تازہ تر ین

کور کمانڈرز کانفرنس میں ریڈ لائن ڈرا کر لی گئی:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی انہی کے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے معاملات اگر اہم اداروں کی بجائے عوامی جلسے، جلوسوں اوار مجموعوں میں ہونے لگے۔ تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہو گی۔ عدالت اگر نااہلی کا فیصلہ واپس لے لے اور وہ وزیراعظم بن جائیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن ایسی روش کو عدالتی فیصلوں کو نہیں ماننے کا درست نہیں۔ میاں صاحب کو یاد ہو گا۔ ہم نے اپنے مضامین اور اداریوں میں یکطرفہ اور کھلی کچہری میں فیصلے کرنے کی شدید مخالفت کی ہے یا کوئی ایم پی اے اور ایم این اے کے بیان پر فیصلہ دے دینا عقلمندی نہیں۔ دونوں طرف سے موقف سنا جانا چاہئے فائل دیکھے بغیر فیصلے کئے جانے لگے تو دنیا کے کام ٹھپ ہو جائیں گے میاں صاحب کو عدالت پر اعتراض ہے درست ہے۔ نظر ثانی پر اعتراض ہے درست ہے ان کا حق ہے لیکن جناب نوازشریف صاحب انہیں عدالتوں سے نااہلی کی واپسی کا فیصلہ بھی لینا پڑے گا۔ مجمع اکٹھا کرنے سے فیصلے نہیں ہوتے۔ کسی معاشرے کا سسٹم بھی ثالث عدالت اور ادارے کے بغیر چلنا ممکن نہیں۔ ایسا ادارہ جہاں انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں۔ میاں صاحب کے وکیل صاحبان کے دلائل عدالت میں سنے نہیں جا رہے؟ عدالت ان کی بات بھی سن رہی ہے؟ آپ عدالتوں پر دباﺅ برقرار رکھیں لیکن جمہوریت اسے قبول نہیں کرتی۔ ہر ملک میں تین ادارے، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ موجود ہوتی ہے۔ ان تینوں اداروں کو جمہوریت کے ستون کہا جاتا ہے لیکن حتمی فیصلہ ایک ”کمپیٹنٹ کورٹ“ سے ہی ہونا ہے۔ سڑکوں اور جلسوں میں فیصلے نہیں ہوتے۔ اس سے ملک نہیں چلتے۔ عدالتیں، سیشن کورٹ، ہائیکورٹ اگر کچھ نہیں ہے اور فیصلے تھانوں کے باہر کھلی کچہریوں یا تھڑوں پر ہونے ہی کو عدالتوں کو بند کر دیں۔ نوازشریف کے خلاف پانچویں ریفرنس عدالتوں میں ثابت ہونے ہیں۔ وہ غلط ہیں یا درست، عدالت نے فیصلہ کرنا ہے۔ ملک کے لوگ اندھی لیڈر شپ کے قائل ہیں۔ یہ سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار تو کر لو۔ حلقوں میں ووٹ لینے سے فیصلے تبدیل نہیں ہوا کرتے حلف نامے میں غلطی کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ کوئی مائی کا لعل اس میں تبدیلی کر ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے واپسی کا اعلان کر کے اچھا کیا ورنہ اتنی عوام نکلنی تھی کہ ان سے برداشت نہیں ہونا تھا۔ دیکھنا ہو گا یہ شرارت کس نے کی۔ شہباز شریف نے درست کہا تھا کہ ”میاں صاحب آپ کی لیگل ٹیم ٹھیک نہیں ہے“ ہم بھی بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں۔ ان کے مشیروں نے انہیں مروایا۔ کور کمانڈر کانفرنس پر میں نے بہت لوگوں سے رائے لی۔ ریٹائرڈ فوجیوں سے بات کی ہم نہ تو فوج کے حامی ہیں اور نہ ہی سیاستدانوں کے مخالف ہیں۔ نہ ہی جمہوری نظام کے مخالف ہیں۔ میری خواہش جمہوری نظام کے چلتے رہنے پر ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس پر میری پیشنگوئی 90 فیصد درست ثابت ہوئی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ملکی سرحدوں کی صورتحال، لائن آف کنٹرول، افغانستان کے ساتھ معاہدہ۔ ان تمام چیزوں پر اس کانفرنس میں بات ہوئی۔مجھے اپنے وطن سے پیار ہے۔ اس سے بڑی بکواس نہیں کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک پیج پر آ جائیں۔ میری خواہش ہے کہ سول حکومت، فوج، رینجرز اور دفاعی شعبے اور تمام ادارے مل جل کر چلیں۔ کیونکہ اس وقت ملک کو سب سے بڑا خطرہ، امریکی جنرل ڈن فورس نے اوپن یہ کہا ہے کہ پاکستان کی سیکرٹ ایجنسی سو فیصد دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کے کیمپ ان کی سربراہی میں کام کر رہے ہیں۔ یہ ان ڈائریکٹ فوج کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ وہی بات ہے جب ایک مرتبہ مشاہد حسین کی وزارت کی دور میں، امریکہ میں اخبارات میں پیڈ اشتہارات چھپوائے گئے تھے۔ اور پیسے کہاں سے دیئے گئے سب کو معلوم ہے۔ امریکی جرنیل، اس ملک کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جہاں کے 70 ہزار افراد نے جانوں کے نذرانے دیئے ہیں جہاں فوج نے اپنے 7 ہزار افراد شہید کروائے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد سے ان کے جرنیل ہماری فوج، آئی ایس آئی اور دفاعی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا اصل ٹارگٹ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں تک رسائی ہے۔ اور انہیں بے اثر کرنا ہے۔ کل کور کمانڈر کانفرنس میں امریکن جرنل کے بیان پر گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے الزامات پر گفتگو ہوئی ہے۔ پاکستان کے اثاثوں کی خفیہ نگرانی کو امریکہ نہیں بہت بڑھا دیا ہے بقول ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے۔ سول حکومت کو بھی نشانہ بنایا جائے۔ احسن اقبال صاحب کل خود ایک کردار بنے ہوئے تھے۔ اگر میجر صاحب اس موقع پر وہاں پہنچ جاتے تو گڑ بڑ ہو جاتی۔ کچھ لوگوں نے تو پروگرام بنایا ہوا تھا کہ ان کے کپڑے پھاڑ دیں گے۔ فوجی کی وردی پھاڑنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فوج کا دستہ اسے چھڑانے آئے۔ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ ہم ان سے ڈومور کروائیں گے۔ حافظ سعید اور ان کی پارٹی کو خلاف آئین قرار دلوا کر الیکشن کمیشن میں ان کی پارٹی کو درج نہ کر کے امریکی ایجنڈے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ دھرنے کے وقت آرمی کو خط لکھ کر بلوایا گیا تھا کہ پارلیمنٹ پی ٹی وی، اور سفارتخانوں کے حفاظت کریں۔ فوج اس وقت سے وہاں موجود ہے یہ دستے اسلام آباد میں موجود ہیں۔ یہ بحث فضول ہے کہ انہیں کس نے بلوایا؟ میری اطلاعات کے مطابق پاکستانی کچھ دوستوں نے، بھارتی اور امریکی لابیوں کو ہائر کیا۔ تا کہ وہ پاکستان کی فوج کے خلاف لابی کریں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ پاکستان آرمی اگر مارشل لگانا چاہتی ہے یا سول حکومت کو چلنے سے روکنا چاہتی ہے تو دونوں صورتوں میں یہ عمل پاکستان کے خلاف ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں 7 گھنٹے تک کیا اس لابی کے بارے بات نہیں ہوئی ہو گی؟ میری اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں سب سے زیادہ یہی موضوع رہا ہو گا۔میری دونوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے۔ نہ سول انتظامیہ آرمی کے معاملات میں دخل دے۔ نہ آرمی سول انتظامیہ کے معاملات میں دخل دے۔ سیاست دان آج غلط ہیں تو کل اچھے بھی آ سکتے ہیں۔ سول حکومت خدارا، امریکہ کی گیم میں ”آلہ کار“ نہ بنیں شاہد خاقان عباسی صاحب برائے مہربانی وزارت خارجہ، داخلہ اور دیگر اہم لوگوں کو بٹھا کر آرمی کے ساتھ معاملات حل کریں۔ اس کا جزو نہ بنیں۔ آرمی کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ سرخ لائن کا خیال رکھتی ہے کہ کہاں سے شروع ہوئی ہے۔ کہاں تک برداشت کرنا ہے کہاں سے ری ایکشن شروع کرنا ہے۔ یہ امریکہ اور بھارت کی سنگین پالیسی ہے کہ پاکستان آرمی کو ”راگ آرمی“ قرار دلوایا جائے شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال صاحب ملک کر بیٹھ جائیں اور خدارا ملک کو تباہی کے دہانے پر نہ لے جائیں۔ شہبازشریف اور چودھری نثار کو خراج تحسین ہے جنہوں نے ہمیشہ فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی مخالفت کی ہے۔عالم دین اور تجزیہ کار مولانا طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ میں ضیا شاہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ خود ختم نبوت کے بڑے داعی اور حامی ہیں۔ ہمارے ساتھ انہوں نے بھی ماریں، ڈنڈے اور قید کی صوبتیں اٹھائی ہیں۔ حکومت نے حلف نامے سے لفظ حلف کو ختم کر دیا اور دسرا صدقِ دل کا لفظ ختم کر دیا اقرار نامہ اور حلف نامہ میں فرق ہے۔ 7C-7B کو ختم کر دیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ یہ غلطی نہیں ہے۔ اسپیکر صاحب نے کہا یہ غلطی ہے۔ اسی قسم کی علطی 1980ءمیں ضیاءالحق نے بھی کی تھی۔ ان کے سامنے ہمارے جید علماءکرام ڈٹ گئے اور بالآخر انہیں یہ ترمیم ختم کرنی پڑی۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ وزیراعظم
باقی صفحہ6بقیہ نمبر1

اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی انہی کے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے معاملات اگر اہم اداروں کی بجائے عوامی جلسے، جلوسوں اوار مجموعوں میں ہونے لگے۔ تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہو گی۔ عدالت اگر نااہلی کا فیصلہ واپس لے لے اور وہ وزیراعظم بن جائیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن ایسی روش کو عدالتی فیصلوں کو نہیں ماننے کا درست نہیں۔ میاں صاحب کو یاد ہو گا۔ ہم نے اپنے مضامین اور اداریوں میں یکطرفہ اور کھلی کچہری میں فیصلے کرنے کی شدید مخالفت کی ہے یا کوئی ایم پی اے اور ایم این اے کے بیان پر فیصلہ دے دینا عقلمندی نہیں۔ دونوں طرف سے موقف سنا جانا چاہئے فائل دیکھے بغیر فیصلے کئے جانے لگے تو دنیا کے کام ٹھپ ہو جائیں گے میاں صاحب کو عدالت پر اعتراض ہے درست ہے۔ نظر ثانی پر اعتراض ہے درست ہے ان کا حق ہے لیکن جناب نوازشریف صاحب انہیں عدالتوں سے نااہلی کی واپسی کا فیصلہ بھی لینا پڑے گا۔ مجمع اکٹھا کرنے سے فیصلے نہیں ہوتے۔ کسی معاشرے کا سسٹم بھی ثالث عدالت اور ادارے کے بغیر چلنا ممکن نہیں۔ ایسا ادارہ جہاں انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں۔ میاں صاحب کے وکیل صاحبان کے دلائل عدالت میں سنے نہیں جا رہے؟ عدالت ان کی بات بھی سن رہی ہے؟ آپ عدالتوں پر دباﺅ برقرار رکھیں لیکن جمہوریت اسے قبول نہیں کرتی۔ ہر ملک میں تین ادارے، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ موجود ہوتی ہے۔ ان تینوں اداروں کو جمہوریت کے ستون کہا جاتا ہے لیکن حتمی فیصلہ ایک ”کمپیٹنٹ کورٹ“ سے ہی ہونا ہے۔ سڑکوں اور جلسوں میں فیصلے نہیں ہوتے۔ اس سے ملک نہیں چلتے۔ عدالتیں، سیشن کورٹ، ہائیکورٹ اگر کچھ نہیں ہے اور فیصلے تھانوں کے باہر کھلی کچہریوں یا تھڑوں پر ہونے ہی کو عدالتوں کو بند کر دیں۔ نوازشریف کے خلاف پانچویں ریفرنس عدالتوں میں ثابت ہونے ہیں۔ وہ غلط ہیں یا درست، عدالت نے فیصلہ کرنا ہے۔ ملک کے لوگ اندھی لیڈر شپ کے قائل ہیں۔ یہ سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار تو کر لو۔ حلقوں میں ووٹ لینے سے فیصلے تبدیل نہیں ہوا کرتے حلف نامے میں غلطی کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ کوئی مائی کا لعل اس میں تبدیلی کر ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے واپسی کا اعلان کر کے اچھا کیا ورنہ اتنی عوام نکلنی تھی کہ ان سے برداشت نہیں ہونا تھا۔ دیکھنا ہو گا یہ شرارت کس نے کی۔ شہباز شریف نے درست کہا تھا کہ ”میاں صاحب آپ کی لیگل ٹیم ٹھیک نہیں ہے“ ہم بھی بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں۔ ان کے مشیروں نے انہیں مروایا۔ کور کمانڈر کانفرنس پر میں نے بہت لوگوں سے رائے لی۔ ریٹائرڈ فوجیوں سے بات کی ہم نہ تو فوج کے حامی ہیں اور نہ ہی سیاستدانوں کے مخالف ہیں۔ نہ ہی جمہوری نظام کے مخالف ہیں۔ میری خواہش جمہوری نظام کے چلتے رہنے پر ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس پر میری پیشنگوئی 90 فیصد درست ثابت ہوئی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ملکی سرحدوں کی صورتحال، لائن آف کنٹرول، افغانستان کے ساتھ معاہدہ۔ ان تمام چیزوں پر اس کانفرنس میں بات ہوئی۔مجھے اپنے وطن سے پیار ہے۔ اس سے بڑی بکواس نہیں کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک پیج پر آ جائیں۔ میری خواہش ہے کہ سول حکومت، فوج، رینجرز اور دفاعی شعبے اور تمام ادارے مل جل کر چلیں۔ کیونکہ اس وقت ملک کو سب سے بڑا خطرہ، امریکی جنرل ڈن فورس نے اوپن یہ کہا ہے کہ پاکستان کی سیکرٹ ایجنسی سو فیصد دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کے کیمپ ان کی سربراہی میں کام کر رہے ہیں۔ یہ ان ڈائریکٹ فوج کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ وہی بات ہے جب ایک مرتبہ مشاہد حسین کی وزارت کی دور میں، امریکہ میں اخبارات میں پیڈ اشتہارات چھپوائے گئے تھے۔ اور پیسے کہاں سے دیئے گئے سب کو معلوم ہے۔ امریکی جرنیل، اس ملک کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جہاں کے 70 ہزار افراد نے جانوں کے نذرانے دیئے ہیں جہاں فوج نے اپنے 7 ہزار افراد شہید کروائے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد سے ان کے جرنیل ہماری فوج، آئی ایس آئی اور دفاعی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا اصل ٹارگٹ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں تک رسائی ہے۔ اور انہیں بے اثر کرنا ہے۔ کل کور کمانڈر کانفرنس میں امریکن جرنل کے بیان پر گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے الزامات پر گفتگو ہوئی ہے۔ پاکستان کے اثاثوں کی خفیہ نگرانی کو امریکہ نہیں بہت بڑھا دیا ہے بقول ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے۔ سول حکومت کو بھی نشانہ بنایا جائے۔ احسن اقبال صاحب کل خود ایک کردار بنے ہوئے تھے۔ اگر میجر صاحب اس موقع پر وہاں پہنچ جاتے تو گڑ بڑ ہو جاتی۔ کچھ لوگوں نے تو پروگرام بنایا ہوا تھا کہ ان کے کپڑے پھاڑ دیں گے۔ فوجی کی وردی پھاڑنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فوج کا دستہ اسے چھڑانے آئے۔ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ ہم ان سے ڈومور کروائیں گے۔ حافظ سعید اور ان کی پارٹی کو خلاف آئین قرار دلوا کر الیکشن کمیشن میں ان کی پارٹی کو درج نہ کر کے امریکی ایجنڈے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ دھرنے کے وقت آرمی کو خط لکھ کر بلوایا گیا تھا کہ پارلیمنٹ پی ٹی وی، اور سفارتخانوں کے حفاظت کریں۔ فوج اس وقت سے وہاں موجود ہے یہ دستے اسلام آباد میں موجود ہیں۔ یہ بحث فضول ہے کہ انہیں کس نے بلوایا؟ میری اطلاعات کے مطابق پاکستانی کچھ دوستوں نے، بھارتی اور امریکی لابیوں کو ہائر کیا۔ تا کہ وہ پاکستان کی فوج کے خلاف لابی کریں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ پاکستان آرمی اگر مارشل لگانا چاہتی ہے یا سول حکومت کو چلنے سے روکنا چاہتی ہے تو دونوں صورتوں میں یہ عمل پاکستان کے خلاف ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں 7 گھنٹے تک کیا اس لابی کے بارے بات نہیں ہوئی ہو گی؟ میری اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں سب سے زیادہ یہی موضوع رہا ہو گا۔میری دونوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے۔ نہ سول انتظامیہ آرمی کے معاملات میں دخل دے۔ نہ آرمی سول انتظامیہ کے معاملات میں دخل دے۔ سیاست دان آج غلط ہیں تو کل اچھے بھی آ سکتے ہیں۔ سول حکومت خدارا، امریکہ کی گیم میں ”آلہ کار“ نہ بنیں شاہد خاقان عباسی صاحب برائے مہربانی وزارت خارجہ، داخلہ اور دیگر اہم لوگوں کو بٹھا کر آرمی کے ساتھ معاملات حل کریں۔ اس کا جزو نہ بنیں۔ آرمی کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ سرخ لائن کا خیال رکھتی ہے کہ کہاں سے شروع ہوئی ہے۔ کہاں تک برداشت کرنا ہے کہاں سے ری ایکشن شروع کرنا ہے۔ یہ امریکہ اور بھارت کی سنگین پالیسی ہے کہ پاکستان آرمی کو ”راگ آرمی“ قرار دلوایا جائے شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال صاحب ملک کر بیٹھ جائیں اور خدارا ملک کو تباہی کے دہانے پر نہ لے جائیں۔ شہبازشریف اور چودھری نثار کو خراج تحسین ہے جنہوں نے ہمیشہ فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی مخالفت کی ہے۔عالم دین اور تجزیہ کار مولانا طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ میں ضیا شاہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ خود ختم نبوت کے بڑے داعی اور حامی ہیں۔ ہمارے ساتھ انہوں نے بھی ماریں، ڈنڈے اور قید کی صوبتیں اٹھائی ہیں۔ حکومت نے حلف نامے سے لفظ حلف کو ختم کر دیا اور دسرا صدقِ دل کا لفظ ختم کر دیا اقرار نامہ اور حلف نامہ میں فرق ہے۔ 7C-7B کو ختم کر دیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ یہ غلطی نہیں ہے۔ اسپیکر صاحب نے کہا یہ غلطی ہے۔ اسی قسم کی علطی 1980ءمیں ضیاءالحق نے بھی کی تھی۔ ان کے سامنے ہمارے جید علماءکرام ڈٹ گئے اور بالآخر انہیں یہ ترمیم ختم کرنی پڑی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv