بھارت کی آبی دہشتگردی ،چناب کا پانی روک لیا ،دریا خشک ،نہر مرالہ راوی لنک بند

سیالکوٹ(صباح نیوز)بھارت کی طرف سے 1960ءکے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب کا پانی بگلیہارڈیم پر روک لئے جانے کی وجہ سے ہیڈمرالہ کے مقام پر دریائے چناب کے پانی کی آمد انتہائی کم ہوکر آٹھ ہزار سات وستانوے کیوسک رہ گئی اور دریائے چناب کا ستانوے فیصد سے زائد حصہ خشک ہوگیا اورپانی کمی کی وجہ سے نہر مرالہ راوی لنک مسلسل دس روز سے مکمل طور پر بند رہی اور د وسری نہر اپرچناب میں پانی بیس ہزار کیوسک سے کم ہوکر چار ہزار سات سو کیوسک رہا جس کی وجہ سے سیالکوٹ ، پسرور ، نارووال ، ڈسکہ ، گوجرانوالہ ودیگر اضلاع کی ہزاروں ایکٹر زرعی اراضی پر کاشت شدہ فصلوں کو نہری پانی نہ ملنے سے نقصان پہنچا جہاں کسان وکاشتکار ٹیوب ویلوں کا پانی فصلوں کو لگانے پر مجبور رہے ،مقبوضہ کشمیر سے آنے والے دریائے چناب کے حوالے سے بھارت نے 1960ءمیں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان کے دور میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھاجس کے تحت بھارت دریائے چناب میں ہر لمحہ55ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند تھا لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بگلیہارڈیم تعمیر کرکے وہاں پانی روک لیا اور اب پانی نہ ہونے کے برابر ہے ، ترجمان ایری گیشن کے مطابق صرف دریائے چناب کے اپنے پانی کی آمدآٹھ ہزار سات سو ستانوے کیوسک رہی تاہم مقبوضہ کشمیر سے آکردریائے چناب میں شامل ہونے والے دیگر دودریاﺅں میں دریائے مناور توی کے پانی کی آمد نو سو چونتیس کیوسک اور دریائے جموں توی کے ایک ہزار پانچ سو اڑتالیس کیوسک پانی کے شامل ہونے سے دریائے چناب کے پانی کی مجموعی آمد گیارہ ہزار دو سو اناسی کیوسک رہی۔

مارچ سے حکومت ختم نہیں ہوگی ،مودی کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا

لاہور، اسلام آباد (آن لائن، آئی این پی) وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آزادی مارچ سے حکومت ختم نہیں ہونے والی آئین حکومت کے آنے اور انے کاطریقہ کار واضح ہے حریم شاہ کے خلاف انکوائری مکمل کرلی ہے جس کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی گئی ہے۔ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ سیاست میں روادری بہت ضروری ہے۔ جے یو آئی ف کے آزادی مارچ سے کشمیر ایشو کو نقصان پہنچا ہے۔ گزشتہ روز گورنر ہاﺅس میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے ملاقات میں اظہار خیال کرتے ہوئے شاہ محمود پریشی نے کہا کہ کرتارپور راہداری خیر سگالی کی بمقام ہے۔ وزیراعظم عمران خان 9 نومبر کو کرتار پور راہداری کا باقاعدہ اختتام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مندر، گوردوارے آباد ہیں مگر مقبوضہ کشمیر میں مسلمان آزاد نہیں۔ نہ تو وہاں کشمیری عوام کو نماز جمعہ ادا کرنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی وہاں اہل تشیع کو محرم کے جلوس نکالنے کی اجازت ہے۔ ہم مسئلہ کشمیر پر انپے موقف پر قائم ہیں مگر بھارت خطے کے استحکام کو متاثر کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پوری دنیا میں کشمیر کا ذکر ہو رہا ہے۔ بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اگر حالات نارمل ہیں تو غیر ملکی میڈیا کو وہاں جانے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جہاں بھی کشمیری عوام کی آواز بن سکتے ہیں ضرور بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی احتجاج سے پہلے ہی حکومت کی تمام تر توجہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے پر تھی مقبوضہ کشمیر پر انسانی حقوق کی پامالی کو عالمی میڈیا اجاگر کر رہا تھا جبکہ احتجاج شروع ہوا تو مقامی میڈیا کی توجہ تقسیم ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے بھارتی میڈیا بھی ہمارے اندرونی حالات کو منفی انداز میں پیش کر رہا ہے۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ کرتارپور راہداری کھولنے کا فیصلہ ہماری جانب سے خیرسگالی کا پیغام ہے اور راہداری کھولنے سے دنیا بھر کی سکھ برادری کو خیرسگالی کا پیغام دیا ہے جبکہ ہم نے ثابت کیا کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے ماننے والے آزاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے متنازعہ ہونے کو بھارت بھی عالمی سطح پر تسلیم کر چکا ہے اور مسئلہ کشمیر کے تنازعہ پر اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں جبکہ کشمیر پر ہم پر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اندر اور گوردوارے آباد ہیں جو جانا چاہیے چا سکتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں جمعہ کی نماز کی اجازت نہیں ہے اور مساجد میں تالے ہیں۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ ہمارا جمہوری رویہ ہے اسے برقرار رکھیں گے اور امید کرتے ہیں جس وضع داری کا مظاہرہ حکومت نے کیا اور اپوزیشن بھی کرے گی۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پانچ دہائیوں سے کھٹائی پر پڑا تھا اس حکومت نے اس کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جو اور بھارت مکروہ چرہ دنیا میں بے نقاب کیا ہے، بھارت خود کو دنیا کی سب سےبڑی جمہوریت کہلواتا تھا لیکن دنیا نے اس کی اصلیت دیکھ لی ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملائیشین ہم منصبسیف الدین عبداللہ نے ٹیلفونک رابطہ کیا ہے جس میں دو طرفہ تعلقات، خطے میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ،دونوں وزرائے خارجہ کے مابین خطے میں امن و امان سمیت اہم امور پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔جمعرات کو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سےملائیشیا کے وزر خارجہ سیف الدین عبداللہ نے ٹیلفونک رابطہ کیا جس میں دو طرفہ تعلقات، خطے میں امن و امان کی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان ملائشیا کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے ۔

تبلیغی اجتماع کا پہلا مرحلہ شروع ،سکیورٹی کے فول پروف انتظامات

رائے ونڈ(نامہ نگار)رائےونڈمیں منعقدہ سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع کا پہلا مرحلہ عصر کی نماز کے بعد شروع وگیا ۔گزشتہ روز سارا دن تبلیغی پنڈال میں مندوبین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا جوآج رات گئے تک جاری رہے گا ۔پہلے مرحلے میں دیر، سندھ، سرگودھا، راولپنڈی، بنو کے علاقہ سے شرکاءشرکت کریں گے ۔پہلا مرحلہ 3نومبر کو صبح اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پزیر ہوجائے گا۔اجتماع گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی مرحلہ وار ہوگا ۔دوسرا مرحلہ 7نومبر سے شروع ہوکر 10نومبر کو اختتام پذیر ہوگا ۔تبلیغی اجتماع پر پولیس کی جانب سے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے گئے ہیں۔ پنڈال کے داخلی اور خارجی راستوں پر واک تھروگیٹ لگا دیئے گئے ہیں۔کسی شخص کو چیکنگ کے بغیر پنڈال میں داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔تبلیغی پنڈال کی سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی کی جارہی ہے۔پہلے مرحلے میں علماءکرام کے بیانات کا شیڈول اس طرح ہے ،جمعرات عصر بیان مولانا نذرالرحمن ،جمعرات مغرب بیان مولانا ابراہیم ،جمعہ فجر بیان قاری زبیر بنگلادیش ،جمعہ کے بعد بیان مولانا اسماعیل ،جمعہ عصر بیان مولانا زہیر الحسن انڈیا، جمعہ مغرب بیان مولانا مولانا احمد لاٹ ،ہفتہ فجر بیان مولانا عبدالرحمن بمبئی،ہفتہ ظہر بیان مولانا ربیع الحق بنگلادیش ،ہفتہ عصر بیان بھائی فاروق بنگلور،ہفتہ مغرب بیان مولانا ابراہیم اتوار ہدایات مولانا خورشید ،اتوار دعا مولانا ابراہیم ، ٹرین حادثہ میں تبلیغی کارکنوں کی ہلاکت کی خبر کے بعد اجتماع کی فضا سوگوار ہے۔

کسی کے پیچھے ہمالیہ بھی کھٹرا ہو پروا نہیں ،کرپشن کیس بنتا ہوگا تو ضرور بناﺅں گا ،چیئر مین نیب

سکھر(این این آئی)قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر )جاوید اقبال نے ایک بار پھر وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کے برا بھلا کہنے نیب کی کارروائیاں بند نہیں ہونگی کرپشن میں صوبہ سندھ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے محکمہ صحت کو ملنے والے تمام فنڈز کی انکوائری کریں گے نیب کیوں کسی سے سیاسی انتقام لے گا ان خیالات کا اظہار انہوں نے سکھر میں نیب کے دفتر کے دورے کے موقع پر افسران کے اجلاس اور بعدازاں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،چیئرمین نیب جسٹس ر جاوید اقبال نے مزید کہا کہ نیب کا چاہے پٹیوالہ ہویا افسر اس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہم نے کوئی الیکشن لڑنا ہےنیب چہرے دیکھ کر نہیں بلکہ کیس کو دیکھتا ہے نیب میں بددیانت انویسٹی گیشن افسر موجود ہیں مگر میں فی الحال ان کے نام نہیں لے رہا ہوں تاہم میں انویسٹی گیشن کی رپورٹ اور تیار ریفرنس فائل ہونے سے پہلے پوری طرح دیکھتا ہوں پھر اس کی منظوری دیتا ہوں تمام ڈی جیز سے کہہ دیا ہے کہ ہر سفارش اور پریشر نیب آفس کے باہر ختم ہوجانا چاہیے کام صرف قانون کے مطابق ہونا چاہیے اور سائل کی شکایت کا ازالہ ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ رویہ بہتر ہونا چاہیے تھانہ کلچر کا کوئی جواز نیب میں نہیں ہونا چاہیے ہم نے ہتھکڑی کا کلچر ختم کیا ہے کسی کو بھی ہتھکڑی نہ لگائی جائے میگا کرپشن کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا اور لوٹی گئی رقوم واپس لانا ہماری اولین ترجیح ہے نیب نے 23 ماہ میں بدعنوان افراد کے خلاف 600 ریفرنس عدالتوں میں دائر کیے ہیں اور 71 ارب روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی ہے نیب احتساب سب کا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کنوکشن خاصے بہتر تھے لیکن اب کم ہوگئے ہیں انہوں نے نیب سکھر کی کارکردگی کو بھی سراہا اور کہا کہ نیب سکھر کی کارکردگی شاندار رہی ہے یہ بیورو نیب کا اہم علاقائی بیورو ہے اس نے نیب کی مجموعی کارکردگی میں اہم کردار ادا کیا ہے چند شکایات سکھر ریجن سے غیر ذمہ داری اور بددیانتی کی موجود ہیں جنہیں میں دیکھ رہا ہوں میں کسی صورت برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی جاندار کیس کسی انویسٹی گیشن افسر کی غلطی سے ختم ہوجائے عدم کارکردگی اور بددیانتی بالکل برداشت نہیں کی جائے گی ہمارے پاس چند انویسٹی گیشن افسران ہیں جن کو انویسٹی گیشن کی اے بی سی بھی نہیں آتی ان کا کہنا تھا کہ عام پاکستانی کی نظر سے دیکھیں تو معیشت کی بربادی میں کرپشن کا بڑا ہاتھ رہا ہے اگر یہ کرپشن نہ ہوتی تو ہمارے ہاتھوں میں کشکول نہ ہوتا اور ہمیں کسی سے امداد مانگنے کی ضرورت نہ پڑتی جب تک ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا ہم باوقار زندگی نہیں گذار سکتے کرپشن نیب کا ذاتی نقصان نہیں ریاست اور پاکستان کا نقصان ہے ان کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت میں کروڑوں روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود لوگوں کو کتے کے کاٹے کی ویکسین میسر نہیں ہے آخر یہ بجٹ کے پیسے کہاں گئے ایک بیٹا ویکسین نہ ملنے پر اپنی ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر مر گیا قبل ازیں اجلاس کے دوران ڈی جی نیب سکھر عرفان بیگ و دیگر نیب افسران نے چیئرمین نیب کو مختلف سیاسی رہنماو¿ں اور افسران کے خلاف کیسز اور ان پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی جس پر چیئرمین نیب نے کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی شہریوں کو جائیداد خریدنے کا حق مل گیا

سرینگر(این این آئی)مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کی فرقہ پرست بھارتی حکومت نے جموںوکشمیر کو دو یونین ٹیریٹریز میں سرکاری طورپر تقسیم کرنے کے بعد مقبوضہ علاقے میں گجرات جیسے قتل عام کے منصوبے پر عمل درآمد کیلئے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ کشمیر میڈیا روس کے مطابق بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35Aکے تحت مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت مودی حکومت نے 5 اگست کو منسوخ کردی تھی۔جس کے بعد سے وادی کشمیر اور جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں کے آٹھ لاکھ افراد لوگ مسلسل فوجی محاصرے میں ہیں ۔جموں و کشمیر کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کے طور پر انڈین ایڈمینسٹریٹو سروس کے افسرگریش چندرا مرمو کی تقرری جو آج حلف اٹھائیں گے نریندر مودی کے مذموم منصوبے کا حصہ ہیں۔ مرمو 2002میں نریندر مودی کے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے دور کے دوران ان کے پرنسپل سکریٹری تھے جب مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا تھا۔ اب انہیںواضح طور پر مقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوںکی نسل کشیُ کا ٹاسک دیا گیا ہے ۔مرمو طویل عرصے سے فاشسٹ مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ وہ گجرات میں عشرت جہاں جعلی مقابلے میں بھی شامل تھے۔سرینگر میں باخبر ذرائع کے مطابق نریندر مودی ، امیت شاہ اور اجیت ڈوول نے مقبوضہ کشمیر میں قاتلوں کے اپنے گروہ میں گیریش چندرا مرمو کی صورت میں ایک اور مجرم کااضافہ کر لیا ہے ۔ تاہم مرمو جیسے مجرموں کی جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے طور پر تقرری کشمیریوں کو آزادی کی اپنی جدوجہد جاری رکھنے سے روکا نہیں جاسکتا ۔ مقبوضہ کشمیر کو31دسمبر کو باقاعدہ طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے مودی سرکار نے بڑے پیمانے پر جشن کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔جموں اور وادی کے لیے گریش چندر مرمو کو اور لداخ کے لیے آر کے ماتھر کو گورنر مقرر کیا ہے۔ جبکہ پہلے سے جموں کشمیر میں تعینات گورنر ستیا پال ملک کو گوا کا نیا مقرر کردیا گیا ہے۔بھارتی اقدام کے بعد لداخ کے بودھ باشندوں میں تشویش شدت اختیار کرگئی ہے۔واضح رہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 کو آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا تھا جس کے بعد کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ واپس لے لیا گیا ۔وزیر داخلہ امِت شاہ نے راجیہ سبھا(بھارتی قومی اسمبلی)کے خصوصی اجلاس میں بتایا کہ صدر رام ناتھ کووند نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد خطے کی خصوصی حیثیت آج ہی ختم ہو گئی ہے۔ اِمت شاہ نے ایوان میں کہا یہ قدم فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔اس سے قبل بھارت نے کشمیر میں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کرنے کے بعد دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔یہ بھی واضح رہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی رو سے جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری، ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے کشمیریوں کو خدشہ تھا کہ اگر یہ دفعہ ختم ہوگئی تو کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آباد کار یہاں آ کر ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔

5کروڑ سے زائد کرپشن کر نیوالے قیدی کو جیل میں سی کلاس ملے گی

\اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) اکتوبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 8نئے قوانین کو آرڈیننس کے22ذریعے نافذ کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بے نامی ٹرانزیکشن آرڈیننس اور نیب ترمیمی آرڈیننس سمیت 8نئے آرڈیننسز کی منظوری دے دی۔ صدر مملکت کی جانب سے 8نئے آرڈیننسز کی منظوری دی گئی ہے جس میں بے نامی ٹرانزیکشن اور قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس بھی شامل ہیں۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت 5کروڑ روپے سے زائد کرپشن کے قیدی کو جیل میں سی کلاس ملے گی، یہ آرڈیننس فوری طور پر نافذ العمل ہوگا، جو مقدمات چل رہے ہیں، یا زیر سماعت ہیں یا نئے داخل ہونے والے ہیں ان سب پر یہ لاگو ہوگا۔ اس کے علاوہ صدر پاکستان کی جانب سے حقوق خواتین آرڈیننس، وراثتی سرٹیکیٹس آرڈیننس، لیگل اینڈ جسٹس اتھارٹی آرڈیننس، سپیرئیر کورٹس ڈریس آرڈیننس، سول پروسیجر آرڈیننس اور وسل بلوئر پروٹیکشن ویجی لینس کمیشن آرڈیننس کی منطوری دی گئی ہے۔

جلتی ٹرین فراٹے کیوں بھرتی رہی عملہ کہاں تھا ؟کئی سوالات ،جواب طلب

ملتان(میاں غفار سے) کراچی سے آنے والی تیز گام میں لیاقت پور سے چنی گوٹھ کے درمیان چلتی میں لگنے والی آگ جہاں سو سے زائد افراد کو جلا کر راکھ کرگئی وہاں بہت سے سوال بھی چھوڑ گئی جس کا جواب ریلوے حکام کے پاس پہلے اور نہ ہی کسی تحقیقاتی ادارے کو معلوم ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے دور اپوزیشن میں ریلوے حادثے کی ذمہ داری اس وقت کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق پر عائد کی جاتی رہی۔ اس بارے انہوں نے یہ ذمہ داری مسافروں پر ڈال کر خود کو اس سے بری الزمہ قرار دے دیا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جس کی زبان چلتی ہے اس کے 10ہاتھ بھی چلتے ہیں اور رہا وزیر ریلوے کا معاملہ تو ٹرین چلے نہ چلے ان کی زبان بلا روک ٹوک خوب چلتی ہے۔ یہ حادثہ سو مسافروں کو نگل کر جو سوالات چھوڑ گیا ہے ان کا جواب جے آئی ٹی کے سوا کوئی نہیں کھوج سکتا اور معمولی معاملات پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی کم سے کم اس لیے نہیں بنائی گئی کہ مرنے والے عام لوگ تھے، خاص نہیں جو چند سوالات اب تک سامنے آئے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ ٹرین کی جس بوگی میں آگ لگی وہ محض 20سے25فیصد جلی جبکہ تیز ترین ٹرین میں سے مسلسل چنگاریاں اور لکڑی کے ٹکڑے اڑ کر ملحقہ بوگیوں تک پہنچے جس سے وہ بوگیاں بھی جل کر راکھ ہوگئیں اور اموات بھی انہی کوچز میں زیادہ ہوئیں۔ ٹرین کے آخر میں گارڈ کی بریک مسنگ تو ہوتی ہے لیکن گارڈ ہوش میں نہیں ہوتے کہ چلتی ٹرین کے اندر ہونے والے معاملات کو چیک کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ چلتی ٹرین 25سے30کلومیٹر تک چلتی رہی۔ عینی شاہدین کے مطابق لیاقت پور سے نکلتے ہوئے ٹرین کو آگ لگ چکی تھی اور وہاں سے چنی گوٹھ کا فاصلہ30 منٹ کا ہے اور ٹرین چنی گوٹھ کے قریب جاکر رکی گویا جلتی ہوئی ٹرین مسلسل فراٹے بھرتی رہی یہاں تک کہ کسی گارڈ ، ریلوے پولیس حتیٰ کہ انجن ڈرائیور کو بھی عمل نہ ہوسکا۔ جن بوگیوں کو آگ لگی ان میں زنجیر کھینچنے کا سسٹم ہی خراب تھا اور یہ زنجیر اے سی بزنس میں کسی نے کھینچی تو ٹرین رکی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صبح6بج کر26منٹ پر طلوع آفتاب کے وقت ڈرائیور اور اس کے ساتھی اہلکار چلتی ٹرین میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور انہیں نصف گھنٹہ تک علم ہی نہ ہوسکا کہ ٹرین میں کیا ہورہاہے۔ ٹرین میں کل16بوگیاں تھیں جس میں چوتھے ڈبے میں آگ لگی جو 20فیصد تک جلا اور دیگر دو ملحقہ بوگیوں میں بھی آگ لگی جس سے اموات ہوئیں کیونکہ جلتی ہوئی ٹرین میں آگ تیز ہوا چلنے سے بھڑکی اور اس کی چنگاریوں نے ایک دیگر دو بوگیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ تمام ٹرینوں کی بوگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہےں اور مسافر ایک سے دوسری بوگی میں آسانی سے جاسکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسافر چھٹی ، ساتویں یا اس کے بعد والی بوگیوں میں کیوں نہ جاسکے۔ اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ ٹرین کی بوگیوں کے درمیان گزرنے والا راستہ بند تھا۔ اگر تھا تو انہیں جوڑا نہ گیا اور یہ بھی محکمہ ریلوے کی نااہلی ہے۔ ریلوے کے بعض ریٹائرڈ افسروں نے بتایاکہ صبح کے وقت اکثر رات کو جاتے ہوئے ڈرائیور غنودگی میں ہوتے ہیں اور یہ ٹرین رات روانہ ہوئی غالب امکان ہے کہ ٹرین کے انجن میں موجود عملہ گہری نیند میں ہوگا اور جو ایک آدھ جاگ بھی رہا ہوگا تو وہ بھی نیم غنودگی میں ہوگا جس نے آگ لگنے والی بوگیوں کو دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا اور انہیں مدد کےلئے چیخ و پکار کرنےوالے مسافروں کی آواز بھی سنائی نہ دی۔16سے زائد افراد کی موت جلتی ٹرین سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے ہوئی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ٹرین آگ لگنے کے بعد بھی رکی نہیں اور فراٹے بھرتی رہی۔
سوالات

نظام انصاف پر لوگوں کا اعتماد ہوگا تو غیر ملکی سر مایہ کاری آئیگی،عمران خان

اسلام آباد(نامہ نگار خصوصی)وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری اس وقت تک ممکن نہیںجب تک انصاف کے نظام پر لوگوں کا اعتماد نہ ہو جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔کاروبار میں آسانیوں سے متعلق اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزر اعظم عمران خان نے کہا کہ ‘کاروبار میں آسانی کے لیے اقدامات پر ماہرین کی کاوشیں قابل تحسین ہیں جبکہ بھرپور تعاون پر عالمی بینک کے شکر گزار ہیں۔’انہوں نے کہا کہ ‘کاروبار میں آسانیوں کے حوالے سے عالمی بینک کی رپورٹ میں 28 درجے بہتری صرف شروعات ہے، ہمیں ماضی کے برعکس اب اس ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا کہ جب تک آپ ٹیکسز ادا کر رہے ہوں اس وقت تک پیسہ بنانا کوئی گناہ نہیں ہے، اگر ہم اپنے ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس ذہنیت کو اپنانا بہت ضروری ہے۔’عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کے جاری خسارے میں ضرور کمی آئی ہے لیکن مالی خسارہ اب بھی موجود ہے جس کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ ٹیکسز اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے جس کی رقم پھر ہمارے ہی لوگوں پر خرچ کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم ملک میں صنعتوں کا قیام چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ غربت سے نکلیں، غربت کے خاتمے کے لیے احساس پروگرام شروع کیا گیا، معاشی مشکلات کے باوجود غربت کے خاتمے کے لیے یہ پروگرام شروع کیا گیا۔

3 دن دھرنا پھر لڑ کر استعفی لیں گے ،فضل الرحمن کٹھ پتلی کو جانا ہو گا ،بلاول بھٹو

اسلام آباد ‘ گوجر خان (نمائندگان خبریں) مولانا فضل الرحمان نے دھمکی دی ہے کہ ہم لڑکر استعفیٰ لیں گے، اگر حکومت خود سے رخصت نہ ہوئی تو ملک میں افراتفری ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق کراچی سے شروع ہونے والے مارچ میں ناکامی اور اپوزیشن کی جانب سے حمایت نہ ملنے کے بعد مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف دھمکیوں پر اتر آئے۔ فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم لڑ کر استعفیٰ لیں گے، اسلام آباد میں بیٹھ کر حکومت کو 2,3 دن دیں گے، اگر حکومت رخصت نہ ہوئی تو ملک میں افراتفری ہوگی اور جو بھی ہوگا وہ میرے اختیار کی بات نہیں ہوگی۔جمعیت علمائے اسلام(ف) کا حکومت مخالف آزادی مارچ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہو گیا۔ مارچ کے استقبال کے لیے مسلم لیگ(ن) کی جانب سے مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں مقامی رہنماﺅں اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔قبل ازیں مولانا فضل الرحمن کا روات میں استقبالیہ کیمپ سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ ‘آپ کی یکجہتی قومی نعرے کا روپ دھار چکی ہے، عوام اسلام آباد جا کر حکمرانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ نااہل اور ناجائز حکومت قابل قبول نہیں۔ آزادی مارچ کا مرکزی اجتماع اسلام آباد ایچ- 9 میٹرو گرانڈ میں ہوگا اور مارچ کے شرکا کے لیے پارکنگ کی جگہ بھی مختص کی گئی ہے۔اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ نے ریڈزون، فیض آباد اور زیرو پوائنٹ انٹرچینجز سمیت مختلف سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ہمارا جلسہ بھی ہوگا اور دھرنا بھی ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہمارا جلسہ بھی ہوگا اور دھرنا بھی ہوگا حکمران ناجائز ہیں اور یہ پیغام پوری دنیا تک پہنچائیں گے۔ پاکستانی عوام نے حکومت کیخلاف عدم اعتماد کر دیا ہے سلیکٹڈ حکومت کو ا ب گھر جانا ہوگا ہمارے مارچ کے حوالہ سے غلط خبریں پھیلا کر اپنے مفادات حاصل کرنے والوں کو ناکامی ہوگی جدھر میر اکنٹینر جائے گا جلوس نے ادھر کا رخ کرنا ہے مارچ بھی ہوگا دھرنابھی ہوگا اور جلسہ بھی ہوگا بلوچستان سندھ سے چلنے والے سینکڑوں جلوس مرکزی مارچ میں شامل ہوئے جو ابھی تک پرامن ہیں اب حکومت بدنیتی سے اسے سبوتاژ کر سکتی ہے حالات خراب ہوئے تو ذمہ دار حکومت ہوگی۔ ان خیالات کااظہار جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے گوجرخان میں آزادی مارچ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ رہبر کمیٹی کے چیئرمین اپوزےشن لےڈر اکرم خان دُرانی نے کہا ہے کہ ہم اسلام آباد سےر کے لئے نہےں بلکہ وزےر اعظم کا استعفیٰ لےنے جا رہے ہےں اور ہمےں مکمل ےقےن ہے کہ ہم عوام کو اس کرپٹ اور سلےکٹےڈ وزےراعظم سے نجات دلاکے رہےں گے ریلی کے شرکاءکا عزم اس بات کا آئینہ دارہے کہ عوام موجودہ حکومت سے مزےد تنگ آچکے ہےں عوام کا ٹھاٹھےں مارتا سمندر حکمرانوں کو بہا کر لے جائےگا راستہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو ساتھ بہا لیں گے، آزادی مارچ میں شرکت کیلئے روانگی سے قبل اور بعد ازاں لنک روڈ چوک کے مقام پر ریلی کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ اس وقت پورا ملک کے عوام اُٹھ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت بندوق کے زور پر مسلط کی گئی ہے، آزادی مارچ میں شریک پی پی پی کی قےادت ملک اشفاق خان ، ملک شعےب خان ، حاجی ظفر علی خان کر رہے تھے جبکہ جے ےو آئی کے دستوں کی قےادت اکرم خان درانی کر رہے تھے اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر تیمور باز خان ایڈووکیٹ کی قیادت میں الگ ریلی آزادی مارچ میں اسلام آباد گئی۔

ن لیگ کی آزادی مارچ میں برائے نام شرکت ،فضل الرحمن شہباز شریف سے سخت ناراض،ارشاد عارف

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف تجزیہ نگار و صحافی ارشاد احمدارف کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی گفتگو قارئین کی دلچسپی کے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد:عمران خان جب آئے تو ایک کروڑ ملازمتیں دوں گا، 50 لاکھ گھر بنوا کر دوں گا، کرپشن ختم کروں گا باہر سے سرمایہ کاری آئے گی لیکن ان کی ساری بھاگ دوڑ کے باوجود زیادہ اچھے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ان کو نئے پاکستان کے لئے اچھی ٹیم نہیں مل سکی یا ترجیحات درست نہیں۔
ارشاد احمد عارف: عمران خان نے جو وعدے کئے کچھ ناتجربہ کاری تھی کیونکہ وہ حکومت میں کبھی نہیں رہے تھے۔ ساتھ ہی ان کودو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس مانگے تانگے کی ٹیم ہے کیونکہ انہوں نے پہلے تو الیکٹ ایبلز 2002ءمیں لئے ہی نہیں اس کی وجہ سے وہ الیکشن ہارے 2013ءکا الیکشن ہارے ان کی ضد تھی کہ میں صاف ستھرے اچھی شہرت کے تعلیم یافتہ لوگ لاﺅں گا لیکن یہ معاشرہ ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ٹیم کا مسئلہ تھا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ وہ یہ مافیا اتنا مضبوط ہے اور اس کی جڑیں کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہیں اس کا شاید عمران خان کو اندازہ نہیں تھا۔ جب آصف سعید کھوسہ نے پانامہ کیس میں اپنے فیصلے میں جو اکثریتی فیصلہ کہلاتا ہے مافیا کا دکر کیا تو لوگوں نے تعجب ظاہر کیا کہ لیکن ایک سال سوا سال میں ہم نے بھی دیکھا کہ بیورو کریسی میں کاروباری برادری، میڈیا میں، علماءمیں مذہبی جماعتوں میں سیاسی جماعتوں میں کس قدر مضبوط مافیا موجود ہے جو کسی بھی عمل کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ جس کی خواہش ہے سٹیٹس کو چلتا رہے خدا نخواستہ پاکستان رہے نہ رہے ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔ ایک سوا سال کے عرصے میں مشکل پیش آتی ہے وہ اس مافیا کی وجہ سے نہ کوئی قرصے واپس کرنا چاہتا ہے نہ کوئی ٹیکس دینا چاہتا ہے۔ اب جو مہنگائی کا معاملہ ہے جو لوگ مہنگائی پیدا کر رہے ہیں اس میں حکومت کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ذریعے ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاﺅن نہیں کیا۔ یہ مافیا ان کی سرپرستی کر رہا ہے اور مہنگائی بڑھا رہا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کا آغاز ہو رہا ہے لیکن اس سال بھی کچھ نہیں ہو گا۔ معیشت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سیچوایشن کا عمل موجودہ حکومت نے روک دیا ہے۔
سوال: اس وقت دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس کے باوجود مہنگائی کنٹرول کرنا تو صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کیا صوبائی حکومتیں درست کام نہیں کر رہیں کیا ضرورت ہے جیسے عمران خان کہتے تھے کہ کام صحیح نہیں کرے گا اس کو تبدیل کر دیا جائے گا کیا صوبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جواب: مگر شکایت یہی ہے کہ کام صحیح نہیں ہو رہا تو تبدیلی سے عمران خان کو گھبرانا نہیں چاہئے۔ بجائے اس کے کہ چند لوگوں کی بری کارکردگی کا ملبہ عمران خان پر پڑے ان کو تبدیلی عمل میں لانی چاہئے۔ حقیقت پنجاب میں مہنگائی کے حوالہ سے اپنا جو وقار اور رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے بالکل نہ ضلعی انتظامیہ کچھ کر رہی ہے نہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کچھ کر رہی ہیں۔
سوال: صوبوں میں تبدیلی سے نظم و نسق میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
جواب: اچھا وزیراعلیٰ ہو اور اچھی کابینہ بنائے تو کیوں نہیں ہو سکتی۔ اس معاشرے میں ڈنڈے کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ موجودہ حکومت ہومیوپیتھی حکومت سمجھی جا رہی ہے جس کی نہ بیوروکریسی سنتی ہے نہ تاجر، نہ عوام پولیس کا اپنا نظام متوازی حکومت کے طور پر نظام چل رہا ہے اچھی انتظامیہ سے یقینا فائدہ ہو گا۔
سوال: جب وزیراعلیٰ پنجاب کو مقرر کیا گیا تو اس وقت بھی ایک آواز اٹھی تھی کہ پرویز الٰہی جو پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں اگر انہیں پنجاب سونپ دیا جاتا تو وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر اس کو بہتر چلا سکتے تھے کیونکہ اس وقت ڈاکٹر، ٹینکر، تاجر ہوں گڈ گورننس کی ہر جگہ کمی ہے اور ہر دوسرا طبقہ اپنے مطالبات لے کر بیٹھا ہے۔ صوبائی حکومت اب تک نظم و نسق بہتر نہیں کر سکی۔ جیسے ڈاکٹروں کے معاملات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
جواب: مافیا ریاست کو چلنے نہیں دے رہا، مثال کے طور پر ڈاکٹر کام نہیں کرنا چاہتے تنخواہیں اور مراعات لینا چاہتے ہیں۔ غلط بیانی کی جا رہی ہے کہ این آئی ٹی کا جو قانون آیا ہے اس کے تحت جونیئر ہوں یا سینئر ہوں ڈاکٹروں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ آپ کی ریاست سے یا حکومت سے تنخواہیں نہیں ہے تو آپ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کریں گے یہ لوگ غریب مریضوں کو دیکھتے نہیں دوائیوں میں خورد برد ہوتی ہے پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں میڈیکل کالج کا ایک پروفیسر وہ چار کمروں کا کلینک چلا رہا ہے وہ اپنے وارڈ میں نہیں جاتا وہ اس تبدیلی کو روکنے کے لئے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ مافیا اپنے مفادات کے لئے پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیںوہ اتحادیوں کی محتاج ہے، ق لیگ، چودھری سرور، علیم خان کے معاملات کچھ اور ہیں مخلوط کمزور حکومت اس طرح کے مضبوط انداز میں معاملات سے نہیں نمٹ سکتی جس طرح کہ دو تہائی اکثریت والی حکومت نمٹا کرتی ہے۔ لیکن سارا بوجھ صوبائی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ میاں نوازشریف کے معاملے میں جو ہو رہا ہے کس طرح سے میڈیا، بیورو کریسی کس طرح سے قانون کے رکھوالے مدد کر رہے ہیں اور حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا موازنہ شہباز شریف یا پرویز الٰہی سے نہیں کیا جا سکتا جن کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور بیورو کریسی بھی ان کی بات مانتی تھی۔
سوال: فضل الرحمان کی آزادی مارچ اسلام آباد پہنچنے والا ہے وہ کیا مطالبہ کرنے والا ہے۔ کیا وہ عمران خان سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
جواب: فضل الرحمن کے مارچ کے مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں پہلا جو ان کا مقصد نظر آتا ہے کشمیر کے مسئلہ سے توجہ ہٹا دی جائے اور حکومت پاکستان کو مودی حکومت کے برابر لا کھڑا کیا جائے کہ وہاں بھی پابندی لگائی ہوئی ہیں اوریہاں بھی پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عمران حکومت کی کامیابی ہے کہ اس نے مارچ کو روکا نہیں ہے ورنہ مولانا نے کھل کر کہنا تھا کہ جس طرح حریت کانفرنس کو آزادی نہیں ہے اپنے مطالبات پیش کرنے کی ہمیں بی نہیں دی جا رہی کیونکہ نجی محفلوں میں وہ مکالمہ کرتے ہیں کہ جس طرح مودی نے کشمیر کا الحاق کیا ہے انڈیا کے ساتھ پاکستان بھی فاٹا کا انضمام کر چکی ہے وہ فاٹا اور کشمیر میں ایک مثال قائم کرتے ہیں اور پاکستان کی ریاست کو انڈیا کی ریاست سے اس کا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ تو عمران خان کی حکومت نے موقع نہیں دیا کہ وہ اس طرح کا پروپیگنڈا کر سکیں۔ فضل الرحمان کا مقصد دنیا کو باور کرانا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے آزادی نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ حکومت کر رہی ہے یہاں الیکشن اس کی مرضی سے ہوتے ہیں یہاں جمہوریت نہیں ہے۔ میڈیا کا ایک حصہ ان کی حمایت کر رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے۔ میری معلومات کے مطابق جتنے لوگ پنجاب میں داخل ہوئے تھے مولانا اتنے ہی لوگ لے کر نکلے ہیں اس میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہو گا۔ جو ان کو توقع تھی کہ لاہور پہنچنے پر چالیس پچاس ہزار لوگ شامل ہوں گے اور مسلم لیگ ن کے کارکن شامل ہوں گے۔ میرے رپورٹر بتا رہے ہیں کہ لاہور میں ڈیڑھ دو سو سے زیادہ کا قافلہ شامل نہیں ہوا۔ جو انہوں نے شہباز شریف یا ن لیگ کے خلاف بات چیت کی وہ میڈیا پر منظر عام پر نہیں آئی۔ وہ سخت تلخ تھی وہ بہت زیادہ گلہ تھا شکوہ تھا کہ مجھے مسلم لیگ ن نے دھوکہ دیا ہے ان کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ گویا شہباز شرییف نے انتظامیہ کو یہ تاثر دیا ہے کہ ہم فضل الرحمن کے ساتھ نہیں ہیں۔ اب ان کی توقعات خیبرپختونخوا سے ہیں۔ اگر وہ ایک لاکھ لوگ جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ مطالبات عمران خان کے صرف استعفے کا مطالبہ نہیں کریں گے وہ ایک دو اور استعفے بھی مانگ سکتے ہیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کن کے استعفے ہو سکتے ہیں۔ ان کی تحریک یا مارچ عمران خان کے خلاف نہیں ہے۔ اس وقت جب پاکستان کی دونوں سرحدوں پر خطرات موجود ہیں اس طرح کی کارروائی کا مقصدسوائے اس کے اور نہیں ہے کہ انتشار پیدا کیا جائے اور سرحدوں کے محافظ لوگوں کو جتنا کمزور کیا جائے۔ جتنی کامیابی انہوں نے حاصل کر لی ہے اس سے زیادہ کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ مولانا سمجھدار ہیں لگتا نہیں ہے کہ عبدالرشید غازی، علامہ خادم رضوی یا طاہر القادری جیسی صورت حال پیدا کریں اگر پیدا کر دی۔ اگر خدانحواستہ کوئی صورتحال پیدا ک دی تو جمہوریت کا مستقبل محفوظ نہیں رہے گا۔
سوال: مارچ کی کوریج کیلئے جانے والے خبریں، چینل۵ کے رپورٹروں کو مولانا کے جوشیلے کارکنوں نے پکڑ لیا اور موبائل و دیگر سامان چھین لیا پولیس نے بڑی مشکل سے چیزیں واپس دلائیں، میرے نام ایک پیغام بھیجا کہ آپ کے شام کے اخبار میں فواد چودھری کی خبر چھاپی گئی جو ہمارے خلاف تھی۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت ان کے نزدیک کیا ہے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف ایک لفظ نہ چھپے کیا اب یہی آزادی صحافت کا مطلب ان لوگوں سے سیکھنا ہو گا؟
جواب: ان مذہبی کارکنوںکے نزدیک آزادی اظہار صرف اس حد تک جائز ہے جسے یہ ٹھیک سمجھتے ہیں ہماری سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی ایسا ہی ہے تاہم مذہبی جماعتیں تو میڈیاکو جعلی اور فحاشی کے فروغ دینے والا سمجھتی ہیں اس لئے میڈیا کے ساتھ ان کا رویہ قابل فہم ہے، مولانا کے پیروکار بھی اس فکر کے ہیں جو فکر جامعہ حفصہ یا تحریک طالبان کی ہے۔ میڈیا کے بعض لوگ جو اس وقت مولانا پر فریفتہ ہو رہے ہیں کہ مارچ سے نوازشریف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے انہیں ابھی اندازہ نہیں کہ مولانا کی جماعت اگر طاقت پکڑتی ہے تو میڈیا کے لئے خطرات کتنے بڑھ جائیں گے۔ مارچ کراچی سے اسلام آباد پہنچ گیا مگر اس میں عام آدمی جو مہنگائی، بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہونے کے باوجود ساتھ نہیں چلا عوام کی مارچ میں شرکت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، صرف مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور کارکن مولانا کے ساتھ ہیں۔ میڈیا کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرح ایک ایسے عفریت کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہمارا گلا دبوچ لے۔
س: اسلام آباد میں مارچ شرکا کی تعداد بڑھ گئی تو وہ آگے بھی جا سکتے ہیں کیونکہ افرادی طاقت فیصلے تبدیل کرا دیتی ہے کیا مولانا حکومت کے کئے معاہدے پر قائم رہیں گے؟
جواب:ایسا امکان موجود ہے تاہم مولانا کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار نہیں کریں گے جبکہ وہ نتائج سے بھی باخبر ہیں، ریاست یا حکومت اتنی کمزور نہیں ہے کہ فساد پر قابو نہ پا سکے، مولانا نے ٹکراﺅ کی سیاست کبھی نہیں کی مولانا نے ایک اہم شخصیت کو پیغام بھیجا تھا کہ جب آپ کے خلاف ن لیگ اور مولانا ساجد میر ایک مخصوص پروپیگنڈا کیا تھا تو ہم سے بھی رابطے کئے گئے مگر میں نے اپنے ساتتھی علماءکو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ مولانا اگر اسلام آباد میں دو تین دن لوگوں کو بٹھائیں گے بھی تو اگلی تاریخ دے کر پرامن طور پر اٹھ جائیں گے۔ مولانا اپنی طاقت شو کر چکے ہیں وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ظاہر کر چکے ہیں اب وہ سیاسی بارگیننگ کی کوشش کریں گے اور انتشار کا راستہ نہیں اپنائیں گے تاہم پاکستان میں کوئی سیاسی پیش گوئی ممکن نہیں تاہم میرے نزدیک بہتری ہی ہو گی۔
سوال: کیا مولانا وزیراعظم سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوں گے اگر یہی کام شروع ہو گیا کہ کوئی بھی افرادی طاقت لے کر اسلام آباد پہنچے اور حکومت کو ختم کر دے تو کیا ایسے چل سکتا ہے؟
ج: مولانا دو یا تین استعفوں کا مطالبہ کریں گے، میرے نزدیک صرف ایک اجتماع کے زور پر وہ وزیراعظم تو کیا کسی وزیر کا بھی استعفیٰ نہیں لے سکتے۔
سوال: بڑی تعداد میں لوگوں کی کراچی سے لے کر اسلام آباد تک پرامن لے جانے پر مولانا کو مبارکباد دی جا سکتی ہے؟
جواب: مولانا کو کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے دکھا دیا کہ وہ پی پی ن لیگ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر لا سکتے ہیں اور انہیں پرامن بھی رکھ سکتے ہیں۔ حکومت کا بھی کریڈٹ ہے کہیں بھی ان لوگوں کو روکا نہیں گیا۔ ن لیگ، میڈیا کے بعض لوگ اورغیر ملکی طاقتیں توڑ پھوڑ چاہتی ہیں، مولانا کو اکسایا بھی جا رہا ہے۔
سوال: حکومت کی اس بات میں کتنا سچ ہے کہ مہنگائی کی صورتحال چند ماہ میں تبدیل ہو جائے گی؟
جواب: معاشی بحران ماضی کی حکومتوں کا شاخسانہ ہے، مافیاز بھی حکومت کو ناکام بنانے پر تلے ہیں۔ بحران حقیقی نہیں مصنوعی ہے، دھرنا پرامن طور پر منتشر ہو جاتا ہے اور ن لیگ کی اس سے اُمیدیں دم توڑتی ہیں تو معیشت بہتری کی جانب جائے گی۔ بیورو کریسی کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ حکومت جانے والی نہیں ہے اس لئے کام کرے گی زرداری اورنواز کی کرپٹ حکومت پانچ سال پورے کرتی ہے تو عمران خان کا کیا قصور ہے کہ صرف ایک سال بعد ہی مہنگائی کا بہانہ بنا کر ہٹا دیا جائے۔ سو فیصد یقین ہے کہ گومگو کی کیفیت ختم ہو گی تو معیشت بھی بہتری کی طرف جائے گی۔ معاشی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ ملک بہتری کی جانب گامزن ہے ماضی کا گند صاف ہو رہا ہے۔

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف تجزیہ نگار و صحافی ارشاد احمد
باقی صفحہ5بقیہ نمبر 1

عارف کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی گفتگو قارئین کی دلچسپی کے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد:عمران خان جب آئے تو ایک کروڑ ملازمتیں دوں گا، 50 لاکھ گھر بنوا کر دوں گا، کرپشن ختم کروں گا باہر سے سرمایہ کاری آئے گی لیکن ان کی ساری بھاگ دوڑ کے باوجود زیادہ اچھے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ان کو نئے پاکستان کے لئے اچھی ٹیم نہیں مل سکی یا ترجیحات درست نہیں۔
ارشاد احمد عارف: عمران خان نے جو وعدے کئے کچھ ناتجربہ کاری تھی کیونکہ وہ حکومت میں کبھی نہیں رہے تھے۔ ساتھ ہی ان کودو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس مانگے تانگے کی ٹیم ہے کیونکہ انہوں نے پہلے تو الیکٹ ایبلز 2002ءمیں لئے ہی نہیں اس کی وجہ سے وہ الیکشن ہارے 2013ءکا الیکشن ہارے ان کی ضد تھی کہ میں صاف ستھرے اچھی شہرت کے تعلیم یافتہ لوگ لاﺅں گا لیکن یہ معاشرہ ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ٹیم کا مسئلہ تھا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ وہ یہ مافیا اتنا مضبوط ہے اور اس کی جڑیں کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہیں اس کا شاید عمران خان کو اندازہ نہیں تھا۔ جب آصف سعید کھوسہ نے پانامہ کیس میں اپنے فیصلے میں جو اکثریتی فیصلہ کہلاتا ہے مافیا کا دکر کیا تو لوگوں نے تعجب ظاہر کیا کہ لیکن ایک سال سوا سال میں ہم نے بھی دیکھا کہ بیورو کریسی میں کاروباری برادری، میڈیا میں، علماءمیں مذہبی جماعتوں میں سیاسی جماعتوں میں کس قدر مضبوط مافیا موجود ہے جو کسی بھی عمل کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ جس کی خواہش ہے سٹیٹس کو چلتا رہے خدا نخواستہ پاکستان رہے نہ رہے ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔ ایک سوا سال کے عرصے میں مشکل پیش آتی ہے وہ اس مافیا کی وجہ سے نہ کوئی قرصے واپس کرنا چاہتا ہے نہ کوئی ٹیکس دینا چاہتا ہے۔ اب جو مہنگائی کا معاملہ ہے جو لوگ مہنگائی پیدا کر رہے ہیں اس میں حکومت کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ذریعے ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاﺅن نہیں کیا۔ یہ مافیا ان کی سرپرستی کر رہا ہے اور مہنگائی بڑھا رہا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کا آغاز ہو رہا ہے لیکن اس سال بھی کچھ نہیں ہو گا۔ معیشت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سیچوایشن کا عمل موجودہ حکومت نے روک دیا ہے۔
سوال: اس وقت دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس کے باوجود مہنگائی کنٹرول کرنا تو صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کیا صوبائی حکومتیں درست کام نہیں کر رہیں کیا ضرورت ہے جیسے عمران خان کہتے تھے کہ کام صحیح نہیں کرے گا اس کو تبدیل کر دیا جائے گا کیا صوبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جواب: مگر شکایت یہی ہے کہ کام صحیح نہیں ہو رہا تو تبدیلی سے عمران خان کو گھبرانا نہیں چاہئے۔ بجائے اس کے کہ چند لوگوں کی بری کارکردگی کا ملبہ عمران خان پر پڑے ان کو تبدیلی عمل میں لانی چاہئے۔ حقیقت پنجاب میں مہنگائی کے حوالہ سے اپنا جو وقار اور رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے بالکل نہ ضلعی انتظامیہ کچھ کر رہی ہے نہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کچھ کر رہی ہیں۔
سوال: صوبوں میں تبدیلی سے نظم و نسق میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
جواب: اچھا وزیراعلیٰ ہو اور اچھی کابینہ بنائے تو کیوں نہیں ہو سکتی۔ اس معاشرے میں ڈنڈے کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ موجودہ حکومت ہومیوپیتھی حکومت سمجھی جا رہی ہے جس کی نہ بیوروکریسی سنتی ہے نہ تاجر، نہ عوام پولیس کا اپنا نظام متوازی حکومت کے طور پر نظام چل رہا ہے اچھی انتظامیہ سے یقینا فائدہ ہو گا۔
سوال: جب وزیراعلیٰ پنجاب کو مقرر کیا گیا تو اس وقت بھی ایک آواز اٹھی تھی کہ پرویز الٰہی جو پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں اگر انہیں پنجاب سونپ دیا جاتا تو وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر اس کو بہتر چلا سکتے تھے کیونکہ اس وقت ڈاکٹر، ٹینکر، تاجر ہوں گڈ گورننس کی ہر جگہ کمی ہے اور ہر دوسرا طبقہ اپنے مطالبات لے کر بیٹھا ہے۔ صوبائی حکومت اب تک نظم و نسق بہتر نہیں کر سکی۔ جیسے ڈاکٹروں کے معاملات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
جواب: مافیا ریاست کو چلنے نہیں دے رہا، مثال کے طور پر ڈاکٹر کام نہیں کرنا چاہتے تنخواہیں اور مراعات لینا چاہتے ہیں۔ غلط بیانی کی جا رہی ہے کہ این آئی ٹی کا جو قانون آیا ہے اس کے تحت جونیئر ہوں یا سینئر ہوں ڈاکٹروں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ آپ کی ریاست سے یا حکومت سے تنخواہیں نہیں ہے تو آپ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کریں گے یہ لوگ غریب مریضوں کو دیکھتے نہیں دوائیوں میں خورد برد ہوتی ہے پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں میڈیکل کالج کا ایک پروفیسر وہ چار کمروں کا کلینک چلا رہا ہے وہ اپنے وارڈ میں نہیں جاتا وہ اس تبدیلی کو روکنے کے لئے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ مافیا اپنے مفادات کے لئے پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیںوہ اتحادیوں کی محتاج ہے، ق لیگ، چودھری سرور، علیم خان کے معاملات کچھ اور ہیں مخلوط کمزور حکومت اس طرح کے مضبوط انداز میں معاملات سے نہیں نمٹ سکتی جس طرح کہ دو تہائی اکثریت والی حکومت نمٹا کرتی ہے۔ لیکن سارا بوجھ صوبائی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ میاں نوازشریف کے معاملے میں جو ہو رہا ہے کس طرح سے میڈیا، بیورو کریسی کس طرح سے قانون کے رکھوالے مدد کر رہے ہیں اور حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا موازنہ شہباز شریف یا پرویز الٰہی سے نہیں کیا جا سکتا جن کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور بیورو کریسی بھی ان کی بات مانتی تھی۔
سوال: فضل الرحمان کی آزادی مارچ اسلام آباد پہنچنے والا ہے وہ کیا مطالبہ کرنے والا ہے۔ کیا وہ عمران خان سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
جواب: فضل الرحمن کے مارچ کے مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں پہلا جو ان کا مقصد نظر آتا ہے کشمیر کے مسئلہ سے توجہ ہٹا دی جائے اور حکومت پاکستان کو مودی حکومت کے برابر لا کھڑا کیا جائے کہ وہاں بھی پابندی لگائی ہوئی ہیں اوریہاں بھی پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عمران حکومت کی کامیابی ہے کہ اس نے مارچ کو روکا نہیں ہے ورنہ مولانا نے کھل کر کہنا تھا کہ جس طرح حریت کانفرنس کو آزادی نہیں ہے اپنے مطالبات پیش کرنے کی ہمیں بی نہیں دی جا رہی کیونکہ نجی محفلوں میں وہ مکالمہ کرتے ہیں کہ جس طرح مودی نے کشمیر کا الحاق کیا ہے انڈیا کے ساتھ پاکستان بھی فاٹا کا انضمام کر چکی ہے وہ فاٹا اور کشمیر میں ایک مثال قائم کرتے ہیں اور پاکستان کی ریاست کو انڈیا کی ریاست سے اس کا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ تو عمران خان کی حکومت نے موقع نہیں دیا کہ وہ اس طرح کا پروپیگنڈا کر سکیں۔ فضل الرحمان کا مقصد دنیا کو باور کرانا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے آزادی نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ حکومت کر رہی ہے یہاں الیکشن اس کی مرضی سے ہوتے ہیں یہاں جمہوریت نہیں ہے۔ میڈیا کا ایک حصہ ان کی حمایت کر رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے۔ میری معلومات کے مطابق جتنے لوگ پنجاب میں داخل ہوئے تھے مولانا اتنے ہی لوگ لے کر نکلے ہیں اس میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہو گا۔ جو ان کو توقع تھی کہ لاہور پہنچنے پر چالیس پچاس ہزار لوگ شامل ہوں گے اور مسلم لیگ ن کے کارکن شامل ہوں گے۔ میرے رپورٹر بتا رہے ہیں کہ لاہور میں ڈیڑھ دو سو سے زیادہ کا قافلہ شامل نہیں ہوا۔ جو انہوں نے شہباز شریف یا ن لیگ کے خلاف بات چیت کی وہ میڈیا پر منظر عام پر نہیں آئی۔ وہ سخت تلخ تھی وہ بہت زیادہ گلہ تھا شکوہ تھا کہ مجھے مسلم لیگ ن نے دھوکہ دیا ہے ان کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ گویا شہباز شرییف نے انتظامیہ کو یہ تاثر دیا ہے کہ ہم فضل الرحمن کے ساتھ نہیں ہیں۔ اب ان کی توقعات خیبرپختونخوا سے ہیں۔ اگر وہ ایک لاکھ لوگ جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر وہ مطالبات عمران خان کے صرف استعفے کا مطالبہ نہیں کریں گے وہ ایک دو اور استعفے بھی مانگ سکتے ہیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کن کے استعفے ہو سکتے ہیں۔ ان کی تحریک یا مارچ عمران خان کے خلاف نہیں ہے۔ اس وقت جب پاکستان کی دونوں سرحدوں پر خطرات موجود ہیں اس طرح کی کارروائی کا مقصدسوائے اس کے اور نہیں ہے کہ انتشار پیدا کیا جائے اور سرحدوں کے محافظ لوگوں کو جتنا کمزور کیا جائے۔ جتنی کامیابی انہوں نے حاصل کر لی ہے اس سے زیادہ کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ مولانا سمجھدار ہیں لگتا نہیں ہے کہ عبدالرشید غازی، علامہ خادم رضوی یا طاہر القادری جیسی صورت حال پیدا کریں اگر پیدا کر دی۔ اگر خدانحواستہ کوئی صورتحال پیدا ک دی تو جمہوریت کا مستقبل محفوظ نہیں رہے گا۔
سوال: مارچ کی کوریج کیلئے جانے والے خبریں، چینل۵ کے رپورٹروں کو مولانا کے جوشیلے کارکنوں نے پکڑ لیا اور موبائل و دیگر سامان چھین لیا پولیس نے بڑی مشکل سے چیزیں واپس دلائیں، میرے نام ایک پیغام بھیجا کہ آپ کے شام کے اخبار میں فواد چودھری کی خبر چھاپی گئی جو ہمارے خلاف تھی۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت ان کے نزدیک کیا ہے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف ایک لفظ نہ چھپے کیا اب یہی آزادی صحافت کا مطلب ان لوگوں سے سیکھنا ہو گا؟
جواب: ان مذہبی کارکنوںکے نزدیک آزادی اظہار صرف اس حد تک جائز ہے جسے یہ ٹھیک سمجھتے ہیں ہماری سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی ایسا ہی ہے تاہم مذہبی جماعتیں تو میڈیاکو جعلی اور فحاشی کے فروغ دینے والا سمجھتی ہیں اس لئے میڈیا کے ساتھ ان کا رویہ قابل فہم ہے، مولانا کے پیروکار بھی اس فکر کے ہیں جو فکر جامعہ حفصہ یا تحریک طالبان کی ہے۔ میڈیا کے بعض لوگ جو اس وقت مولانا پر فریفتہ ہو رہے ہیں کہ مارچ سے نوازشریف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے انہیں ابھی اندازہ نہیں کہ مولانا کی جماعت اگر طاقت پکڑتی ہے تو میڈیا کے لئے خطرات کتنے بڑھ جائیں گے۔ مارچ کراچی سے اسلام آباد پہنچ گیا مگر اس میں عام آدمی جو مہنگائی، بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہونے کے باوجود ساتھ نہیں چلا عوام کی مارچ میں شرکت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، صرف مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور کارکن مولانا کے ساتھ ہیں۔ میڈیا کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرح ایک ایسے عفریت کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہمارا گلا دبوچ لے۔
س: اسلام آباد میں مارچ شرکا کی تعداد بڑھ گئی تو وہ آگے بھی جا سکتے ہیں کیونکہ افرادی طاقت فیصلے تبدیل کرا دیتی ہے کیا مولانا حکومت کے کئے معاہدے پر قائم رہیں گے؟
جواب:ایسا امکان موجود ہے تاہم مولانا کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار نہیں کریں گے جبکہ وہ نتائج سے بھی باخبر ہیں، ریاست یا حکومت اتنی کمزور نہیں ہے کہ فساد پر قابو نہ پا سکے، مولانا نے ٹکراﺅ کی سیاست کبھی نہیں کی مولانا نے ایک اہم شخصیت کو پیغام بھیجا تھا کہ جب آپ کے خلاف ن لیگ اور مولانا ساجد میر ایک مخصوص پروپیگنڈا کیا تھا تو ہم سے بھی رابطے کئے گئے مگر میں نے اپنے ساتتھی علماءکو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ مولانا اگر اسلام آباد میں دو تین دن لوگوں کو بٹھائیں گے بھی تو اگلی تاریخ دے کر پرامن طور پر اٹھ جائیں گے۔ مولانا اپنی طاقت شو کر چکے ہیں وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ظاہر کر چکے ہیں اب وہ سیاسی بارگیننگ کی کوشش کریں گے اور انتشار کا راستہ نہیں اپنائیں گے تاہم پاکستان میں کوئی سیاسی پیش گوئی ممکن نہیں تاہم میرے نزدیک بہتری ہی ہو گی۔
سوال: کیا مولانا وزیراعظم سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوں گے اگر یہی کام شروع ہو گیا کہ کوئی بھی افرادی طاقت لے کر اسلام آباد پہنچے اور حکومت کو ختم کر دے تو کیا ایسے چل سکتا ہے؟
ج: مولانا دو یا تین استعفوں کا مطالبہ کریں گے، میرے نزدیک صرف ایک اجتماع کے زور پر وہ وزیراعظم تو کیا کسی وزیر کا بھی استعفیٰ نہیں لے سکتے۔
سوال: بڑی تعداد میں لوگوں کی کراچی سے لے کر اسلام آباد تک پرامن لے جانے پر مولانا کو مبارکباد دی جا سکتی ہے؟
جواب: مولانا کو کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے دکھا دیا کہ وہ پی پی ن لیگ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر لا سکتے ہیں اور انہیں پرامن بھی رکھ سکتے ہیں۔ حکومت کا بھی کریڈٹ ہے کہیں بھی ان لوگوں کو روکا نہیں گیا۔ ن لیگ، میڈیا کے بعض لوگ اورغیر ملکی طاقتیں توڑ پھوڑ چاہتی ہیں، مولانا کو اکسایا بھی جا رہا ہے۔
سوال: حکومت کی اس بات میں کتنا سچ ہے کہ مہنگائی کی صورتحال چند ماہ میں تبدیل ہو جائے گی؟
جواب: معاشی بحران ماضی کی حکومتوں کا شاخسانہ ہے، مافیاز بھی حکومت کو ناکام بنانے پر تلے ہیں۔ بحران حقیقی نہیں مصنوعی ہے، دھرنا پرامن طور پر منتشر ہو جاتا ہے اور ن لیگ کی اس سے اُمیدیں دم توڑتی ہیں تو معیشت بہتری کی جانب جائے گی۔ بیورو کریسی کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ حکومت جانے والی نہیں ہے اس لئے کام کرے گی زرداری اورنواز کی کرپٹ حکومت پانچ سال پورے کرتی ہے تو عمران خان کا کیا قصور ہے کہ صرف ایک سال بعد ہی مہنگائی کا بہانہ بنا کر ہٹا دیا جائے۔ سو فیصد یقین ہے کہ گومگو کی کیفیت ختم ہو گی تو معیشت بھی بہتری کی طرف جائے گی۔ معاشی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ ملک بہتری کی جانب گامزن ہے ماضی کا گند صاف ہو رہا ہے۔