اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف نے پاناما فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی ایک اور درخواست دائر کردی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے پاناما فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی ایک اور درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت سے 28 جولائی کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے واپس لینے کی استدعا کردی ہے۔نوازشریف نے پہلی نظر ثانی درخواست میں پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ چیلنج کیا تھا جب کہ دوسری نظرثانی درخواست تین رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ہے۔نواز شریف نے اپنی درخواست میں کہا کہ ٹرائل کورٹ کو چھ ماہ میں پاناما کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم مقدمے پر اثرانداز ہوگا جب کہ قانون ٹرائل کورٹ کی کارروائی کی مانیٹرنگ کی بھی اجازت نہیں دیتا، لہذا عدالتی احکامات شفاف ٹرائل کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ عدالت نے جے آئی ٹی پر شریف فیملی کے اعتراضات قبل ازوقت قرار دیکر مسترد کردیے، پاناما کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں ایف زیڈ ای کیپیٹل کا کہیں کوئی تذکرہ ہی نہیں تھا، لیکن عدالت نے درخواست میں جو بات موجود ہی نہیں تھی اس کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل کردیا۔
سابق وزیراعظم نے موقف اختیار کیا کہ اثاثوں کی جو تعریف عدالتی فیصلے میں کی گئی وہ بلیک لاء ڈکشنری میں کہیں موجود نہیں، عدالت اپنے فیصلوں میں قرار دے چکی کہ نااہلی ٹھوس شواہد پر ہی ہو سکتی ہے، اِنکم ٹیکس قانون کے مطابق تنخواہ وہی ہے جو وصول کی گئی ہو، ایف زیڈ ای کی تنخواہ قابل وصول تسلیم کر لی جائے تو بھی نااہلی نہیں بنتی۔
نواز شریف نے درخواست میں کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے متعلقہ فورم موجود ہے، معاملہ متعلقہ فورم پر جاتا تو دفاع کا موقع بھی ملتا، تنخواہ نہ لینا اور اسکا دعوی بھی نہ کرنا اس کام کو بے ایمانی قرار نہیں دیا جا سکتا، وصول نہ کی گئی تنخواہ کو زیادہ سے زیادہ غلطی قرار دیا جا سکتا ہے بے ایمانی نہیں۔