ہیوسٹن(ویب ڈیسک)اس مطالعے کے لیے جینیاتی انجینیئرنگ سے ایسا چوہا بنایا گیا جس میں انسانی خون کے خلیات تھے۔ ماہرین نے جائزہ لیا کہ مچھر کا تھوک اس چوہے کے امنیاتی نظام کو کسطرح متاثر کرتا ہے اور بعض بیماریاں بدن میں تیزی سے کیوں پھیلتی ہیں؟ہیوسٹن میں واقع بیلر کالج آف میڈیسن نے پہلے ٹرانس جینک چوہے کے پاو¿ں پر چند تبدیل شدہ مچھروں سے کٹوایا اور ایک ہفتے تک ان کا جائزہ لیا گیا۔ واضح رہے کہ اس تجربے میں چوہے میں انسانی خون کے تمام خلیات موجود تھے جن میں بیماریوں سے لڑنے والے ٹی سیلز بھی ہیں۔ماہرین نے نوٹ کیا کہ مچھر کاٹنے سے چھ گھنٹے بعد چوہوں میں سائٹوٹوکسن ٹی سیلز کی ذیادہ افزائش ہونے لگی جو متاثرہ خلیات پر حملہ ذیادہ کررہے تھے جبکہ ریگولیٹری ٹی سیلز پر ان کا حملہ اتنا شدید نہ تھا۔ ٹی سیلز امنیاتی نظام کو باقاعدہ بناتے ہیں اور یوں ہم بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ایک روز بعد خون میں ریگولیٹری ٹی سیلز بڑھے لیکن دوسرے ٹی سیلز کم ہوئے یعنی جسم سوزش کے خلاف نبرد آزما تھا۔ تاہم ایک ہفتے بعد عجیب انکشاف یہ ہوا کہ ماہرین کی ٹیم کو ڈبل پوزیٹو ٹی سیل دوبارہ دیکھنے کو ملے جو خون، جلد اورہڈیوں کے گودے تک میں موجود تھا۔ پھر ریگولیٹری ٹی سیلز بھی کم کم ہونا شروع ہوگئے۔مختصراً پورے ہفتے مچھے کاٹنے سے ہونے والے اثرات کم یا ذیادہ ہوتے رہے جو ثابت کرتے ہیں کہ مچھر کاٹنے سے جسم میں بہت عرصے تک تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ تاہم چوہوں پر کئے گئے تجربات کے بعد اس عمل کو انسانوں پر دوہرانا بہت ضروری ہے۔