تازہ تر ین

”دہشتگردی کی دھمکیوں کے باوجود لاہور میں کرکٹ میچ کا چیلنج قبول کیا شہباز شریف زندہ باد“ نامورتجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پی ایس ایل فائنل کی کامیابی سے انعقاد پر وزیراعلیٰ شہباز شریف مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک اہم ذمہ داری قبول کی اور بڑے اچھے طریقے سے اسے نبھایا۔ پی ایس ایل فائنل کی کوریج کی اجازت صرف پی ٹی وی کو دینا اور تمام نجی چینلز کو کوریج سے روکنے پر شدید تحفظات ہیں۔ چیئرمین پی ایس ایل نجم سیٹھی سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ نے یہ فیصلہ کیا تو کس قاعدے قانون کے تحت کیا۔ حکومت نے جب نجی چینلز کو لائسنس جاری کئے ہیں ان سے فیس وصول کی جاتی ہے تو پھر کس بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا کو سٹیڈیم میں جانے سے روکا گیا۔ کیا نجی چینلز کے رپورٹرز اور کیمرہ مین جو وزیراعلیٰ، وزیراعظم کے اجلاسوں کی کوریج کرتے ہیں ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیا وہ دہشتگرد ہیں۔ نجم سیٹھی یا کوئی اور متعلقہ سرکاری افسر اس سوال کا جواب دے ورنہ ہم یہ سوال اٹھاتے رہیں گے۔ نجم سیٹھی تو اختیارات کا ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے انہیں وراثت میں ملے ہیں جو دل میں آئے کر گزرتے ہیں۔ ان سے عرض ہے کہ ایسے نہیں ہوتا یہ کام قاعدے قانون کے تحت کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ فیصلہ صوبائی حکومت نے کیا تب بھی آپ کو اسے تبدیل کرانا چاہئے تھا۔ براڈکاسٹرز تنظیم کا سربراہ اگر میں ہوتا تو اس معاملے پر عدالت چلا جاتا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پیپلزپارٹی ملک کی اہم سیاسی جماعت ہے۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے اس کے اعتراضات میں بڑا وزن ہے حکومت کو ان کے تحفظات دور کرنا ہوں گے۔ فوجی عدالتوں کا معاملہ ابھی قومی اسمبلی اور پھر حتمی منظوری کیلئے سینٹ میں جانا ہے جہاں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے پچھلی بار بنائی گئی فوجی عدالتوں کی کارکردگی اور اس میں حائل رکاوٹوں پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم جس میں حساس اداروں، رینجرز، پولیس اور صوبائی حکومت کا نمائندہ ہوتا وہ دہشتگرد کیخلاف کیس تیار کرتے پھر یہ کیس اپیکس کمیٹی جس کا سربراہ وزیراعلیٰ ہوتا ہے کہ بھیج دیا جاتا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کیس آگے بھیجنا ہے یا نہیں بھیجنا، ہزاروں کیسز تو یہیں روک لئے جاتے تھے یہ بات رینجرز کراچی کے سربراہ نے خود مجھے بتائی تھی۔ ایپکس کمیٹی سے کیس وزاعرت داخلہ کو بھیجا جاتا، اکثر کیسز وہاں جا کر اٹک جاتے تھے اس کے بعد حتمی منظوری کیلئے وزیراعظم کو بھیجے جاتے، پی ایم ہاﺅں سے منظوری کے بعد کیس فوجی عدالت تک پہنچ پاتے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ اس طرح دہشتگردوں کے 1200 سے زائد کیسز راستے میں ہی رہ گئے اور فوجی عدالتوں تک پہنچ ہی نہ پائے۔ جن ملزمان کے کیسز فوجی عدالت میں پہنچے انہیں وکیل کرنے کا حق حاصل ہوتا تھا۔وو¿ وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فوجی عدالت سزا سناتی تھی۔ فوجی عدالتوں سے 161 دہشتگردوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس مرحلہ پر ملزمان کی ایک بار پھر سپریم کورٹ میں اپیل کا حق حاصل تھا۔ یوں اس ساری کاوش، رکاوٹوں کے بعد فوجی عدالتوں کی کارکردگی یہ رہی کہ صرف 12 دہشتگردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا سکا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ دہشتگردی پر بڑی ریسرچ کی ہے کئی سیشن ججز سے بات چیت کی۔ ہماری سول عدالتیں موجودہ حالات میں اس قابل نہیں ہیں کہ دہشتگردوں کو سزا سنا سکیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔ معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے بھی یہی بات کی تھی کہ امریکہ کی طرح یہاں بھی دہشتگردوں کا ان کیمرہ ٹرائل ہونا چاہئے، کیس سننے والے ججز اور وکلا کے چہرے سامنے نہیں آنے چاہئیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ اس ساری صورتحال میں آصف زرداری کہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں وہ منظور ہوں گی جو سیشن جج کے تحت کام کریں تو کیا ایسا سسٹم چل سکتا ہے۔ حکومت کو آصف زرداری کی تجاویز کو دیکھنا چاہئے اور اس پر باقی سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کر کے راستہ نکالنا چاہئے۔ ڈیورنڈ لائن کو کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ہم اسے ایک عالمی سرحد ہی سمجھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پچھلی بار فوجی عدالتوں کو دو سال کے لئے قیام میں لایا گیا لیکن اس کے جو مقاصد تھے حکومت نے ان کے حصول کے لئے کچھ نہ کیا، اب پھر حکومت کہہ رہی ہے کہ دو سال کا وقت دیا جائے۔ حکومت نے پہلے بھی دو سال ضائع کئے اب بھی اندازہ ہے کہ کچھ بھی نہیں کرے گی۔ اس صورتحال میں یہی بہتر ہے کہ فوجی عدالتیں ایک سال کے لئے بنائی جائیں اور اس دوران حکومت سول کورٹس کے نظام کو مضبوط بنائے۔ پیپلزپارٹی اس لئے فوجی عدالتوں کیخلاف ہے کہ ہمارے یہاں قانون کا غلط استعمال معمول رہا ہے اور زیادہ تر نشانہ پیپلز پارٹی ہی بنتی رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اپنے تحفظات بیان کرتی ہے اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ پی پی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حکومت کا ساتھ نہیں دے رہی جبکہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ دہشتگردی کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اس معاملہ میں سب سیاسی جماعتوں سے آگے ہی رہی ہے۔ ہم صرف فوجی عدالتوں کے غلط استعمال اور حکومتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پچھلی بار بھی فوجی عدالتوں کے قاام کے وقت پارلیمانی کمیٹی بنانے کی شرط تسلیم کی گئی لیکن نہیں بنائی گئیں تو آج کیسے مان لیں کہ اس بار وزیراعظم یہ کمیٹی بنا دیں گے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv