لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ دو تین سال پہلے کہا تھا کہ صوبہ پنجاب کی آبادی 62 فیصد جبکہ باقی تین صوبوں کی آبادی 38 فیصد ہے جو ایک عیر مساویانہ تقسیم ہے یہ ذی شعور شخص بخوبی سمجھتا ہے کہ یہ غیر مساویانہ تقسیم ختم ہونی چاہئے۔ پرویز مشرف دور میں اس موضوع پر مشرف سے طویل بات چیت ہوئی وہ مجھ سے متفق بھی ہوئے۔ بنایا گیا تھا، میں نے مشرف سے کہا کہ ڈویژن کے بجائے پنجاب کے دو تیا تین حصے کر دیئے جائیں اس سے پنجاب کی آبادی، دیگر صوبوں سے بھی مساویانہ ہو جائے گی۔ جنوبی پنجاب والے تخت لاہور کا نام لے کر طنز کرتے ہیں جبکہ ہم لاہور والے بھی انہی کی طرح کے حالات میں ہیں۔ لاہور کے چند پوش علاقے تو لاہور نہیں ہیں مضافاتی علاقوں میں چلے جائیں تو صاف پانی ہے نہ صفائی ہے۔ ق لیگ اقتدار میں تھی تو چودھری شجاعت کہتے تھے کہ پنجاب کے حصے بخرے کرنے کی بات کرنے والے کو میری لاش سے گزرنا ہو گا حکومت ہاتھ سے گئی تو چودھری پرویز تقریر کرتے سنائی دیئے کہ سرائیکی وسیب کو خود مختار صوبہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹی صرف مفادات کے تحت الگ صوبے کا نعرے لگاتی ہے پھر بھول جاتی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اب میری رائے مختلف ہے۔ اب جنوبی پنجاب میں رہنے والے نان سرائیکی لوگ بھی الگ صوبے کے حامی ہیں۔ شہباز شریف نے پچھلے الیکشن سے پہلے بڑا اچھا فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ بہاولپور صوبہ بحال کر دیں گے۔ پنجاب اسمبلی سے قرارداد بھی منظور ہوئی تاہم جانے کسی عقل کل نے اس میں رکاوٹ ڈالی اور معاملہ رک گیا۔ اس وقت فیصلہ ہوا تھا کہ ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری ملتان اور بہاولپور میں لگایا جائے گا۔ اس منصوبہ پر تھوڑا بہت کام بھی ہوا تاہم پھر روک دیا گیا۔ ن لیگ میں جانے کون لوگ ہیں جو یہ بہتر عمل کے آگے دیوار کھڑی کر دیتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ایک یا دو صوبے بن کر رہیں گے۔ اب متحدہ صوبہ محاذ کے بعد جو صورتحال سامنے آ رہی ہے اس میں تو پیپلزپارٹی بھی جنوبی پنجاب سے فارغ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ چودھری نثار سے جن دو صحافیوں نے ملاقات کی ان کے نام بارے اندازہ ہے تاہم اسے غیر متعلق بات سمجھتا ہوں۔ نوازشریف کا ہرکارہ بن کر جانے کون سے اعزاز کی بات ہے۔ جنوبی پنجاب سے متحدہ صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم پر 55 ایم این اے سلیکٹ ہو کر آتے ہیں تو یہ بڑی طاقت ہوں گے پھر اس گروپ کے بنانے والے کی مرضی ہو گی کہ یہ لوگ کس پارٹی کو جوائن کریں گے۔ آج جو بنیاد رکھ دی گئی ہے اس کے دوررس نتائج ہوں گے۔ چودھری نثار پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں وہ دونوں طرف امید لگا کر بیٹھے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں نثار نے دو نشستوں سے الیکشن لڑا، ن کے ٹکٹ پر وہ جیت گئے اور آزاد حیثیت سے ناکام ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی جانب سے چودھری نثار کی پارٹی میں شمولیت کی دعوت سے ان کا وزن بڑھا ہے کہ اب ہمیں آ کر مناﺅ۔ چودھری نثار اپنی اہمیت کو بڑھانے کیلئے نام تو تحریک انصاف کا لیں گے تاہم ان کے مطالبات مان لئے گئے تو ن لیگ میں چلے جائیں گے تاہم لوگ ن لیگ کی جانب سے گھاس نہ ڈالی گئی تو غصہ میں کسی بھی پارٹی کو جوائن کر سکتے ہیں۔ چینل ۵ کے سی ای او اور ایڈیٹر خبریں امتنان شاہد نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے صوبہ محاذ کی پریس کانفرنس رکوانے کی کوشش کی گئی تاہم ناکامی ہوئی۔ ایڈیٹر خبریں نے انکشاف کیا کہ اطلاع کے مطابق متحدہ صوبہ محاذ میں شامل ہونے کیلئے تیار ارکان قومی اسمبلی کی تعداد 55 کے قریب ہے، ان کا تعلق ن لیگ، پی پی اور تحریک انصاف تینوں پارٹیوں سے ہے۔ یہ 55 ایم این ایز کسی وقت بھی صوبہ محاذ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ ارکان اسمبلی ہیں جو آزاد حیثیت میں اپنی نشست جیتتے ہیں اور پھر کسی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے بھیجا گیا دو رکنی وفد چودھری نثار سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملا۔ دو رکنی وفد ایک سینئر صحافی اور ایک قومی روزنامے کے ایڈیٹر پر مشتمل تھا جس نے نوازشریف کا ذاتی پیغام چودھری نثار تک پہنچایا اور شہباز شریف سے فون پر بات بھی کرائی۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے سامنے آنے کے بعد ن لیگ کی حتی الامکان کوشش ہے کہ کسی بھی طریقے سے چودھری نثار کو پارٹی چھوڑنے سے اور کسی اور پارٹی میں شمولیت سے روکا جائے یا کم از کم اس معاملہ کو تاخیر کا شکار کرایا جائے۔ دو رکنی وفد اسی مقصد کو پورا کرنے کیلئے کوشش کرتا رہا۔ ن لیگ کیلئے پنجاب سب سے اہم صوبہ ہے جسے وہ کسی صورت پانی سے نہیں جانے دینا چاہتی۔ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں غفار نے کہا کہ 1970ءمیں بہاولپور صوبہ محاذ بنا اور ان لوگوں نے اچھی خاصی نشستیں بھی حاصل کی تھیں۔ اب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنا ہے جس میں 2 ایم پی اے اور 6 ایم این اے شامل ہوئے ہیں۔ اسی طرح دوسری کھیپ میں بھی 6 ارکان اسمبلی آئیں گے۔ جہانیاں سے افتخار نذیر، خانپور سے شیخ فیاض الدین مظفر گڑھ سے سلطان ہنجرا، نجم سیال کے صاحبزادے، سکندر بوسن کے بھائی، اچ شریف سے سید علی گیلانی بھی اس محاذ میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس محاذ میں بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتان سے 30 ایم این ایز کے امیدوار شامل ہو جائیں گے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ پرانا حربہ ہے کہ الیکشن قریب آتے ہی نئے صوبے کی تجویز سامنے لے آتے ہیں اور الیکشن ختم ہوتے ہی اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ دراصل لاہور سیکرٹریٹ کوئی معمولی سا اختیار بھی کسی اور کو دینے کو تیار نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نے اچھا فیصلہ کیا ہے کہ تینوں ڈویںن بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتتان اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اس وقت تک 33 سے 31 ایم این اے اس محاذ کے ساتھ کھرے ہو چکے ہیں۔ ڈی جی خان سے لغاری برادران بھی اسی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں گے۔ بہاولپور صوبے کا معاملہ الگ تھا اب بات بڑے کینوس پر آ گئی ہے سارے جنوبی پنجاب کا ایک مطالبے پر اکٹھا ہونا خوش آئند ہے۔ سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں جو گریٹر پلان سامنے آیا ہے۔ اس پر عمل آج سے سال ڈیڑھ قبل شروع ہو گیا تھا۔ سندھ میں اگلی حکومت پیپلزپارٹی کی نہیں بنے گی۔ چودھری نثار دھیمی چال چلتے رہیں گے اور کسی پارٹی میں جانے کا فوری فیصلہ نہیں کریں گے۔