لاہور (خصوصی رپورٹ)یزید تخت نشین ہوا تو اس نے اپنی بیعت کے لئے مختلف ممالک کو اپنے مکتوب روانہ کیے۔ جب مدینہ منورہ کا عامل بیعت کے لئے حضرت امام حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے ظالم، فاسق اور بے دین یزید کی بیعت سے انکار کردیا۔ یزید کی بیعت کا حال یہ تھا کہ صرف اہل شام نے بیعت کی تھی کیوں کہ وہ وہاں تخت نشین تھا۔ اہل کوفہ اور عراق کو مختلف جماعتوں اور فرقوں نے امام حسینؓ پر اپنا جان وامال قربان کرنے کی آرزو و تمنا کا اظہار کیا اور ڈیڑھ سو کے قریب خطوط بھیجے، جن میں وہ آپؓ کو اپنے پاس آنے پر اصرار کرتے رہے۔ بالآخر امام حسینؓ نے اپنے چچا زاذ بھائی مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجا تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے کہ کیا واقعی اہل کوفہ دین کے خیر خواہ ہیں یا محض ان کا دکھاوا ہے۔ جب مسلم بن عقیل ؓ کوفہ پہنچنے تو انہوں نے نہایت جوش و خروش اور فرط محبت کا اظہار کیا اور تقریباً بارہ ہزار لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر حضرت امام حسینؓ کی بیعت کی۔ جس کی اطلاع آپ نے امام حسینؓ کو دیدی۔ ان دنوں نعمان بن بشیر کوفہ کے گورنر تھے، بیعت کے معاملے پر اس نے کوئی مخالفت نہ کی۔ لیکن جب تندخو اور بے ادب یزید کو یہ خبر ملی کہ حضرت بن عقیل ؓ کوفہ میں جلوہ افروز ہوئے ہیں اور کوفہ کے بارہ ہزار لوگوں نے ان کے دست مبارک پر حضرت امام حسینؓ کی بیعت کی ہے تو اس نے نعمان بن بشیر کو کوفہ کی گورنری سے معزول کردیا۔ اور عبداللہ بن زیاد کو کوفہ روانہ کیا۔ جب وہ اپنی فوج کے ساتھ قادسیہ پہنچا تواس نے ایک مکارانہ چال چلی، خود حجازوں کا لبادہ اوڑھ کر سورج، ڈھلنے کے بعد کوفہ میں داخل ہوا جبکہ لشکر کو قادسیہ میں ہی چھوڑ دیا۔ اہل کوفہ ابن زیاد کی مکارانہ چال میں آگئے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ امام حسینؓ تشریف لے آئے ہیں۔ رات کی تاریکی میں والہانہ استقبال کیا لیکن دارالامارة پہنچنے پر سارا عقد کھل گیا۔ صبح ہوتے ہی ابن زیاد نے اہل کوفہ کو یزید کی مخالفت سے ڈرایا اور دھمکایا اور کوفہ کے عمائدین اور رﺅساکو قلعہ بند کردیا۔ یوں مسلم بن عقیل ؓ کی جماعت منتشر ہوگئی۔ ایک طرف اہل کوفہ کے عمائدین کو قلعہ بند کرکے زبردستی مجبور کیا گیا کہ وہ مسلم بن عقیل ؓ کی حمایت سے باز رہیں تو دوسری طرف کوتوال شہر آپ کو مصالحت کے بہانے ابن زیاد کے پاس لے جانے لگا، جونہی دروازے کے پہلو میں چھپے تیغ زنوں نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو اپنے ہم سفر نو عمر صاحبزادوں محمدؓ اور ابراہیمؓ سمیت شہید کردیا۔ اسی روز حضرت امام حسینؓ مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب قافلہ حسینی جو 72نفوس جن میں عورتوں ، بچے اور بیمار سبھی شامل تھے اور جن کے پاس نہ سامان حرب تھا اور نہ ہی جنگ کا کوئی ارادہ، کوفہ کے قریب پہنچا تو حربن زیاد ایک ہزار مسلح لشکر کے ساتھ آپؓ کو گرفتار کرنے پہنچ گیا۔ آپؓ نے نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد حرکے لشکر کو مخاطب کرکے کہا۔ ”اے لوگو! میں تم سے کہتا ہوں۔ میں یہاں تمہارے بلاوے پر آیا ہوں۔ تم نے کہا کہ ہمارا کوئی امام نہیں ، آپ آئیں ممکنہ کہ آپ کے ذریعے اللہ ہمیں ہدایت کی راہ پر لگا دے۔ اگر تم اپنے عہدے اور بیعت پر قائم ہو تو تمہارے شہر میں داخل ہوں ورنہ یہیں سے واپس لوٹ جاﺅں۔“ حرکے دل میں اگرچہ اہل بیعت کے لئے عظمت تھی مگر ابن زیاد کے ہاتھوں مجبور تھا اور اپنی بات پر مصر رہا۔ یہاں تک کہ قافلہ حسینیؓ 2محرم الحرام کو کربلا جا پہنچا۔ خیمہ زن ہوتے ہی ابن زیاد کا مکتوب آپہنچا جس میں وہی یزید کی بیعت کا مطالبہ تھا مگر آپؓ نے قاصد کو واپس بھیجادیا۔ آپؓ کی بیعت سے انکار کی اصل وجہ یہ تھی کہ یزید کھلم کھلا فسق و فجور میں مبتلا تھا جس پر آج بھی جمہور علماءکااتفاق ہے۔ بیعت سے انکار پر ابن زیاد کا طیش اور بڑھ گیا اور اس نے مزید فوج روانہ کردی۔ اب 72 نہتے اہل بیعتؓ سے سامنے 22ہزار کا ایک لشکر جرار موجود تھا لیکن اہل بیعتؓ پر ظالم یزید کا نہ خوف تھا اور نہ ہی کوئی ڈر۔7محرم الحرام 60ہجری کو یزید نے قافلہ حسینیؓ پر دریائے فرات کا پانی بند کردیا، اسی حالت میں تین دن بیت گئے۔ اہل بیعت بھوک پاس سے نڈھال ہوگئے تھے لیکن مصائب کے پہاڑ ان کی ایمان کی عظمت کو ذرہ بھر بھی متزلزل نہیں کرسکے۔ 10 محرم تک یہ حجت رہی کہ حضرت امام حسین ؓ بیعت کرلیں گے۔ لیکن سیدنا امام حسینؓ نے سرجھکانے پر سر کٹوانے کو ترجیح دی کیوں کہ مصالحت کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تھی اور جنگ کو روکنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ آپؓ کے حکم پر خیموں کے گرد خندق کھودی گئی جس میں صرف ایک راستہ چھوڑا گیا جہاں سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جاسکے۔10محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا۔ حضرت امام حسینؓ نے اہل بیعت اور رفقاءکے ساتھ نمار فجر ادا کی اور خیمے میں تشریف لے گئے۔ اہل بیعتؓ جو تین دن سے بھوک و پیاس سے نڈھال ، تیز گرم دھوپ اور تپتی دھوپ اور تپتی ریت سے بے حال اور سامنے 22 ہزار کا مسلح لشکر ، مگر آپؓ اوراہل بیعت کی عزم و ہمت میں ذرہ برابر لرزش نہیں آئی۔ بالآخر جنگ کا نقارہ بجادیاگیا۔ جنگ سے قبل آپؓ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ حجت تمام رہے، جنگ شروع ہوگئی۔ قافلہ حسینیؓ کے نوجوان اپنی بہادری اور دلیری کے جوہر دکھا دکھا کر امام حسینؓ پر قربان ہوتے چلے گئے۔ علی اکبر نے ایک ہی وار میں کئی کئی دیوپیکر کا کام تمام کیا مگر تیر کے زخموں سے بدن چور چور ہوگیا اور امام حسینؓ کی گود میں سر رکھ کر شہادت پائی۔ آپ کی شہادت سے ایک سناٹا چھا گیا۔ پھرحضرت امام حسینؓ معرکہ جنگ کے لئے تیار ہوئے۔ ایک ایک مقابل آتاگیا اور آپؓ نے سب کا کام تمام کیا۔ نعشوں کے انبار الگ گئے اور یزید کے لشکر میں شور مچ گیا۔ پھر ہزاروں کا لشکر دوڑ پڑا اور آپؓ کو گھیر کر تیر برسانا شروع کیے،گھوڑا زخمی ہوا، آپ کا نورانی جسم لہولہان ہوگیا۔آپؓ کی شہادت نے رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کے لئے عزم و استقلال کی بے نظر مثال قائم کی۔ ہر دور میں مسلمانوں کا مقابلہ یزیدی طاقتوں کے ساتھ رہا ہے۔ آج بھی بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ توڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے، آج بھی مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں کو شہید کیا جارہا ہے، آج بھی مظلوم فلسطینی اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں، آج بھی میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا ہے اور آج بھی معرکہ کرب و بلا افغانستان اور عراق میں جاری ہے۔ آگ ہے، اولاد ابراہیم ، نمرود ہے کیا کسی کو پھرکسی کا امتحاں مقصود ہے؟ امام حسینؓ کا یہ ایثار، قربانی ، جرات ،استقلال اور صبر و برادشت تاریخ اسلام کا ایک ایسا سنہری باب ہے جو ہمیں باطل یزیدی طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا درس دیتا ہے۔آپؓ نے نماز عصر کے وقت یزیدی لشکر سے کہا کہ مجھے نماز کی ادائیگی کرلینے دو ، جنگ ہوتی رہے گی،چنانچہ نماز عصر کیلئے بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوئے جب سجدہ ریز ہوئے تو شمرذوالجوش کندخنجر سے 13 ضربیں لگا کر امام عالی مقامؓ کا سر مبارک کاٹ کر جسم سے جدا کردیا (توبہ نعوذبااللہ) اور وہ فخر سے سر مبارک کو لہرانے لگا۔ اس طرح آپؓ نے شہادت کا جام نوش کیا۔