لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حکومتی اداروں نے خود ہی ڈان لیکس کے معاملہ کو خراب کیا ہے۔ وزیراعظم سب سے پہلے تو اداروں میں بیٹھے نااہل افراد کو کان سے کھینچ کر باہر نکالیں کیونکہ یہی لوگ حکومت کی پوزیشن کو خراب کرتے ہیں۔ ڈان لیکس کمیشن کی رپورٹ کی ایک کاپی وزیراعظم، ایک وزیرداخلہ اور ایک کمیشن سربراہ کے پاس ہو گی پھر اس رپورٹ کے مندرجات دو دن پہلے ہی کیسے میڈیا پر آ گئے اور اس پر بحث ہوتی رہی، اس رپورٹ کا لیک ہو جانا بھی ڈان لیکس سے کم اہم نہیں ہے، وزیراعظم اس کی بھی انکوائری کرائیں کہ وقت سے پہلے ہی رپورٹ کیسے لیک ہو گئی۔ سینئر صحافی نے کہا کہ حکومت کو ساری رپورٹ پبلک کرنی چاہئے تھی، رپورٹ اوپن کرنے کے بجائے پی ایم ہاﺅس سے خط جاری کر دیا گیا کہ فلاں فلاں بندے کے خلاف یہ ایکشن لیا جائے گا۔ اس معاملہ کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر فوج نے رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ سابق آرمی چیف کے دور میں کور کمانڈر کانفرنس میں کہا گیا کہ ڈان لیکس کے باعث فوج کی پوزیشن خراب ہوئی اور دشمن کو اس کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع ملا مکمل تحقیقات ضروری ہیں، یہاں تک بھی خبریں سامنے آئیں کہ اگر حکومت نے کارروائی نہ کی تو فوج خود کارروائی کرے گی۔ اس صورتحال میں حکومت نے انکوائری کا فیصلہ کیا، کمیشن بنا تو اس کے سربراہ بارے بھی شور مچا، وزیر داخلہ پریس کانفرنس میں مختلف تاریخیں دیتے رہے۔ سرکاری اداروں کے طرز عمل سے شکوک بڑھے اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ وزیراعظم ہاﺅس نے رپورٹ جاری کی تو وزیر داخلہ میدانِ میں آ گئے کہ یہ تو میرا کام تھا حالانکہ وزیر داخلہ وزیراعظم ہاﺅس سے جاری نوٹی فکیشن کو رد نہیں کر سکتے۔ فوج نے رپورٹ کو رد کیا تو کہا گیا کہ نوٹی فیکیشن نامکمل ہے، رپورٹ کا دوسرا حصہ ابھی آنا باقی ہے یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ سرکاری اداروں نے اس معاملہ کو فٹبال بنا کر رکھ دیا ہے وزیراعظم ایسا کرنے والوں کے بارے میں کچھ تو بات کریں۔ وزیراعظم کا بیان کہ اداروں میں محاذ آرائی اچھی بات نہیں خوش آئند ہے۔ رائے ونڈ میں وزیراعظم کی قیادت میں اہم اجلاس ہوا جس میں شہباز شریف اور چودھری نثار کو اس معاملہ کو حل کرنے کا ٹاسک دیا گیا، وزیراعظم سے درخواست ہے کہ کسی اور کو یہ ٹاسک دینے کی بجائے خود آرمی چیف سے ملاقات کریں اور اس کا کوئی درمیانی حل نکالیں کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حکومت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ آرمی ایک ادارہ ہے اگر اس کے کور کمانڈر محسوس کرتے ہیں کہ فوج کے خلاف کوئی بڑی سازش ہوئی ہے تو حکومت اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرے۔ صحیح یا غلط اپنی جگہ اگر کوئی ادارہ یا فرد انصاف کے لئے حکومت کے پاس گیا اور پھر حکومت نے جو رپورٹ دی اس پر کہا گیا کہ یہ اصل جواب نہیں ہے، حکومت نے پھر کہہ دیا کہ رپورٹ ابھی نامکمل ہے اس ساری بات سے یہ سامنے آتا ہے کہ حکومت نے خود معاملے کو مشکوک بنایا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ اس معاملے پر بننے والے کمیشن میں فوج کے دو نمائندے شامل تھے، کیا ان دو نمائندوں نے اس رپورٹ سے اتفاق کیا تھا یا کوئی اختلافی نوٹ لکھا تھا ان نمائندوں کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر سے بھی گزارش ہے کہ آپ نے رپورٹ مسترد کر دی، رپورٹ کی تیاری میں دو افسر آپ کے بھی شامل تھے وہ کیوں چپ بیٹھے رہے کیا انہوں نے اختلاف رائے کا اظہار کیا اور وہ اس رپورٹ میں موجود ہے تو پھر یہ مطالبہ کرنا چاہئے تھا کہ مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے۔ اس طرح کے کمیشن میں اختلافی نوٹ ہو تو وہ لازمی سامنے لایا جاتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ وزیراعظم کو چاہئے کہ مکمل رپورٹ سامنے لائیں کیونکہ آدھی سچائی سامنے لانے سے شکوک بڑھتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ادھوری بات کرنے سے گریز کیا ہے، رپورٹ مکمل سامنے آئے تو اس پر بھی بات کروں گا۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار قاضی انور نے کہا کہ آئین کے تحت فوج بھی حکومت کے ماتحت باقی اداروں کی طرح ہی ایک ادارہ ہے، آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ فوج انتظامیہ کے جاری کردہ نوٹی فکیشن کو مسترد کر دے۔ دنیا بھر میں آئین کے تحت چلنے والے ممالک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آئی ایس پی آر کی ٹویٹ سے یوں لگتا ہے کہ ایک اوپر کا ادارہ نیچے کے ادارے کو مسترد کر رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس معاملہ کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ کتنا کمزور ہے، وزیراعظم کو خود اداروں سے بات کرنا چاہئے، میرا ذاتی خیال ہے کہ آئی ایس پی آر خود ہی اپنے ٹویٹ کی وضاحت کرے گا اور اسے غلط فہمی قرار دے کر واپس لے لے گا کیونکہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ دفاعی تجزیہ کارلیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا کہ فوج وزیراعظم کے ماتحت ایک آئینی ادارہ ہے، آئین کے تحت اس کی ذمہ داریاں واضح ہیں، قومی سلامتی کے مسائل پر فوج کی اپنی رائے ضرور ہونی چاہئے۔ فوج نے ڈان لیکس کی رپورٹ کو ٹھیک مسترد کیا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پوری رپورٹ سامنے نہ لائی گئی۔ فوج نے بھی اس پر اعتراض کیا کہ مکمل رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی، سفارشات اور مندرجات سامنے نہیں لائے گئے۔ رپورٹ میں اختلافی نوٹ سامنے آنا چاہئے تھا تا کہ قوم کو پتہ چلتا کہ کس نے قومی سلامتی کو زک پہنچائی اس کے مقاصد کیا تھے، فوج کی جانب سے اِس غیر واضح رپورٹ کا مسترد کیا جانا لازمی امر تھا۔ ڈان لیکس کے ذمہ داران کو سخت سزا ملنی چاہئے صرف عہدے تبدیل کر دینا کافی سزا نہیں ہے۔ وزیراعظم کا ذاتی طور پر فرض تھا کہ اس حوالے سے واضح اقدامات اٹھائے جاتے کیونکہ قومی سلامتی ان کی ذمہ داری ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رپورٹ کے کچھ حصے چھپائے جا رہے ہیں اور دانستہ طور پر یہ سامنے نہیں لائے جا رہے، اس طرح کے معاملات پی ایم ہاﺅس کے لئے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔