تازہ تر ین

اصل اپوزیشن ن لیگ ،پی پی، نہیں مہنگائی ہے ،عوام عمران خان سے نالاں ہیں خلاف نہیں،شیخ رشید

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ عوام چاہتے ہیں کہ کرپٹ سیاستدانوں کو ٹکٹکی پر لٹکایا جائے۔ عدالتوں نے 5 وزرائے اعظم کا ٹرائل کیا جو معمولی بات نہیں لیکن جن کو سزا ہوئے وہ بھی باہر چلے گئے۔ عمران خان کی کوشش کے باوجود وہ نتائج نہیں نکل سکے جو عوام چاہتے تھے۔ بڑے چوروں سے تو کیا چھوٹے چوروں سے بھی کچھ نہیں نکالا جا سکا۔ اس وقت ن لیگ، پیپلزپارٹی اصل اپوزیشن نہیں اصل اپوزیشن ہے۔ عمران خان پوری کوشش کر رہے ہیں آئندہ 15,10 دن میں گیس، بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ حکومت عام آدمی کو ریلیف دینے کے لئے احساس پروگرام کے تحت راشن کارڈ لا رہی ہے جس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ خصوصی انٹرویو میں کیا۔ گفتگو سوالاً جواباً نذر قارئین ہے:
ضیا شاہد:ایک وقت تھا جب لوگ سوچ رہے تھے کہ تبدیلی آئے گی تو حالات صحیح ہو جائیں گے اور لوگ پہلے سے زیادہ خوشحال ہوں گے۔ چونکہ خوشحالی نہیں آئی اور حالات زیادہ خراب ہو گئے اس لئے اب اسی اپوزیشن نے جس نے تقریباً تسلیم کیا ہوا تھا کہ وہ پریشر میں ہے اب کہنا شروع کر دیا ہے کہ نیا پاکستان مشکلات کا شکار ہے اس لئے پرانا ہی اچھا تھا۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
شیخ رشید: سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگوں نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس چیز کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ 31 ہزار کھرب انہوں نے اس ملک پر جو بوجھ چڑھایا ہے جو ہمارے ملک میں جو تباہی اور بربادی کی طرف لے جا رہے تھے۔ عمران خان نے اس میں آ کے سیاست کو شاید نقصان پہنچایا لیکن اس ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا اس میں شک نہیں کہ ہمارے مخالف نہ ن لیگ ہے یا پیپلزپارٹی ہے ہماری مخالف مہنگائی ہے اور اب عمران خان اس پر کام کر رہے ہیں ان کو بڑا واضح طور پر سمجھ ہے کہ لوگ بجلی اور گیس کے بلوں سے تنگ ہیں اور ہم وہ لوگ جو خان صاحب تک یہ بات کابینہ کی ہر میٹنگ میں پہنچاتے ہیں کہ لوگوں کی استطاعت اتنی نہیں ہے کہ اتنا مہنگا بجلی کا بل دے سکیں لیکن آئی ایم ایف کا ایک پریشر ہے 6 بلین ڈالر ان کے ہیں۔ وہ بھی نہ لئے جاتے تو دنیا کے دوسرے ملک کوئی نہ دیتے۔ مہنگائی کو اس وقت قابو کرنے کا زیادہ مسئلہ بجلی اور گیس کے بل ہیں۔
س: لوگ کہتے ہیں اب تو وزیراعظم صاحب نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ برے لوگ لندن میں ہیں چھوٹے یہاں پکڑے گئے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ جب بڑے چور نکل گئے اور حکومت ان سے کوئی ریکوری نہیں کروا سکی تو پھر ان کو پکڑنے کا کیا فائدہ؟
ج: میرے خیال میں تو چھوٹے چوروں نے بھی کچھ نہیں دیا اور ایسے حالات جنم پا گئے کہ نوازشریف اپنے آپ کو باہر لے جانے میں کامیاب ہو گئے اور اب ان کی ساری کوشش یہ ہے کہ پورا خاندان انہوں نے شفٹکر لیا ایک بیٹی ان کی رہ گئی ہے اور اس بیٹی کو باہر لے جانے کے بعد سارا خاندان انتظار کرے گاا کسی ایسے وقت کا جب خدانخواستہ اس ملک میں کوئی بحران پیدا ہوا۔ لیکن بیٹی کے راستے میں صرف حکومت ہی آڑے نہیں ہے بلکہ خود شہباز شریف ہی آڑے ہیں اس پر اگر بیٹی وہاں آ جاتی ہے تو جو وہ سنہری خواب دیکھے بیٹھا ہے جن کی تعبیر الٹی ہونی ہے اس کا نقصان پہنچا ہے میرے خیال میں اب آپ دیکھیں اگر اپوزیشن فاروق نائیک اور فروغ نسیم اگر مل کر اگر آرڈی نینس بنائیں گے نیب کا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ کچھ اس کا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ میں نیب سے یہ توقعات نہیں رکھتا کہ وہ صورت حال بہتر کر سکے گی۔ میرے خیال میں صورت حال نیب کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔
سوال: نیب نے اب تک جو کچھ کیا ہے اس کے بارے میں یہی لوگوں کا کہنا ہے کہ کارروائیاں بہت ہوئی ہیں اس میں آﺅٹ پٹ کچھ نہیں نکلا اور کوئی لوگوں کو کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔
جواب: لوگ چاہتے تھے کہ ان کو ٹکٹکی پر لٹکایا جائے اور چوروں سے لوٹی رقم واپس لی جائے اب یہ معمولی بات نہیں کہ انہوں نے 5 وزرائے اعظم کو ٹرائل کیا کسی ادارے کا 5 وزراءکا ٹرائل کرنا معمولی بات نہیں لیکن جن کو سزا ہوئی وہ بھی چلے گئے۔ اس کا نتیجہ وہ نہیں نکلا جو لوگ سوچے بیٹھے تھے۔
سوال: کیا نظام انصاف میں کوئی ایسے دروازے ہیں جو کھولے جا سکتے ہیں بالکل لگے کہ جس طرح وہ لوگ پکڑے جاتے تھے جن کو پکڑا جاتا تھا وہ بچ کر نکل گئے۔
جواب: ابھی تو جو احتساب ہے عمران خان کی کوششوں کے باوجود بھی وہ نتائج نہیں نکل سکے جس کا لوگوں کو خواہش ہے یا جو حکومت کی کہ ہم چھوڑیں گی اور جو اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے جب نتیجے پر پہنچنا چاہئے تھا۔
سوال: کیا لوگوں کی توقعات ہیں لوگوں کی وہ پورا ہو سکیں گی یا مایوسی اسی طرح سے بڑھتی جائے گی۔
جواب: وہ لوگوں کے پیسوں کی وصولی کے بارے میں تو کہوں گا کہ بڑے بدبختت ہیں انہوں نے کچھ نہیں دینا۔ یہ سمجھتے ہیں کہ کفن کو جیبتیں لگی ہیں اور یہ سب کچھ ساتھ لے کر جائیں گے۔ انہوں نے سب کچھ باہر شفٹ کر لیا ہے ان کی پاکستان میں دکھاوے کی چند عمارتیں ہیں اور چند کارخانے ہیں جو بینکوں میں پلج ہیں۔ عام آدمی احتساب سے پراُمید نہیں ہے اور مہنگائی سے بھی ناخوش ہے آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
سوال: میڈیا ہو، مارکیٹ میں کاروبار ہو یا چھوٹی موٹی تجارت ہو کسی بھی جگہ کیش پیش نظر ہی نہیں آتا۔ اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے مجھے ایک دن فون آیا تھا اسحق ڈار نے کہا کہ دیکھ لیا میں نے کس طرح سے مینج کیا ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے ٹیلی فون پر انٹرویو دیں تو انہوں نے وعدہ کیا لیکن اس کے لئے تیار نہیں ہیں میں ان سے یہی پوچھنا چاہتا تھا کہ آخر انہوں نے کس طرح سے کیا ان کے پاس گیڈر سنگھی تھی کہ انہوں نے کہا کہ میں ڈالر کا ریٹ اوپر نہیں ہونے دیا۔ ایک طرف بے تحاشا قرضہ لیتے رہے دوسری طرف ڈالر کو اوپر نہیں جانے دیا۔
جواب: یہ سارا کیا دھرا اسحق ڈار اینڈ کمپنی کا ہے۔ انہوں نے پلاننگ سے ڈالر جعلی بروکس سے رکھا کہ خدا کا شکر ہے یہ کہیں 2 سو روپے پر نہیں چلاا گیا۔ ورنہ ہمارا حال مصر سے زیادہ برا ہونا تھا یہ بروقت فیصلوں سے ڈالر اپنی اصلی قیمت پر آ گیا۔ کسی کا دل کرتا ہے کہ پہلے ہی دو سالوں میں حکومت اس جگہ پہنچ جائے کہ لوگوں سے گلے شکوے کرنے لگ جائیں یہ تو عمران خان کا امیج تھا کہ وہ ایک دیانتدار اادمی ہے اور دیانتدار آدمی ہے بھی دنیا میں سو باتیں کریں سو گلے شکوے کریں کوئی یہ نہیں کہے گا کہ عمران خان ایماندار آدمی ہے میں نے کئی وزرائے اعظم سے کام کیا۔ وہ جتنی محنت کر رہا ہے میں نے کسی وزیراعظم کو اتنی محنت کرتے نہیں دیکھا لیکن حالات اس کے بس میں نہیں آ رہے اب اس نے اس سال کا خوشخبری دیا ہے۔ لیکن میں ایک سیاسی ورکر کے طور پر سمجھتا ہوں کہ شاید 2021ءمیں عمران خان ان مسائل پر کنٹرول کر لیں۔
سوال:آپ کے خیال میں لوگوں کو تیار کرنا چاہئے کہ بھی ایک سال اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ابھی ایک سال مسائل رہیں گے اس کے بعد افاقہ ہو گا۔
جواب: عمران خان 15,10 دن میں اہم اعلانات کرنے والے ہیں اور وہ مسلسل میٹنگ کر رہے ہیں کہ کس طرح کرنا ہے اس کے بعد آئی ایم ایف کی کیا صورت حال پیدا ہو گی یہ بھی سوچنا ہو گا کہ وہ اس پر کیا ری ایکشن دیتی ہے لیکن ععمران خان ذہنی طور پر تیار ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کنٹرول کرے۔
سوال: کیاطریقہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے بچ سکیں جیسے کہ عمران خان خود کہتے رہے ہیں اور جیسا کہ طیب اردگان کا کہنا ہے کہ جو ملک آئی ایم ایف کے پااس گیا تو پھر اس کے چنگل میں پھنس گیا۔ کیا ہم اس چنگل سے نکل سکتے ہیں۔
جواب: ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچاتے بچاتے قوم کو مہنگائی سے روشناس کر دیا ہے۔ جب آئی ایم ایف ہوتی ہے تو ورلڈ بینک ملک ہے چین نے ہمیں تو کہا ہے کہ آپ ورلڈ بینک کے پاس جائیں۔
سوال: کیسے ایسے حالات سے نکلیں گے کہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ پرانا پاکستان ہی اچھا تھا۔
جواب: یہ لوگ انہی کے سپورٹر ہیں۔ وسطی پنجاب میں لیکن جو پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ عمران خان پر اعتمااد کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ عمران خان اتنے لوگوں کو نالاں کرے صرف آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لئے کوئی چارہ کار نہ تھا بلکہ بعد میں لوگوں نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف میں جانے کے لئے دیر کی ہے۔ میرے خیال میں اسحاق ڈار صاحب کہانیاں ڈال رہے ہیں یہ سب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا ہے جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔
سوال: کیا مہنگائی میں گڈ گورننس کا بھی مسئلہ ہے کیا روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
جواب: عمران خان نے خوداس کوتاہی کا اعتراف کیا ہے میں کون ہوتا ہوں اس کوتاہی کو نہ مانوں۔ جب آٹا ایکسپورٹ کر رہے تھے میں نے خود کہا کہ ہر مہینے ایکسپورٹ کرنے کے مت کرو۔ جب یہ مرغی والوں اور چوزہ کارکنوںکو دے رہے تھے تو میں نے مخالفت کی تھی۔ اعداد و شمار ناقص تھے اب بھی آٹا کوئی مسئلہ نہیں۔ ابھی 15 دن کے بعد سندھ سے فصل آجانی ہے ۔ چینی والوں نے بھی ایک لاکھ ٹن یوٹیلیٹی سٹور والوں کو دی ہے۔
سوال: صرف یوٹیلیٹی سٹورپرجانا حل نہیں۔ عام مارکیٹ میں قیمتیں قابو میں لانا ضروری ہے۔
جواب: آپ زمینی حقائق سے واقف ہیں۔ یوٹیلیٹی سٹور کے بارے میں میری رائے آپ جیسی لیکن کریانے کی دکانوں پر سبسڈی نہیں دی جا سکتی۔ عمران خان کا زور 11 چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے پر ہے۔
سوال: کیا راشن کارڈ سسٹم آ رہا ہے۔
جواب: احساس پروگرام کے ذریعے راشن کارڈ سسٹم بھی آ رہا ہے۔
سوال: جس طرح سے ایک زمانے میں ہر شخص چینی آٹاا اور چاول راشن پر ملتے تھے۔ کیا بنیادی صرورت کی چیزیں ملیں گی۔
جواب: وہ غریب لوگ جو بازار سے مہنگی چیزیں خریدنے کے متحمل نہیں ان کے لئے گھی، چینی دال اور آٹا جوہے وہ راشن کارڈ کے ذریعے ان یوٹیلیٹی سٹورز پر راشن کارڈ کے ذریعے دستیاب ہوں گی۔ احساس پروگرام سبسڈی دے گا۔
سوال:ہمارے میڈیا میں جو بحران ہے وہ بڑا خوفناک مالی بحران ہے عالم یہ ہے کہ کروروں روپے کے چیک جو ہیں باﺅنس چیک مختلف ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے پڑے ہوئے ہیں لیکن اب ہر چیز کا علاج عدالتوں میں جانا تو نہیں ہے۔ عدالتوں کے ذریعے آپ پیسے واپس نہیں لے سکتے اس لئے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ شاید معمول کے طریقے سے مل جائیں۔ اس وقت چینلز کو اور اخبارات کو جس بحران کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس کا علاج آپ کے نزدیک کیا ہے۔
جواب: میڈیا کے لوگ آن بورڈ نہیں ہوں گے نہ میڈیا سے ٹکر لی جا سکتی ہے نہ ان کی رائے پررکھا جا سکتا ہے لیکن بعض میڈیا میں بھی ایک دو ایسے چینلز ہیں جو عمران خان کو میرے کہنے کے باوجود کھٹکتے ہیں اوراس میں یقینا نہ آپ کا چینل ہے، نہ آپ کا اخبار ہے۔ ایسے چینل2 ہیں دو سے زیادہ نہیں کہتا جو خان صاحب کسی قیمت پر بھی ان کے ساتھ صلح کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں، میں چار دفعہ وزیراطلاعات رہا ہوں میں سوچ ہی نہیں سکتا کہ میڈیا سے لرائی لڑ کے گڈ گورنننس کی آپ فضا بنا سکتے ہیں آج کل مارکیٹ میں سارا کام کیمروں سے چل رہا ہے ساری سیاست کیمروں سے ہو گئی ہے۔ اور جب تک کیمرہ آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا آپ کی کمر سیدھی نہیں ہو گی۔ کیمرے اور پرنٹ میڈیا کو ساتھ رکھنا ضروری ہے۔ چیک باﺅنس ہونے کا مجھے پہلی دفعہ پتہ لگا مجھے کسی نے بتایا کہ انفارمیشن منسٹری کے باﺅنس ہو چکے ہیں۔
سوال: انفارمیشن منسٹری کے نہیں، انفارمیشن منسٹری ادائیگی کر نہیں رہی جیسے سندھ میں ہے بلوچستان میں، کے پی کے میں وہ ادائیگیاں سود کے پنجاب کے کسی اور جگہ نہیں ہو رہیں۔ سندھ میں تو عدالتوں میں گئے ہوئے ہیں عدالتیں بار بار ان سے کہہ رہی ہیں کہ آپ فلاں تاریخ تک کے واجبات پچھلے ادا کریں۔
جواب: عدالتیں مثبت طریقے سے ملک کو آگے لے کر چل رہی ہیں۔ ان کا رول مثبت ہے۔ لیکن افسوسناک بات ہے کہ لوگوں کی تنخواہیں رک جاتی ہیں۔ اور اس سے میڈیا خلاف ہو جاتا ہے اس بات کو میں انشاءاللہ خان صاحب کے ساتھ اٹھاﺅں گا۔
سوال:پچھلے ڈیڑھ سال سے حکومت کی پالیسی رہی ہے کہ اخبارات کو اشتہار دینے کا فائدہ ہی نہیں ہے یہ حکومت کا اشتہارات کو روک رکھنا جو ہے اس سے آپ متفق ہیں۔
جواب: اخبارات اور پرنٹ میڈیا کو اشتہار دینا چاہئے یہ ایک قسم کی سیاست بھی ہے۔ میڈیا کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ یہ تو نہیں کہ میڈیا کا گلا گھونٹ دیں۔
سوال: نوازشریف، شہباز شریف باہر چلے گئے۔ حالانکہ ان کے خلاف کیسز تھے۔ اب پریشر آ پڑا ہے کہ ان کی بیٹی کو باہر چلا جانا چاہئے۔یہ کون سا قانون ہے مقدمات بھی تو اس شحص کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت مل جائے۔
جواب: عدالت کے فیصلوں پر کیا تبصرہ کروں، میری زندگی میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ سزا یافتہ لوگ ضمانتوں پر باہر گئے ہیں۔ اور وہاں سے جعلی سی رپورٹ بنا کر بھیج دیتے ہیں اس پر کیا کر سکتے ہیں، آخری فرد ان کی والدہ تھیں وہ بھی چلی گئیں اور مریم نواز کا کیس آج یا کل لگنے والا ہے۔
سوال: عمران خان کے بارے میں ایک بات آئی ہے کہ وہ اپنے کچھ دوستوں کو فائدہ پہنچا رہے۔ ن والے یہ الزامات لگا رہے ہیں۔ آپ کابینہ میں۔ ان کا کون سے دوست ہیں جن کو وہ فائدہ پہنچا رہے ہیں یا حکومت فائدہ پہنچا رہی ہے۔
جواب: میرا خیال ہے کہ سراسر الزام ہے۔ عمران خان ایسا آدمی نہیں جو کسی کو فائدہ پہنچائے اور وہ بھی حکومت میں بیٹھ کر فائدہ پہنچائے۔ جس چیز کا بحران ہوتا ہے اس کا بزنس نہیں اگر پی ٹی آئی میں ہیں تو پی ٹی آئی پر الزام آ جاتا ہے۔
سوال: عمران خان نے طاہرالقادری سے مل کر مارچ کیا اس وقت سمجھا جاتا تھا کہ عمران خان کی حکومت میں سب سے پہلے طاہر القادری موجود ہوں یا نہ ہوں تو پھر ان کے کیس کے سلسلے میں کلیئر ہو جائے گا لیکن وہ کیس ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔
جواب: میں نے خود وزیراعظم کو کہا کہ منہاج القرآن کے بہت سارے لوگ سرگودھا جیلوں میں ہیں اور ماڈل ٹاﺅن کا کیس انہوں نے فروغ نسیم صاحب کو دیدیا اس سلسلے میں وہ کارروائی کریں گے۔ جمعرات کے دن کابینہ میں یہ بات اٹھائی ہے۔
سوال: آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر عدالت میں بڑی لے دے ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ حکومتی ٹیم نے غلطیاں کیں، اب تک کسی بیورو کریٹ کو بھی سزا نہیں دی جا سکی، کیا کسی کو بچانے کی کوشش کی گئی؟
جواب:کسی کو بچانے کی کوشش نہیں کی گئی مدعی نے حود درخواست واپس لینے کی استدعا کی مگر عدالت نے مسترد کر دی تھی۔ عمران خان پہلے سن سے ہی جنرل باجوہ کو توسیع دینا چاہتے تھے۔ میں نے اس وقت ہی کہہ دا تھا کہ ن لیگ پی پی سب ووٹ دیں گے اور یہ قانون باآسانی منظور ہو جائے گا۔
سوال:مولانا فضل الرحمان نے بڑی تنقید کی اور کہا کہ آئندہ الیکشن میں فوج کوئی دخل نہ دے حالانکہ آئین کی رو سے سول حکومت فوج سے مدد لے سکتی ہے آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: پاکستان میں فوج ہی ہے جو الیکشن کرا دیتی ہے ورنہ یہاں تو ایسے ایسے حلقے اور طاقتور لوگ ہیں جو پولنگ سٹاف کو ہی اٹھا کر لے جاتے ہیں، وہ بدمعاشوں کو پولنگ ایجنٹ لواتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان تو خود پرویز مشرف کی بی ٹیم کا حصہ رہا ہے۔ اب مولانا کو کوئی دھرنا نہیں دینے دیا جائے گا اگر آنے کی کوشش کی تو پہلے ہی دھر لیا جائے گا البتہ جلسہ جلوس وہ کر سکتے ہیں۔
سوال: کیا وقت سے پہلے الیکشن ہو سکتے ہیں ایسا ممکن ہے کیا ملک متحمل ہو سکتا ہے؟
جواب: الیکشن اپنے وقت پر ہونگے۔ مئی جون میں عالمی سطح کی اہم ترین شخصیات پاکستان کا دورہ کریں گی حالات بہتری کی جانب جائیں گے۔ قوم کا بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ معاشی بدحالی کی وجہ پچھلے اداور کی طرف جا رہے۔ عمران خان پانچ سال پورے کریں گے البتہ وہ خود چار سال بعد الیکشن کرا دیں تو کچھ نہیں کر سکتا۔
سوال: ملک میں اس وقت جو صورتحال ہے ایسے وقت میں الیکشن ہوں تو کیا تحریک انصاف دوبارہ جیت سکتی ہے؟
جواب: حکومت نے دو سال میں عوام کیں حقیقی خدمت کی، عوام ہم سے نفرت نہیں کرتے البتہ خفا اور نالاں ضرور ہیں مگر ناتا نہیں تورا۔ عمران خان کی ساکھ نواز زرداری سے بہتر ہے صرف ابھی تک نمایاں کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جسے بہتر بنانا ہو گا۔ اگلے دو سال میں حالات اور کاروبار بہتر ہو گیا تو تحریک انصاف حکومت گرنے کی آس لگانے والے ناکام ہونگے۔
سوال: پنجاب میں ان ہاﺅس تبدیلی نظر آ رہی ہے، کیا آپ کو ایسی توقع ہے کہ ق لیگ ن لیگ سے مل جائے؟
جواب: ن لیگ یا پی پی کو حکومت گراتے نہیں دیکھ رہا، ن لیگ تو ذہنی طور پر 5 سال بعد الیکشن لڑنے کے لئے تیار ہے۔ وفاق اور پنجاب میں حکومت معمولی اکثریت پر قائم ہے تاہم مثبت بات یہ ہے کہ فوج ملک میں جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے۔ پاک فوج اور ادارے بھرپور طریقے سے حکومت کے ساتھ ہیں حکومت کے لئے کوئی عدم اعتماد تحریک آتے نہیں دیکھ رہا۔
سوال: آپ نے بڑی حکومتیں بنتے گرتے دیکھی ہیں،فارورڈ بلاک بنتے دیکھے، کیا وجہ ہے کہ حکومت ن لیگ کو توڑنے میں ناکام رہی؟
جواب: اس کی وجہ ہے کہ عمران خان ایسی سوچ ہی نہیں رکھتے حالانکہ کئی ایسے لیگی ممبران تھے جن سے رابطے ہوئے ان کی تعداد کافی تھی تاہم عمران خان کے یقین ہے کہ وہ ایسے معاملات کئے بغیر ہی اپنی مدت مکمل کر لیں گے۔
سوال: مئی جون میں کن اہم ترین مہمانوں کی آمد ہے؟
جواب: پڑوسی ملکوں سے اہم مہمانوں کی آمد متوقع ہے۔
سوال: عمران خان نے یو این میں مسئلہ کشمیر پر بے مثال تقریر کی، ان کا مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر فورم اور ہر جگہ اٹھانے کا پروگرام تھا۔ یہ بھی پروگرام تھا کہ ہر جمعہ کو لوگ کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے نکلیں گے تاہم ایسا ہو نہ سکا کیا اس کی وجہ حالات یا مولانا کا دھرنا تھا۔
جواب: عمران خان کو ہی توفیق ہوئی کہ مسئلہ کشمیر کو 3 بار سکیورٹی کونسل میں لے کر گئے۔ کشمیر ایسی چنگاری ہے جو کسی وقت بھی شعلہ جوالہ بن جائے گی۔ عمران خان مسئلہ کشمیر پر جتنی جدوجہد کر سکتے تھے کی کسی اور نے مسئلہ کشمیر کو دنیا میں اسی طرح اجاگر نہیں کیا جیسے عمران خان نے کیا۔ مریندر مودی کی خواہش ہے کہ ان کا عمران خان سے رابطہ ہو، بات آگے چلے، وہ ٹرمپ کو بلا کر دکھانا چاہتا ہے کہ سپر پاور اس کے ساتھ ہے تاہم اہم سپر پاور نہیں لوگ ہیں، بھارت کے مسلمان اب اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ 3 دن پہلے بھارتی طالبہ یہ دہشتگردی کیس بنایا گیا کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ کیوں لگایا۔ بریلی پولیس، سی بی اور کرناٹک میں حالات خراب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کو اور آگے بڑھائے، کشمیر کی تحریک کا تعلق پاکستان سے ہے کسی حکومت سے نہیں ہے۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں کشمیر کی آزادی تحریک اب پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv