لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف تجزیہ کار کہنہ مشق صحافی ضیاشاہد نے کہا ہے کہ نواز شریف کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنا کیس لڑیں جو بھی کہنا چاہیں کہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ بھی انہوں نے پچھلے دو دن میں کہا ہے ان کی باتوں کا بہت سختی سے نوٹس لیا گیا ہے عوام کی طرف سے بھی دانشوروں کی طرف سے بھی، مختلف چینلز پر بھی۔ ظاہر ہے میڈیا میں کچھ لوگوں کی ذاتی دلچسپیاں ہوتی ہیں میڈیا کا کچھ حصہ خریدا بھی جا چکا ہے چنانچہ اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ اخبارات ہوں یا چینلز ہوں وہ یکطرفہ ہوتے ہیں وہ جس کی حمایت کرتے ہیں کرتے ہی چلے جاتے ہیں وہ دوسرا رخ دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے لیکن جو انڈیپنڈنٹ چینلز ہیں یا اخبارات ہیں جو غیرجانبدار لکھتے والے ہیں نہ ان کے خلاف ہیں نہ ان کے حق میں وہ یقیناً یہ بات کر رہے ہیں کہ جناب نواز شریف جو پہلے دن سے میں کہہ رہا ہوں کہ جناب نواز شریف اور ان کی فیملی کے ارکان کے کے اکثر مسائل جو پیدا ہوتے ہیں خود ان کی تضاد بیانی کی وجہ سے۔ اب آپ دیکھیں کہ کل اور آج کے بیان میں نواز شریف صاحب نے کہا کہ یہ دبئی میں ان کے جو کارخانے تھے ان کو فروخت کر کے یہ بار بار دکھایا بھی جا رہا ہے اسمبلی میں ان کی تقریر تھی قومی اسمبلی کی تقریر کے بارے میں قانونی طور پر کہا جاتا ہے کہ آن دا فلور آف ہاﺅس آپ جو کہتے ہیں وہ سچ کہتے ہیں کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ ان تقاریر میں کھلم کھلا طور پر جناب نواز شریف صاحب نے یہ تسلیم کیا بلکہ دعویٰ کیا کہ ہمارے پاس ایک ایک کاغذ ایک ایک ثبوت موجود ہے ا ور ہماری جو سٹیل مل تھی اس کو فروخت کر کے یہ رقم حاصل کی گئی تھی اب دیکھیں کل اور آج جو نواز شریف کا سٹیٹمنٹ ہے اس میں دو، تین بنیادی شفٹ ہیں ایک شفٹ تو یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ میرا تو تعلق ہی کوئی نہیں اس وقت فرما رہے تھے کہ ہم نے وہ مل بیچ دی اور ہم اس کے پیسے سعودی عرب لے گئے اور وہاں سے ہم ان کے پیسے لندن لے گئے۔ لیکن اب وہ فرما رہے ہیں میرا اس سے کوئی تعلق نہیں میرا اس مل سے کوئی تعلق نہیں جس کی پوری روداد قومی اسمبلی کے فلور پر بتا چکے ہیں۔ کل ہی میں دیکھ رہا تھا پرسوں بھی دیکھ رہا تھا کم از کم 4,3 چینلز فوٹیج دکھا رہے تھے اس میں وہ کہہ رہے تھے ہم نے یہ کہا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں میرا اس کی فروخت سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرا وہ کہہ رہے ہیں کہ جو یہ الزام لگا رہے ہو میرے بیٹوں کا مسئلہ ہے جائیں ان سے پوچھیں۔ معاف کیجئے گا اگر یہ مانتا ہوں قانون یہ کہتا ہے کہ بیٹوں کی سزا باپ کو اور باپ کی سزا بیٹوں کو نہیں دی جا سکتی۔ لیکن جناب نواز شریف یہ گزارش ہے کہ اگر بیٹا نابالغ ہو۔ یہ دونوں بیٹے جب پراپرٹی لندن میں خریدی گئی لندن میں اس وقت 18 سال سے کم عمر تھے۔ چنانچہ اس وقت یا آپ نے پیسے دئیے ہوں گے یا آپ کی بیگم صاحبہ محترمہ نے دئیے ہونگے یا بچوں کے دادا نے دئیے ہونگے۔ یا آپ کے چچا نے دئیے ہوں گے یا دوسرے چچا نے دئیے ہوں گے۔ آپ کے بچے عدالت میں پیش نہیں ہوئے اگر اخلاقی طور پر خونی رشتے کے حوالے سے بھی آپ کا تعلق واسطہ ہے اور وہیں جا کر رہتے ہیں آپ ان سے کہیں کہ آپ پاکستان کی عدالتیں ہیں آ کر جواب دیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ مریم بی بی کے بیان سے شروع ہوتے ہیں۔ میں نے بہت دفعہ کہا ہے کہ عوام کی عدالت حق حکمرانی کے فیصلے کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ آئین اور قانون کا جو دائرہ کھینچا گیا ہے کہ اس کے اندر رہ کر اپنے اختیارات استعمال کریں گے۔ اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا کرپشن نہیں کرنی۔ اگر آپ اس سے Beyond جائیں گے تو جس قانون کے تحت یہ ادارے بنے ہیں وہی آپ پر قدغن لگاتا ہے کہ آپ کو سزا ہو گی۔ قانون توڑنے کے فیصلے قانون کی عدالتوں میں ہوتے ہیں۔ وہ عوام کی عدالت میں نہیں ہوتے۔ جبکہ ملزم کو پکڑا جاتا ہے انویسٹی گیشن ہوتی ہے کورٹ ٹرائل میں جاتا ہے تو وہاں جا کر ہی آتا ہے کہ انویسٹی گیشن والا میرے خلاف ہے یا اس کو میرے خلاف مخالف نے لگایا تھا۔ میاں صاحب اور ان کی بیٹی اگر جے آئی ٹی کو، عدالت کو، اگر سارے پراسیس پر حملہ نہ کریں تو پھر وہ گناہ قبول کر لیں۔ اقبال جرم کرلیں۔ ایسا تو وہ نہیں کریں گے لہٰذا ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ایسی باتیں کریں۔ میاں نواز شریف آج کل جو بیانیہ لیکر چل پڑے ہیں میاں نواز شریف کو تو پتہ ہے کہ انہوں نے کیا کیا گناہ کیا ہے۔ میرے بیٹوں سے پوچھ لیں۔ آپ کا بیٹا وہ انڈیپنڈنٹ ہیں وہ مکمل طور پر اپنا کاروبار سنبھالتے ہیں وہ مکمل بااختیار ہیں لیکن اگر کسی معاملے میں آپ پر حرف آ جائے میری اولاد وہ باہر ہے میں یہاں قابو آ گیا ہوں کیا اولاد میری وضاحت بھی نہیں کرے گی۔ ان کی ا ولاد ان کو یہ بھی نہیں بتاتی یہ پیسے ہمارے پاس کہاں سے آئے ہیں۔ وہ اولاد جو کروڑوں اربوں روپے کے بزنس سے ان کو حصہ دیتی ہے کبھی سعودی عرب کبھی لندن سے بھیجتے ہیں۔ عدالت کے اندر مانتے ہیں میرے پاس ثبوت ہیں پیش کروں گا قوم سے خطاب کرتے اسمبلی میں کہتے ہیں کہ یہ ہمارے کاروبار تھے میرے والد نے جا کر دبئی میں 64 ملین ڈالر کی فیکٹری بیچی، پھر سعودی عرب میں کارخانہ لگایا۔ جب آپ نے کہا میرے پاس سارے ثبوت ہیں تو منی ٹریل ہے آج کہتے ہیں منی ٹریل نہیں ہے۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ رہا نہیں اس لیے اس معاملے کو عدلیہ کو کہیں، سیاسی جماعتوں کو کہیں گے یہ میرے خلاف ملی ہوئی ہیں۔ احتساب کے اداروں کو عدالتوں کو پولیس، ریاستی اداروں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ انہوں نے بی بی شہید اور زرداری پر جعلی مقدمے احتساب بیورو سے بنوائے ملک قیوم سے سزائیں دلوائیں۔ جو بعد میں کالعدم ہو گئیں لیکن جب بھی عدالت ان کے خلاف ہوتی ہے ان سے پوچھ گچھ کرتی ہے تب یہ عدالت پر چڑھ دوڑتے ہیں بھلے وہ سپریم کورٹ ہو یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوں۔ اپنے ہاتھوں ذلیل کروا دیتے ہیں۔ یہ ان کا پرانا وطیرہ ہے۔ ابھی صرف گالی گلوچ ہے ابھی سپریم کورٹ پر نہیں چڑھ دوڑے۔ ایک تو انہوں نے عدالت کے اندر تحریری بیان دیا ہے دوسری بات یہ ہے کہ ایوان کے اندر کہی گئی ہر بات معتبر ہوتی ہے حلف کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کو عزت دی جاتی ہے اور اس پر وزیراعظم اس سے تو اور بھی توقع کی جاتی ہے۔ ذاتی طور پر کھڑے ہو کر وضاحت دیتا ہے کہ وہ تو مصدقہ ترین بیان ہوتا ہے اپنے اوپر لگنے والے الزام کا دفاع کر رہا ہوتا ہے تردید کر رہا ہوتا ہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ کیا نواز شریف کے متضاد بیان کو سپیکر کے پاس بطور کمپلینٹ لے جایا جا سکتا ہے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ بالکل لے جایا جا سکتا ہے اس کی سزا بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کر سکتا۔ میری ذاتی رائے میں عدالت میں غلط بیانی پر سزا ہو سکتی ہے اور پارلیمان میں غلط بیانی پر آپ کی ممبرشپ جا سکتی ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ 6 ماہ پہلے جب الیکشن ایکٹ 2017ءابھی منظور نہیں ہوا تھا خبریں اخبار کے ذریعے سب سے پہلے ہم نے قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ کاغذات نامزدگی انتہائی سادہ بنا دیا گیا ہے وہ تمام معلومات جو پہلے اس فارم میں موجود تھیں وہ حذف کر دی گئی ہیں۔ پرانا فارم صحیح معنوں میں ایک فارم تھا جس کی بناءپر نوازشریف اور خواجہ آصف نااہل ہوئے کیونکہ انہوں نے حقائق چھپائے تھے۔ اب نئے فارم میں وہ تمام میٹریل ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ فارم انتخابی اصلاحات کمیٹی میں پیش ہوا تو الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات ظاہر کئے تھے کہ اس میں تبدیلی کرنے کے اختیارات الیکشن کمیشن کے پاسس ہیں لیکن کمیٹی نے ان کی بات کو مسترد کر دیا۔ اب یہ ایکٹ بنا دیا گیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن پابند ہیں کہ اس کے مطابق کام کرے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے رول بنانے کے اختیارات ختم کر دیئے کہ ہم یہ فارم بنائیں گے، الیکشن کمیشن جو فارم بناتا ہے اس میں اتنی معلومات ہوتی ہیں کہ ہمارے قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ بدنیتی کے تحت نامزدگی فارم میں سے تمام معلومات نکالی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید کو کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے اس کے خلاف 2 ماہ پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ میں باقاعدہ رٹ دائر کر رکھی ہے جو زیر سماعت ہے۔ امکانات ہیں کہ 26 یا 27 مئی کو اس کی سماعت ہو رہی ہے اور عدالت نے نوٹس بھی جاری کئے ہیں۔ اگر اس کے باوجود بھی یہ بات تسلیم نہیں ہوتی تو پھر نگران حکومت ایک آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی واپس لے سکتی ہے اور پرانا فارم بحال کر سکتی ہے۔سابق ایم ڈی واسا افتخار خان نے کہا ہے کہ رائے ونڈ کے علاقے میں زمین کے نیچے صدیوں سے کڑوا پانی ہے، جاتی امراءجہاں بنا ہے آج سے 30 سال پہلے یہ تقسیم کرنے والی لائن تھی کہ اس کے دوسری طرف کڑوا پانی جبکہ لاہور کی طرف زیر زمین پانی بہتر تھا۔ جوں جوں لاہور میں پانی کا لیول نیچے ہوتا گیا تو باہر کے پانی کو اس کے ساتھ ملنے کے لئے آسانی ہو گئی۔ اس وقت زیر زمین پانی بالکل پینے کے قابل نہیں۔ اس میں زہر ہے۔ زیر زمین پینے کے پانی کو آہستہ آہستہ ختم کر دینا چاہئے۔ پاکستان میں 3، 4 سو بڑی بڑی جھیلیں بننی چاہئیں جہاں بارش و سیلابی پانی کو محفوظ کیا جا سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دریاﺅں کا پانی پینے کے لئے زیادہ ضروری ہے یا آبپاشی کے لئے اس پر حتمی فیصلہ کرنا چاہئے روٹی تو مل جاتی ہے، پینے کا صاف پانی ساری دنیا میں نہیں ملتا۔