تازہ تر ین

عملاً لاک ڈاﺅن ہی ہے وزیر اعظم عمران خان کو کچھ ریلیف دینا ہونگے عمران خان کا دیہاڑی داروں کو3ہزار ماہانہ دینا قابل تحسین ہے

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں کی احتیاطی تدابیر کے مطابق ہمیں خود کو قرنطینہ کرنا پڑے گا کیونکہ دنیا نے اس بیماری کا اس طرح سے مقابلہ کیا ہے۔ آپ چاہے یورپ کے کسی ملک کو دیکھ لیں یا مشرق وسطیٰ کے کسی ملک کو اٹھا کر دیکھ لیں یہ مسئلہ ہر جگہ موجود ہے اس کا واحد حل یہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران میں اس لئے تیزی سے زیادہ پھیلا ہے کہ ان ممالک میں لوگوں کا آپس میں میل ملاقات کا طریقہ ہے کہ وہ ہاتھ ملاتے گلے ملتے اور ایک دوسرے کے گالوں پر بوسہ دیتے ہیں اس وقت پاکستان، اٹلی، سپین اور سعودی عرب اور ایران کے مقابلے میں دوہفتے بعد میںہے۔ جو دو ہفتے ان ممالک میں صورت حال تھی پاکستان اب اس میں سے گزر رہا ہے۔ آج سے7,6 دن پہلے ہمارے ہاں دو اڑھائی سو کے قریب کرونا کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ایران سے تفتان کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے تھے جو زائرین کی شکل میں آئے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اب پاکستان میں وہ صورت حال ہے جو ان ممالک میں ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے تھی۔ انہوں نے فوری طور پر قرنطینہ کیا ہے اس وقت سپین میں ساڑھے 5 ہزار لوگ متاثر ہیں۔ کوئی 6 ہزار کے قریب اٹلی میںہیں اور اس طرح یورپ کے دیگر ممالک میں صورتحال ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایئے کہ یہ سوشل قرنطینہ کرنا لوگوں کے ساتھ کتنا ضروری ہے۔ جہاں تک اس کا مقابلہ کرنے کا سوال ہے ابھی تک اس کی ویکسین نہیں آئی۔ اگر سوچیں نمونیا کی دواﺅں سے یا کسی اور میڈیسن سے تو یہ ممکن نہیں ہے اس کا ایک راستہ ہے کہ کسی طریقے سے لوگوں کے ساتھ سماجی رابطے کم کریں۔ ہماری آبادی زیادہ ہے ۔ ابھی تو ہمارے ہاں کیسز آنے لگے ہیں ایک ہفتے کے اعداد و شمار اٹھایئے اور آج کے اعداد و شمار دیکھیں تقریباً دو سو فیصد کا فرق آ گیا ہے۔ جو تعداد اڑھائی سو کے قریب تھی اس وقت 9 سوا نو سو سے اوپر چلی گئی ہے۔ کل تک سندھ میں لاک ڈاﺅن تھا۔ آج پنجاب میں بھی لاک ڈاﺅن ہونے جا رہا ہے اور ہم نے یہ سب سے پہلے یہ سٹوری اپنے چینل پر بریک کی تھی ابھی میں بات کر ہی رہا تھا کہ ہمارے رپورٹر نے مجھے کراچی سے بتایا کہ ہمارے وزیر صحت سعید غنی کو کرونا کی تصدیق ہوگئی ہے۔ کل تک اس بات پر کافی تنقید ہو رہی تھی وہ کیوں لاک ڈاﺅن کر رہے ہیں۔عملاً تو اب ملک میں لاک ڈاﺅن کی پوزیشن ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ 25 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے حکومت کو فکر ہے کہ غذائی قلت نہ پیدا ہو جائے لوگوں کی جان بچ گئی تو غذائی قلت تک نوبت پہنچے گی۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ محترم وزیراعظم سے شروع ہو کر شہبازشریف، بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری، جہانگیر ترین، علیم خان اور دوسرے مخیر حضرات میدان میں آئیں اور مشکلات میں گھرے طبقہ کی مدد کریں۔ خدانخواستہ خدانخواستہ ابھی کیسز کی تعداد بڑھ گئی اور رمضان میں لوگ وباءسے نہیں ڈرتے۔دوسری طرف لوگ ریستورانوں سے کھانا لینے سے گھبرا رہے ہیں۔ عمران خان نے بات بالکل ٹھیک کی ہے ان کے پاس زیادہ معلومات ہیں این ڈی ایم اے ان کو رپورٹ کر رہا ہے کہ ہم کہاں کہاں سے امپورٹڈ ویکسین منگوا سکتے ہیں، وینٹی لیٹرز منگوا سکتے ہیں جس طرح یورپ، چائنہ کے اندر عوام، انڈسٹری، میڈیا ہاﺅسز کی مدد کی گئی ہے۔ ہم میڈیا ہاﺅس چلاتے ہیں ہم ڈر رہے ہیں کہ ہمارے دفتر میں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔ آٹھ دفاتر ہیں کہاں کہاں روکیں گے اس طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے۔ یہ 5 ہزار کا بل چھوڑنے سے یا ایک سال میں لینے کا اقدام ٹھیک ہی ہے ۔ لیکن یہ ہے پینک۔ پینک کی ضرورت نہیں ہے یہ حکومت کا فرص ہوتا ہے عمران خان اس بارے بڑا اچھا سوچتے ہیں وہ غریب آدمی کے لئے کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے روٹی روزگار بند نہ ہو یہ بالآخر بند ہو گا اس کے لئے حکومت کو ریلیف پیکجز دینے پڑیں گے ان کو انڈسٹریز کو سپورٹ کرنا پڑے گا کیونکہ اگلے20,15,14 دن لاک ڈاﺅن کی صورت حال میں جا رہے ہیں۔ لاہور کی سڑکوں پر میں نے کبھی اتنی ویرانی دیکھی نہیں۔ یہی صورت حال کراچی کی ہے۔ لوگ ڈر کے مارے گھر بیٹھے ہیں۔ مسئلہ لوگوں کو کھانا کھلانا نہیں ہے۔ ایشو یہ ہے کہ اس کی فزیبلٹی ایسی بنائی جائے کہ آپ کی اکانومی متاثر نہ ہو جو انڈسٹریز کام کر رہی ہیں وہ پاﺅں پر کھڑی رہ جائیں جو ٹیکسٹائل ملز، فارما سیوٹیکل کمپنیز ہیں۔ کے الیکٹرک، لیسکو، میڈیا کے ادارے ہیں ان کو ریلیف دیا جائے تا کہ ہم لوگوں کو چاہے ایک ماہ کی سیلری دے کرچھٹیوں پر بھیج سکیں۔ بہر حال جان سے زیادہ کسی چیز کی قیمت نہیں ہوتی۔ تین لوگ جو فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں وہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف دوسرا سکیورٹی فورسز اور تیسرا ہمارا میڈیا ہاﺅسز اور وہ ہمارے رپورٹرز خاص طور پر کیمرہ مین فوٹو گرافر جو باہرجا کر لوگوں کو بتا رہا ہے کہ کس جگہ کون سی چیز کھلی ہے کون سی نہیں کھلی ہوئی جب میں مخیر حضرات کی بات کرتا ہوں تو آپ عام پبلک میں جا کر پیسے نہیں بانٹ سکتے۔ چیزیں ان کو باہر سے نہیں ملیں گے ان لوگوں کو اداروں کو، انڈسٹریز کو جو اس وقت فرنٹ لائن پر ہیں ان کو حکومت کی طرف سے سپورٹ کیا جائے۔ اس کے لئے فنڈ بننا چاہئے سارا پیسہ ادھر ڈالنا چاہئے یہی طریقہ ہے کرونا سے لڑنے کا کیونکہ 14 سے 15 دن ہو سکتا ہے ایک مہینہ تک یہ پرابلم ہمیں فیس کرنا پڑے۔ کیا فوجی ہمارے بھائی نہیں پولیس کو کتنے سینی ٹائزر دیں گے ان کو ریلیف دینے کے لئے حکومت کو کچھ نہ کچھ اناﺅنس کرنا پڑے گا جس طرح امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور ایران نے اپنی حد تک کیا ہے چین جاپان نے کیا ہے حکومت کا یہ فرض ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ، وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا کہہ دیا شہباز شریف نے واپس آ کر کتنے ہسپتال ڈونیٹ کرنے کا اعلان کر دیا۔ میڈیا کا یہ کام نہیں ہے میڈیا کا کام ہے کہ اس دباﺅ کو روکا کیسے جائے۔ پنجاب سندھ دونوں کی کی حکومتیں کہہ رہی ہیں کہ کرفیو نہیں ہے لوگ ضرورت کی چیزیں لینے نکل سکتے ہیں ان کو بتایا جائے کہ وہ کہاں کہاں مل سکتی ہیں۔ کسی سڑک پر جانے سے ان کو کیا مسئلہ پیش آ سکتا ہے کرونا کے ہاتھ دھونا ماسک پہننا علاج نہیں یہ صرف حفاظتی تدابیر ہیں۔ ڈاکٹر، سکیورٹی فورسز آرمی اور پولیس اور میڈیا ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔ ورنہ خدانخواستہ سپین اور اٹلی سے زیادہ صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔ کل شب معراج تھی با برکت رات مولانا طارق جمیل نے دعا کرائی اس طرح کی دعائیں بہت اچھی بات ہے۔ انسان کوشش کرتا ہے دکھ تکلیف کا حل اللہ کی ذات نے کرنا ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ مراکو کے اندر لوگوں نے چھتوں کے اوپر کھڑے ہو کر بڑے بڑے لاﺅڈ سپیکروں سے اعلان کئے اور قرآن پاک کی تلاوت کی اللہ سے معافی مانگنے کا یہی طریقہ ہے کل مولانا طارق جمیل نے دعا کے دوران خوبصورت بات کی کہ اس وقت فرقہ واریت کا وقت نہیں ہے۔
تجزیہ: امتنان شاہد



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv