۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ دونوں بھارتی شہری خود غائب ہوگئے ہیں یا کسی ادارے نے انہیں اٹھایا ہے۔ تاہم بھارتی ہائی کمشنر نے غیر معمولی حساسیت کے پیش نظر جمعرات کی شام ہی پاکستان کے دفتر خارجہ تک اپنی تشویش پہنچادی تھی۔ ذرائع نے لاہور ائیرپورٹ پر ایف آئی اے کے دفتر سے رابطہ کرکے ناظم نظامی کو ڈی بورڈ کئے جانے اور اب ان کی موجودگی کے بارے میں دریافت کیا تو متعلقہ دفتر کے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ اس حوالے سے شاہین ائیرلائنز کے ائیر ٹریفک اور آپریشن سے متعلق حکام نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔ ادھر آئی ایس آئی پنجاب کے سابق سربراہ انٹیلی جنس امور کے ماہر بریگیڈئیر (ر) غضنفر نے گفتگو میں کہا کہ ” اس طر ح کے لوگ ہینڈلر تو نہیں البتہ آلہ کار ہوسکتے ہیں، جو کسی ایجنسی کا پاکستان میں پیغام پہنچانے کیلئے آئے ہیں“۔ دوسری جانب لاہور میں مذکورہ بھارتی شہریوں کے اکلوتے میزبان اور پیپلزپارٹی کے رہنما عزیزالرحمان نے ذرائع کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ا ن کے مہانوں کی سفری دستاویزات میںکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ تاہم وہ انہیں خود ائیرپورٹ چھوڑنے نہیں گئے، بلکہ اپنے ڈرائیور کو بھیجا تھا، جو انہیں ائیرپورٹ پر چھوڑ کر واپس آگیا، جس کے بعد ناظم نظامی کو جہاز سے ” ڈی بورڈ“ کیا گیا اور وہیں سے ان کے لاپتہ ہونے کی خبر ملی۔ جبکہ دوسرے مہان کی گمشدگی کی خبر کراچی ائیرپورٹ سے آئی۔ عزیزالرحمان کی جانب بھارتی مہمانوں کے بارے میں مزید کچھ پوچھنے پر بڑی بیزاری سے یہ کہتے ہوئے فون بند کردیا کہ ” مجھے تنگ نہ کریں“۔ اہم بات یہ ہے کہ خطیب جامع مسجد داتادربار مفتی رمضان سیالوی نے بھی اس موضوع پر زیادہ بات کرنے سے گریز کیا۔ اس حوالے سے دفترخارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ” کل شام بھارتی ہائی کمشنر کے رابطہ کرنے پر ہی ہمیں اس مبینہ واقعے کے بارے میں علم ہوا ہے۔ دفترخارجہ نے فوری طور پر متعلقہ حکام کو یہ معاملہ دیکھنے کیلئے کہہ دیا ہے۔ دریں اثنا کراچی میں ان مبینہ سجادہ نشینوں کے میزبان وزیر نظامی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ بہت پریشان ہیں اور انہیں کچھ پتہ نہیں کہ انہیں کس نے اٹھایا ہے اور کہاں رکھاگیا ہے۔ادھر دہلی میں درگاہ نظام الدین اولیاؒ کے نمبروں پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ بند ملے، جس سے لگتا ہے اس معاملے کو بھارت کی حکومت اور اس کے اداروں نے خود ڈیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اگر ایسا ہے تو پاکستان کے حساس اداروں کو کراچی، لاہور اور پاکپتن میں ان دونوں کی مصروفیات کے حوالے سے تحقیقات کرنا ہونگی ، کہ اگر یہ دونوں سجادہ نشین تھے تو پردہ نشینی کا اہتمام کیوں کیا۔دہلی میں درگاہ حضرت نظامی الدین اولیا کے سجادہ نشین ناظم علی نظامی اور ان کے چچا آصف علی نظامی کی پراسرار گمشدگی کا ڈراپ سین ہفتے کی شام ہو گیا۔ ناظم علی نظامی کے ایم کیو ایم اور بالخصوص الطاف حسین کے ساتھ بڑے دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں۔ قومی اداروں نے بھی طویل عرصے سے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس اداروں کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ناظم علی نظامی ، بھارتی ایجنسی ”را“ کے لئے کام کرتے ہیں۔ جبکہ سجادہ نشین کے طور پر اپنی مذہبی حیثیت کے سبب لوگوں تک رسائی میں انہیں زیادہ دشواری پیش نہیں آتی۔ خاص طور پر پاکستان میں اپنی اس حیثیت کا وہ ایک طویل عرصے سے پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سال میں کئی مرتبہ ان کا پاکستان آنا جانا رہتا ہے۔ اس بار بھی وہ کراچی پہنچے تو ان کے پاسپورٹ پر پاکستان کے لئے ایک برس کا ملٹی پل ویزہ لگا ہواتھا۔ لندن میں ایم کیو ایم کے اعلی حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے مطابق یہاں ایم کیوں ایم الطاف کے بعض موجودہ اور بیشتر پارٹی چھوڑ جانے والے عہدیداروں کو ناظم علی نظامی کے ”را“ کے ساتھ ٹانکوں کا بخوبی علم ہے اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ 92ءاور95ء کے کراچی آپریشن کے دوران جب ایم کیو ایم کے دہشت گردوں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد فرار ہو کر بھارت پہنچی تھی تو ان کی میزبانی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ناظم علی نظامی نے بھی سنبھالی تھی۔ 60 سالہ ناظم علی اس وقت جوان تھے اور اگرچہ درگاہ کے سجادہ نشین نہیں تھے، لیکن چونکہ ان کے خاندان کے پاس پچھلی کئی دہائیوں سے درگاہ کی گدی نشینی ہے، لہٰذا مذہبی حیثیت سے ان کا اثرورسوخ اس وقت بھی تھا۔ ناظم علی نظامی کے ”مہمانوں“ میں ایم کیو ایم کے بدنام دہشت گرد اجمل پہاڑی، قمر ٹیڈی، جاوید لنگڑا، عمران بشیر، نعیم استاد، غلام نبی عامر، راشر اور نعیم آرائیں بھی شامل رہے۔ الطاف حسین کے ساتھ ناظم علی نظامی کے تعلقات مضبوط کرانے میں محمد انور نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ذرائع کے بقول آہستہ آہستہ ناظم علی نظامی اور الطاف حسین کے تعلقات اس قدر مضبوط ہو گئے کہ ایم کیو ایم لندن کے بعض سینئر رہنما اس پر حسد کا شکار ہوگئے۔ انہیں خاص طور پر اس اعتراض تھا کہ ناظم علی نظامی ان سے پارٹی کے اندرونی معاملات کی پوچھ گچھ بھی کرنے لگے تھے۔ لیکن”بھائی“ کے خوف سے وہ دل کی بات زبان پر نہیں لاتے تھے، البتہ ہم خیال لوگوں کی محفلوں میں یہ معاملہ اکثر ڈسکس ہوتا رہا۔ لندن میں موجود ایم کیو ایم کے ایک سابق عہدیدار کے مطابق اس سمیت بعض دیگر لوگوں کو ایک بھارتی شہری کی ایک پاکستانی پارٹی کے معاملات میں اس قدر دلچسپی پر حیرانی ہوا کرتی تھی، لیکن پھر آہستہ آہستہ ساری کہانی سمجھ میں آنے لگی۔الطاف حسین 2004ءمیں جب ہندوستان ٹائمز کی دعوت میں دو روزہ سیمینار سے خطاب کرنے دہلی پہنچے تو اس وقت بھی متحدہ سربراہ کے چند میزبانوں میں سے ایک ناظم علی نظامی بھی تھے۔ یہ وہی سیمینار تھا، جس میں الطاف حسین نے تقسیم برصغیر کو تاریخ کی ایک بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ لندن میں موجود ذرائع کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الطاف حسین اور ناظم علی نظامی کے تعلقات اس قدر گہرے ہو گئے کہ جب 2014ء کے اواخر میں ایم کیو ایم نے رکنیت سازی مہم چلانے کا فیصلہ کیا تو اوورسیز ممبر سازی کی ذمہ داری ناظم علی نظامی کے سپرد کی گئی تھی۔ اس کے لئے انہیں خصوصی طور پر نئی دہلی سے بلایا گیا تھا۔ لندن میں اپنے دس روزہ قیام کے دوران ناظم علی نظامی اس مہم میں مصروف رہے۔ اس دوران وہ ایم کیو ایم کی رکنیت سازی مہم کے سلسلے میں امریکہ اور اسٹریلیا بھی گئے۔ آسٹریلیا میں ناظم علی نظامی نے ایم کیو ایم کے عہدیدار عمران صدیقی کی رہائش گاہ پر قیام کیا تھا۔ جبکہ امریکہ میں ان کی میزبانی عبدالرحمان اور دیگر نے کی تھی۔ ذرائع کے بقول ان دونوں ایم کیو ایم کی نجی محفلوں میں دبی زبان میں یہ بات ہونے لگی تھی کہ شاید”بھائی“ نے ناظم علی نظامی کو پارٹی کے اوورسیز یونٹوں کاگروپ انچارج بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان ہی دنوں الطاف حسین اور ناظم علی نظامی نے مشترکہ طور پر ایک کوریئر سروس چلانے کا فیصلہ بھی کیاتھا۔ اور طے کیا تھا کہ اس مجوزہ کوریئر سروس کے دفاتر امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک میں کھولے جائیں گے تا کہ نہ صرف مالی معاملات کو قانونی چھٹی فراہم کی جا سکے، بلکہ پیغام رسانی کے سلسلے کو بھی محفوظ بنا لیا جائے ۔ تا ہم بوجوہ اس منصوبے پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔ لندن میں موجود ذرائع کے بقول یہاں ایم کیو ایم کے حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ ناظم علی نظامی اور الطاف حسین کے درمیان روابط مضبوط کرانے کے لئے ”را“ نے کردار ادا کیا جبکہ پاکستان کے قومی اداروں کی نظر میں بھی ناظم علی مشکوک ہیں۔ اس کے باوجود پچھلے طویل عرصے سے ناظم علی نظامی کا بلا روک ٹوک پاکستان آنا جانا لگا ہوا ہے جبکہ انہیں طویل المیعاد پاکستانی ویزہ تک لگا دیا جاتا ہے۔اس پر لندن میں بالخصوص الطاف حسین سے راستے الگ کرنے والے سابق عہدیداروں کو خاصی حیرانی ہوتی ہے۔ ادھر پندرہ مارچ کو ناظم علی نظامی اور آصف علی نظامی کی گمشدگی کے بعد ان کے قریبی عزیزوں نے سب سے پہلے اس واقعہ کی اطلاع لندن سیکریٹریٹ کے ذمہ داران کو دی تھی۔ سیکریٹریٹ کے اندرونی ذرائع کے مطابق یہ اطلاع ملنے پر ہنگامی طور پر ہونے والی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس واقعہ کو پاکستانی انٹیلی جنس ادارون کے خلاف بھر پور پروپیگنڈے کے طور ف پر استعمال کیا جائے۔ قبل ازیں جمعہ کے روز دہلی میں موجود ناظم علی نظامی کے چھوٹے بھائی مظہر علی نظامی کو الطاف حسین نے فون کیا اور واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ رونا بھی رویا کہ ان کی پارٹی کے خلاف تو خود کراچی میں آپریشن چل رہا ہے، لہٰذا وہ فی الحال عملی طور پر مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ تا ہم انٹرنیٹ پر اس واقعہ کے خلاف آڈیو پیغام ضرور جاری کریں گے۔ اس ٹیلی فونک گفتگو کے دوران الطاف حسین کی پوری کوشش تھی کہ کس طرح مظہری نظامی سے پاکستانی انٹیلی جنس ادارون کے خلاف جملے ادا کرا دیں۔ اس کوشش میں ناکامی کے بعد انہوں نے خود ہی گمشدہ افراد کا ذمہ دار براہ راست پاکستانی ادارون کو قرار دیتے ہوئے اسے بہت بڑا ظلم قرار دیا۔ تا ہم پھر بھی مظہر علی نے براہ راست اپنی زبان سے یہ بات کہنے سے گریز کیا۔ ذرائع کے مطابق ناظم علی نظامی اور ان کے چچا آصف علی نظامی کی حمایت اور پاکستان اداروں کے خلاف اپنا پہلا آدیو پیغام ریکارڈ کرانے اور نیٹ پر ڈالنے کے بعد الطاف حسین اگلا آڈیو پیغام اس سے بھی زیادہ نفرت انگیز ریکارڈ کرانے کی تیاری کر رہے تھے۔ کہ اس دوران دونوں گمشدہ افراد کے منظرعام پر آنے کی خبر آگئی۔ جس پر الطاف حسین کا موڈ آف ہو گیا۔ اس سارے معاملے سے اگاہ لندن سیکریٹریٹ کے ذرائع کے بقول الطاف حسین چاہتے تھے کہ گمشدگی کا یہ معاملہ طویل ہو جائے تا کہ اس کو جواز بنا کر وہ اپنی پروپیگنڈہ مہم بھی دراز کردیں۔ لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی ۔ تا ہم متحدہ سربراہ نے پلان بھی کے تحت نئی حکمت عملی یہ طے کی ہے کہ ناظم علی نظامی کی دہلی واپس کے بعد انہیں پیغام پہنچایا جائے گا کہ وہ اپنی دو تین روزہ گمشدگی کی رودادا اپنی زبانی بیان کریں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ”را“ کی نظر میں ناظم علی نظامی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ بھارتی حکومت بعض مواقع پر انہیں آمدورفت کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر فراہم کرتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں ناظم علی کی گمشدگی کی اطلاع ملتے ہی بھارتی وزارت خارجہ فوری طور پر متحرک ہو گئی۔ اس سلسلے میں نہ صرف نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمیشن سے رابطہ کیا گیا ، بلکہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس معاملے کو اعلیٰ پاکستانی حکام کے ساتھ اٹھایا۔ بھارت میں درگاہ نظام الدین اولیاکے سجادہ نشین سید آصف علی نظامی اور ان کے بھتیجے سید ناظم علی نظامی کراچی سے نئی دہلی پہنچ گئے ،انھوںنے پاکستان میں اپنی گرفتار ی کی خبروں کو مسترد کردیا۔گزشتہ روز بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں واقع درگاہ نظام الدین اولیاکے سجادہ نشین سید آصف علی نظامی اور ان کے بھتیجے سید ناظم علی نظامی کراچی سے نئی دہلی پہنچ گئے ہیں ۔ وہ گذشتہ رات کراچی میں اپنے رشتہ داروںکے گھر پہنچ گئے تھے جہاں سے وہ پی آئی اے کی پرواز سے واپس نئی دہلی آگئے ۔ نئی دہلی پہنچنے کے بعد سید آصف علی نظامی اور ان کے بھتیجے سید ناظم علی نظامی نے پاکستان میں اپنی گرفتاری کی خبروں کو مسترد کردیا اور کہاکہ وہ کراچی میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے تھے۔ نظام الدین اولیاکے سجادہ نشین سید آصف علی نظامی اور ان کے بھتیجے سید ناظم علی نظامی سے بھارتی وزیر خارجہ سشما رسوار ج نے ملاقات بھی کی اور انکی خیریت دریافت کی ۔واضح رہے کہ درگاہ نظام الدین اولیاکے سجادہ نشین80 سالہ آصف نظامی اور ان کے بھانجے66 سالہ ناظم نظامی اندرون سندھ اپنے مریدین سے ملنے گئے تھے دونوں افراد جس علاقے میں تھے وہاں موبائل کوریج نہ ہونے کے باعث اپنی خیریت سے رشتہ داروں کو نہیں بتاسکے جس سے ان کی گمشدگی کا تاثر پیدا ہوگیا تھا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv