اسلام آباد (اے این این، آئی این پی) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے دھرناکیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ریاست نے دھرنا والوں کے آگے سرنڈر کیا، معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں، مساجد و مدارس سے کفر کے فتوے بند کروائے جائیں، عدالت کی معاہدے کو پرکھنے کےلئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیر بحث لانے کی تجویز،اٹارنی جنرل کی مخالفت، معاہدے میں فوج کی ثالثی پر قانونی معاونت کےلئے مہلت مانگ لی ، اسلام آباد انتظامیہ اور آئی بی نے دھرنے سے متعلق رپورٹس عدالت میں جمع کرادیں،بیرسٹر ظفراللہ کی حلف نامے میں ترمیم کی انکوائری سے معذرت ۔پیرکو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی اور دھرنا ختم کرانے کے حوالے سے متفرق درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)کی جانب سے پولیس آپریشن کی ناکامی پر سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جبکہ چیف کمشنر اسلام آباد نے بھی دھرنے سے متعلق اپنی رپورٹ عدالت کے سامنے میں پیش کی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں پارلیمنٹ کو عملی طور پر مضبوط بنانا چاہتا ہوں‘ دھرنے والوں کے ساتھ معاہدے کی قانونی حیثیت بتائی جائے‘ معاہدہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیج دیں‘ دھرنے والوں کے ساتھ کیا گیا معاہدہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے‘ دھرنے کے دوران سرکاری املاک کو جو نقصان پہنچا اس کا کیا ہوگا؟،کیاوفاق اور صوبائی حکومت اس نقصان کا ازالہ کرے گی،معاہدے میں آرمی چیف کا نام آنے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ معاہدے میں آرمی چیف کا نام ڈالنے والے ذمہ داران کا تعین ہونا چاہئے اس معاہدے پر حکومت کے دستخط ہیں اور فوج ثالث بنی ہے۔ معاہدے پر میجر جنرل صاحب نے دستخط کئے ہیں ،مساجد و مدارس سے کفر کے فتوے بند کروائے جائیں،دھرنے کی قیادت کس کس طرح نبی کریم کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوئی؟ دھرنے کی قیادت نے سیدھا توہین رسالت کی ،خادم رضوی کےسے کسی کا خون معاف معاف کرسکتے ہیں ، مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ خادم رضوی نے 21کروڑ روپے لئے ، خادم رضوی خون کیسے معاف کر سکتے ہیں ۔ پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی اور دھرنا ختم کرانے کے حوالے سے متفرق درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کیا دھرنے والوں سے حکومت کے معاہدے کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے جواب دیا کہ اس بات کا فوری جواب نہیں دے سکتا اور عدالت وقت دے تو جواب داخل کرادیں گے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے اس دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ پولیس اہلکاروں کو دھرنے میں مارا گیا ،اسلام آباد پولیس کو چار ماہ کی اضافی تنخواہ دینی چاہئے۔ پولیس والوں کے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ہر پولیس اہلکار کو سہولتیں دینے تک مقدمہ ختم نہیں ہوگا۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ریاست کا فرض ہے ہر شخص کی نگہداشت ہو۔ جسٹس شوکت عزیز نے سوال کیا کہ جو سرکاری املاک کو نقصان پہنچا اس کا کیا ہوگا۔ کیا نقصان کا ازالہ وفاق اور صوبائی حکومت کرے گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے دھرنا کیس میں دو تجاویز پیش کردیں پہلی یہ کہ دھرنے کا معاملہ حکومتی سطح پر زیر غور لایا جائے یا پھر معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لایا جائے۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ کیس سپریم کورٹ میں ہے مزید کارروائی نہ کی جائے۔ عدالت نے کہا کہ کارروائی روکنے سے متعلق سپریم کورٹ کی کوئی ہدایت نہیں ہے عدالت عظمیٰ کے احترام میں مزید کوئی قابل ذکر حکم جاری نہیں ہوگا۔