لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف کے ساتھیوں نے جس طرح ان کو تاحیات قائد بنایا ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ پاکستانی قوم نے یہ اعزاز تو قائداعظم کو بھی نہیں بخشا تھا۔ جھلکیاں دیکھیں تھیں جس طرح لوگوں نے روتے ہوئے جذباتی انداز میں نوازشریف کو خراج تحسین پیش کیا۔ لوگوں کے دکھوں پر کبھی کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو روتے نہیں دیکھا۔ قائداعظم جب پاکستان بننے کے بعد گورنر جنرل بنے تھے تو انہوں نے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دی تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نااہل شخص کے نام سے ”صدر“ کا لفظ میڈیا کے ذریعے نکالا گیا۔ نوازشریف کو جو فیصلہ پسند نہیں آتا وہ ان کے لئے آمرانہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے اگر ایسا ہوا تو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز ہوں گی۔ چودھری نثار کے بارے میں سنا ہے کہ شاید راجہ ظفر الحق کے علاوہ کئی بزرگ لوگوں نے کہا تھا کہ ان کو نوازشریف کی زیر صدارت احتجاج میں بلایا جائے لیکن نہیں بلایا گیا۔ لگتا ہے کہ اب شریف برادران کے دلوں میں چودھری نثار کے حوالے سے کوئی سافٹ کارنر نہیں ان کا پتہ صاف ہو گیا ہے۔ پارٹی صدارت کا اعلان کرتے وقت نوازشریف بھی کافی بے چین نظر آ رہے تھے، ورکروں کی آنکھوں میں تو آنسو آ گئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احد چیمہ کی ایک پراپرٹی لسٹ دیکھی جو کوٹ مومن سے شروع ہو کر پتہ نہیں کہاں تک جاتی ہے۔ درست ہے یا غلط یہ معلوم کرنا نیب کا کام ہے وہ اس کی کھوج لگا کر وضاحت کرے لیکن اگر یہ 50 فیصد بھی درست ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ 18 ویں گریڈ کا افسر اتنی دولت کیسے اکٹھی کر سکتا ہے۔ نیب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ خواجہ سعد رفیق کی پیرا گون سٹی میں احد چیمہ نے کیسے زمین لی تھی۔ زمین احد چیمہ کے نام ہوئی جبکہ ادائیگی پیرا گون کے اکاﺅنٹ سے کی گئی۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے لے کر اب تک شاید ایسا واقعہ پیش نہ آیا ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فروخت کرنے والا خود ہی ادائیگی بھی کر رہا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو حیرت کی بات ہے۔ شہباز شریف کی اہمیت و قدر آج ایک قدم آگے بڑھ گئی ہے۔ اب وہ پارٹی کے قائم مقام صدر بھی ہیں۔ طے شدہ بات ہے کہ اگر نون لیگ آئندہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو وزیراعظم شہبازشریف ہوں گے۔ پہلے بھی درخواست کی تھی اب بھی مشورہ دیتا ہوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب خود اور حکومت کو احد چیمہ کے معاملے سے الگ رکھیں اگر وہ بے گناہ ہوئے تو رہا ہو جائیں گے۔ لیکن اگر حکومتی سطح پر غیر معمولی حد تک ان کی حمایت کی جائے گی تو پھر لوگ سمجھیں گے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ چند روز میں ساری چیزیں سامنے آ جائیں گی اگر جائیداد احد چیمہ کی ثابت نہ ہوئی تو ان کو خراج تحسین پیش کریں گے تحقیقات کو بڑے حوصلے سے برداشت کرنا چاہئے۔ چیف سیکرٹری کا ان کے گھر جانا و رانا ثناءکا ان کی شان میں پریس کانفرنس کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں اینٹی کرپشن کا ایک محکمہ ہے جو پٹواریوں، کلرکوں سمیت چھوٹے چھوٹے افسروں کو پکڑتا ہے۔ ایک زمانے میں میں خود اینٹی کرپشن کے دفتر گیا اور اس وقت کے ڈی جی غالباً غضنفر ہاشمی تھے ان سے پوچھا کہ بڑے افسروں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا تو مجھے بتتایا گیا کہ 17 ویں گریڈ سے اوپر کسی کے بھی خلاف چیف سیکرٹری کی اجازت کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ یعنی وہ بڑے افسروں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رائل پام کا مسئلہ کافی الجھا ہوا ہے، پہلے بھی سعد رفیق نے ریلوے کی طرف سے قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عدالت نے یہ عمل روک دیا۔ سابق وزیر ریلوے قاضی جاوید پر اخبارات میں الزامات آئے ہیں، بہتر ہے کہ وہ خود اس کی وضاحت کریں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ وزیر بننے سے پہلے جب ریلوے کے چیئرمین بنے تو انہوں نے درخواست لکھی کہ 3 سال کی تنخواہیں اکٹھی دے دی جائیں جو ان کو مل گئیں۔ چند ماہ بعد وہ وزیر ریلوے بن گئے پھر آڈٹ والوں نے کہا کہ بطور چیئرمین ریلوے جو تنخواہیں لی تھیں وہ جمع کروا دیں جو انہوں نے نہیں کروائیں۔ ان کے بارے مزید کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جتنی غلطیاں کی تھیں ان میں سے ایک ریلوے کی بڑی جائیداد شیخ ایوب مرحوم کے سپرد کرنے کا فیصلہ بھی تھا۔ میں کوئی بات ان کے خلاف یا حق میں بغیر ثبوت کے نہیں کرنا چاہتا اب جب نیب نے یہ پٹاری کھولی ہے تو براہ کرم تحقیق کرائی جائے کہ ریلوے وزیر نے غیر معمولی حد تک جا کر شیخ ایوب مرحوم کے صاحبزادے شیخ رمضان کو ریلوے کی زمین کا بڑا حصہ لیز پر کیوں دیا تھا۔ وقت آ گیا ہے کہ ساری چیزوں کی چھان بین کی جائے اور ذمہ داروں کو پکڑا جائے۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا ہے کہ مجھ پر کوئی الزامات نہیں ہیں۔ دل کے سٹنٹ کا کوئی کیس ہے سال ڈیڑھ سال سے چل رہا تھا، اس کے بارے مجھے معلوم بھی نہیں۔ رواں ماہ کسی نے ذکر کیا کہ میں نے ایک زمانے میں نیسکام میں سٹنٹ بنانے کی مشین منگوائی تھی۔ جب مجھے بلایا گیا تو اس پر بھی حیرت ہوئی۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ نے حکومت سے پیسے لئے تھے اس کا کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ مجھے ریٹائرڈ ہوئے 10 سال ہو گئے، موجودہ چیئرمین نیسکام سے پوچھیں۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ان پیسوں سے سٹنٹ بنانے والی مشینیں خریدی گئی تھی، سٹنٹ بننے شروع ہو گئے تھے اور پھر انہیں تصدیق کے لئے یورپ بھیجا گیا تھا اسی دوران میں ریٹائرڈ ہو گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیسکام کو وزارت ٹیکنالوجی نے پیسے دیئے۔ نیسکام نے سٹنٹ بنانے والی مشین خریدی اور پھر آڈٹ رپورٹ میں آ چکا ہے کہ خرید و فروخت بالکل ٹھیک ہوئی تھی یہ میرے دور میں ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جتنے بھی پروجیکٹس میں حکومت سے پیسے لئے ان کی رپورٹ دیں میں نے وہ رپورٹ بھی دے دی ہے۔ نون لیگ کے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ قرارداد میں نے ہی پیش کی تھی اس میں الفاظ ہیں کہ نواز شریف قائد تھے، ہیں اور رہیں گے، شہباز شریف نے ایک ترمیم کرائی کہ ہمیشہ کے لئے قائد رہیں گے اس میں کوئی غلط بات نہیں یہ سرکاری عہدہ نہ ہی آئین میں لکھی کوئی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائد کے ساتھ جب طویل تعلق ہو، کئی کامیاب جنگیں لڑی ہوں تو کمانڈر و سپاہیوں کے درمیان خون کے رشتے سے زیادہ مضبوط رشتہ پیدا ہو جاتا ہے، ایسے میں ورکرز جذباتی ہو جاتے ہیں۔ قائد کے ساتھ ورکر کا تعلق ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات درست ہے کہ جب قائداعظم گورنر جنرل بنے تھے تو انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دی تھی۔ماہر قانون بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ نون لیگ نے ٹیکنیکل گیم کھیلی ہے، قانونی طور پر ”تاحیات قائد“ کا لقب دینے میں کوئی حرج نہیں۔ کوئی سیاسی جماعت اگر کسی کو اپنا قائد چنتی ہے تو قانون کے مطابق اس کے خلاف کچھ نہیں کہا جا سکتا۔