کوٹا(ویب ڈیسک)ساو¿تھ ڈکوٹا اسٹیٹ یونیورسٹی میں گریجویٹ طالب علم پینگ ڈائی نے خراد کے ایک کارخانے سے کاربن اسٹیل کے ٹکڑے لیے اور انہیں ای کولائی سے آلودہ پانی میں رکھ کر وہ پانی فولادی چورے سے گزارا۔ اس تجربے میں انہوں نے مختلف سائز کے فولادی ٹکڑے استعمال کیے اور پانی میں ای کولائی کی مقدار، پی ایچ قدر اور دیگر اشیا نوٹ کرتے ہوئے 5 سے 20 منٹ تک لوہے کو آلودہ پانی میں رکھا۔انہوں نے نوٹ کیا کہ 0.5 سے 2 ملی میٹر چوڑے فولادی ذرات کو جب سب سے زیادہ وقت یعنی 20 منٹ تک پانی میں رکھا گیا تو اس سے پی ایچ کم ہوئی اور ہر سطح پر بیکٹیریا کی 99 فیصد مقدار ختم ہوگئی۔ جس پانی میں پی ایچ زیادہ تھی وہاں 90 فیصد بیکٹیریا ختم ہوگئے۔اس کی وجہ ہے کہ ای کولائی پر منفی چارج ہوتا ہے جبکہ لوہے کے ٹکڑوں پر مثبت چارج ہوتا ہے۔ اس طرح برق سکونی یا الیکٹرو اسٹیٹک اثر کے تحت یہ جراثیم فولادی چورے سے چپکتے ہیں اور اس کے بعد فولادی آئن ای کولائی کے خلیات کو تباہ کرڈالتے ہیں۔تجربہ گاہ میں کامیابی کے بعد اب اس تجربے کو حقیقی دنیا یا باقاعدہ سیوریج نظام پر آزمایا جائے گا۔ اگر یہ تجربہ درست ثابت ہوا تو اس سے ابی ذخائر کو مہلک بیکٹیریا سے صاف کرنے کا ایک عمدہ اور کم خرچ طریقہ ہمارے سامنے ہوگا۔واضح رہے کہ پانی سے بیکٹیریا ختم کرنے کا ایسا ہی ایک تحقیقی کام 1980 کے عشرے میں ”پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ“ (پی سی ایس آئی آر) میں ڈاکٹر مرزا ارشد علی بیگ اور ان کے ساتھیوں نے کیا تھا لیکن اس میں چاندی سے استفادہ کیا گیا تھا جبکہ اس کا مقصد بظاہر صاف نظر آنے والے پانی کو ہر قسم کے جرثوموں سے پاک کرنا تھا۔ اسی تحقیق کے نتیجے میں پانی صاف کرنے والی ایک پروڈکٹ ”مصفی“ کے نام سے ا?ج بھی بازار میں دستیاب ہے۔