تازہ تر ین

عمران اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں استعفی کسی صورت نہیں دینگے،جاوید چودھری

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف صحافی،تجزیہ کار،اکالم نگار و اینکرپرسن جاوید چودھری کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی گفتگو قارئین کی لچسپی کے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے:
ضیا شاہد: نوازشریف کے بیرون ملک علاج اور آزادی مارچ میں دھرنا تو ختم ہو گیا۔ آزادی مارچ کے فیز ٹو میں سڑکوں، شاہراہوں کو روکا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ جنوری میں حکومت ختم ہو جائے گی۔ خواہ عمران خان ہوں جو نوازشریف کے دور میں دھرنا دیا تھا خواہ مولانا فضل الرحمان ہوں جنہوں نے ایک چھوٹا سا دھرنا دیا کیا بہت سے لوگوں کو جمع کر کے اسلام آباد جانا اور پھر وہاں ان کی وجہ سے دباﺅ ڈالنا کہ وزیراعظم کو استعفا دے دینا چاہئے۔ کیا یہ سیاسی آئینی اور اخلاقی طور پر درستاقدام ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلا اور کل کلاں اگر فصل الرحمان وزیراعظم ہوئے تو کوئی نہ کوئی تو ایسے لوگ ہوں گے ان کے خلاف لوگ مجمع کے اسلام آباد سے جا سکیں گے تو پھر کس طرح سے ہمارے ملک میں حکومتیں چلیں گی۔
جاوید چودھری: دھرنوں کے ذریعے حکومتوں کو نہیں جانا چاہئے جب دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو جائے تو ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا پھر چوتھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے تو بالآخر ملک ٹوٹ جاتے ہیں کیونکہ پاکستان کی تاریخ اور دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی اس قسم کی صورت حال ہوتی ہے تو ملک کمزور ہوتے ہیں سسٹم کمزور ہوتے ہیں اور ملک نہیں چل پاتے۔ جب عمران خان صاحب نے2014ءمیں عمران خان اسلام آباد آئے تھے تو میں اس وقت ان کے خلاف تھا اور اب مولانا نے جو دھرنا دیا ہے میں اسے اخلاقی طور پر غلط سمجھتا ہوں۔ مولانا نے جو دھرنا دیا اور بی پلان پر چلے گئے اور اب سڑکیں بند کرنا شروع کر دیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وہ بی پلان تک نہیں رہیں گی یہ ڈی پلان تک ہے سب سے پہلے اے پلان تھا کہ انہوں نے دھرنا دیا تھا چھوٹا سا شو کیا تھا جس سے حکومت یقینا کمزور ہوتی ہے اور اب گورنمنٹ کے جو اتحادی ہیں فاصلے پر چلے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ق لیگ ان سے دو اور وزارتیں مانگ رہی ہے پرائم منسٹر صاحب سے جو وزیراعظم ان کو سردست نہیں دے رہے۔ اگر یہ وزارتیں ان کو نہیں دیتے تو چودھری صاحبان یہاں حکومت سے ٹوٹ کر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ چلے جائیں گے اسی طرح ایم کیو ایم بھی ایک نئی وزارت ان سے مانگ رہی ہے اور حکومت ان کو ایڈجسٹ نہیں کرتی تو یہ بھی ان سے الگ ہو جائیں گے اختر مینگل صاحب سے حکومت نے ایک معاہدہ کیا ہوا تھا۔ 6 نکاتی ایجنڈا تھا جو 2018ءمیں عمران خان نے ان کے ساتھ کیا تھا اگست 2019ءکا وقت دیا تھا وہ وقت گزر چکا ہے اور اب وہ بھی ان پر پریشر ڈال رہے ہیں۔ جی ڈی اے کے ساتھ بھی ان کا ایک معاہدہ تھا جی ڈی اے کی طرف سے بھی ان پر پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے حکومت اس دھرنے کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے جو مولانا کا پہلا شو تھا۔ اب اگر حکومت نے اپنے تمام اتحادیوں کو خوش نہیں کرتی اور ڈیمانڈ پوری نہیں کرتی تو یہ اتحادی ان سے ٹوٹنا شروع کر دیں گے۔
سوال: فضل الرحمان نے اسلام آباد آ کر سب سے پہلی بات یہ کہی تھی کہ ان کے خیال میں عمران خان تو صرف ایک مہرہ ہیں ان کی اصل قوت جو عمران خان کے پیچھے ہے اس قوت کو وہ چاہتے ہیں کہ اس قوت سے یہ شورٹی لی جائے کہ وہ آئندہ الیکشن میں مداخلت نہیں کرے گی اور پاکستان میں ہر دور میں یہ کہا جاتا رہا کہ الیکشن میں لاءاینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لئے فوج کی نگرانی میں انتخابات ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ ایک نئی بات مولانا فضل الرحمان نے کہی۔ صرف انہوں نے ہی نہیں بلکہ پھر بہاول پور میں بلاول بھٹو زرداری صاحب نے بھی یہ کہا کہ آئندہ الیکشن میں فوج کو کسی قیمت پر مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور ان کو انتظامات کے لئے بھی نہیں بلانا چاہئے ایسے الیکشنز ہونے چاہئیں کہ جس میں فوج کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ آپ یہ فرمایئے کہ کیا پاکستان میں یہ بات قابل عمل ہے اور کیا فوج جو سول انتظامیہ کی مدد کے لئے آتی ہے۔ اسے آئندہ نہ بلایا جائے۔
جواب: انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے فوج کو جب بھی بلواتا ہے تو الیکشن کمیشن بلواتا ہے۔ الیکشن قریب آتے ہیں تو چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے فوج کو بلوایا جاتا ہے اور فوج اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے اور سپریم کورٹ کہتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا 2013ءمیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے آرڈر پر فوج آئی تھی اور اس کے بعد 2018ءکے الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر کے کہنے پر فوج آئی تھی۔ یا تو انتخابی اصلاحات کریں اور مکمل طور پر سسٹم کو بدل دیں اور سسٹم میں فیصلہ کر لیں کہ نہ الیکشن کمیشن بلوائے گا اور نہ سپریم کورٹ آف پاکستان بلوائے گی اور یہ الیکشن ایک مختلف طریقے سے ہوں گی ظاہر ہے اس کے لئے الیکٹورل ریفارمز کرنا پڑیں گی۔ نیا قانون آپ کو پاس کرنا پڑے گا اس کے لئے آپ کو دو تہائی اکثریت چاہئے جب تک ساری پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھیں گی یہ نہیں ہو سکے گا اور سردست یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ایک بات میری رہ گئی تھی کہ مولانا نے پہلے اے پلان کے مطابق جمعہ کا دھرنا دیا تھا اور سی پلان میں یہ پورے ضلعوں تک جائیں گے۔ ضلعوں کی حد تک سڑکیں بند کریں گے اور پھر ان کا ایک ڈی پلان ہے جس میں یہ دوبارہ واپس آ کر ڈی چوک تک جانا چاہتے ہیں اب یہ مولانا کا اپنا خیال ہے اور یہ وہ پلان ہے جو رہبر کمیٹی کے اندر ڈسکس بھی ہوا تھا اور یہ دو اڑھائی ماہ کے لئے مولانا نے سپیس لی ہے جس میں وہ اپنے آپ تیار کر کے اسلام آباد کی طرف موو کریں گے اس دوران چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی نے ان کو ایک عندیہ بھی دیا ہے جو بڑا دلچسپ ہے، انہوں نے مولانا سے کہا ہے کہ اگر آپ اپنی بلوچستان میں حکومت بنانا چاہتے ہیں تو وفاقی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اگر آنے والے دنوں میں یہ بات ہو جاتی ہے تو وہاں بلوچستان میں مولانا کی حکومت بن جاتی ہے تو سارا منظر نامہ تبدیل ہو گا۔ اگر وہاں یہ حکومت تبدیل نہیں ہوتی اور وہاں بلوچستتان میں مولانا کی حکومت نہیں بنتی تو پھر اس کے بعد آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ پھر منظر نامہ کیا ہو گا۔ لیکن یہ سب ذہن میں رکھئے کہ اگلے جنوری یا فروری یا مارچ میں مولانا واپس اائیں گے تو پاکستان کی دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں بھرپور ساتھ دیں گے وہ ان کے کنٹینر کے ساتھ آئیں گے اور ان کے ورکرز بھی آئیں گے۔ وہ ایک حتمی حملہ ہو گا اسلام آباد کے اوپر لیکن میں اس کے بھی خلاف ہوں۔
سوال: مولانا فضل الرحمان عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہتے ہیں الیکٹڈ نہیں مانتے۔ کیا عمران خان نے الیکشن نہیں جیتا۔ کیا وہ انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار نہیں آئے۔
جواب: اس میں دو آراءہیں۔ ایک تو ساری بڑی پارٹیاں ہیں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ہے۔ الیکشن سے قبل جو ان کے الیکٹ ایبل جب ٹوٹ کر ان کی پارٹی میں آئے۔ تو اس سے ایک نئی پارٹی بنی جس کو ہم کنگز پارٹی کہہ سکتے ہیں۔ اگر پارٹی یہ لوگ نکال دیئے جائیں تو پھر الیکٹ ایبلز کم ہو جاتے ہیں عمران خان کے پاس۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے یہ سلیکٹڈ ہیں۔ تمام پارٹیوں سے لوگ لے کر جو ایک سلیکشن کے کھاتے میں ڈال کر سلیکٹ کیا گیا۔ دوسرا تمام سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے جس میں اپوزیشن کی ساری پارٹیاں شامل ہیں کہ وہ ووٹ کے اندر بھی گڑ بڑ ہوئی ہے الیکشن میں پولنگ کے دوران بھی گڑ بڑ ہوئی ہے۔ پولنگ کے دن بھی گڑ بڑ ہوئی ہے ان سب کو ملا کر اپوزیشن کا خیال یہ ہے کہ یہ الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہیں۔ اس بارے میں کمیشن بنے گا انکوائری کرے گا تو ضیا صاحب پھر ہی فیصلہ ہو سکتا ہے کہ الیکٹڈ ہیں یا سلیکٹڈ ہیں لیکن حقیقت ہے کہ وہ پرام منسٹر آف پاکستان میں۔ وہ پاکستان جو دنیا کی ساتویں بڑی جوہری قوت ہے پہلی اسلامی جوہری طاقت ہیں اس کے وزیراعظم ہیں اور ساری پارٹیاں ان کو تسلیم کرتی ہیں۔
سوال: پلان بی میں سڑکوں کی بندش سے کوئی ناخوشگوار صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
جواب: میری ذاتی رائے یہ ہے کہ سڑکیں بند نہیں ہونی چاہئیں۔ کسی کو حق نہیں ہونا چاہئے کہ عام لوگوں کی زندگی عذاب میں تبدیل کر دے۔ مولانا بہت سمارٹلی کھیل رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں وہ ایمبولینس کو راستے دیتے ہیں سکول کے بچے جا رہے ہوتے ہیں ان کو اجازت دے دیتے ہیں۔ کوئی عام شہریوں کو نہیں روکتے وہ بڑی بسوں ٹرکوں اور گورنمنٹ کی گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور آنے والے دنوں میں فوکس کر دیں گے کہ تجارتی سڑکیں بند کر دیں۔ سپلائی بند کر دیں اور گورنمنٹکی گاڑیوں کو جانے کی اجازتت نہ دی جائے۔ ان کو معلوم ہے کہ عام آدمی کو تکلیف ہو گی تو ان کی مقبولیت کم ہو گی۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک ایک دن چھوڑ کر ہڑتال کریں گے۔ لیکن جب یہ سی اور ڈی کی طرف بڑھیں گے تو اس وقت یہ سڑکیں بند کرنے کی کوشش کریں گے کہ جونہی بچوں کے امتحان ختم ہو جائیں گے تو ان چھٹیوں کے دوران یہ ساری سڑکیں بند کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک بات جو مجھے ہانٹ کر رہی ہے کہ مولانا شاید کبھی پرائم منسٹر نہ بن سکیں کیونکہ جو سیاسی قوتیں ہیں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی ہماری اسٹیبلشمنٹ کبھی رسک نہیں لیں گی کہ کسی نہ ہی سیاسی جماعت کو اقتدار دے دیا جائے۔ اس کے پاکستان کا جو امیج ہے وہ دنیا میں ڈسٹرب ہو جائے گا۔ یہ ایک کے طور پر بھی مولانا بہت استعمال ہوں گے۔ اس پوری حکومت کو نکالنا اور نئی حکومت کو لے کر آنا اور نئے الیکشن کروانا۔ اس میں ان کا بہتت بڑا کردار ہو گا۔ کیا یہ گورنمنٹ بھی بنا سکیں گے۔ یہ نہیں بنا سکیں۔ ہو سکتا ہے بلوچستان اور کے پی کے میں ان کی حکومت بن جائے، لیکن مولانا وفاق میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
سوال: کیا سڑکوں کی بندش کی پالیسی کامیاب ہو جائے تو ملک میں منتخب وزیراعظم واقعی مجبور ہو جائے گا کہ وہ استعفیٰ دے دے۔
جواب: حکومت کے 3 ایشوز ہیں۔ ایک تو وہ ڈلیور نہیں کرپا رہے۔ پرفارمنس کمزور ہے یا معیار پر پورے نہیں اترے۔ دوسراگورنمنٹ کی رٹ نہیں ہے پولیس، سول انتظامیہ، بیوروکریٹس ان کی بات نہیں مان رہے اور اب بھی اگر یہ مولانا کو روکنا چاہیں گے تو میرا نہیں خیال کہ پولیس یاسول انتظامیہ ان کے ساتھ دے گی وہ نیوٹرل رہے گا جب گورنمنٹ کی رٹ اپنی نہیں ہے وہ کسی کو کہہ نہیں سکتے تو ان کے آرڈر مانے نہیں جاتے۔ اگر واقعی مولانا فضل الرحمن سڑکوں کو وقتی جام کر دیتے ہیں آپ خود سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں مل کر حکومت کو بہت زیادہ نقصان پہنچائیں گی۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہووا ہے کہ سول حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ جو ہے وہ دونوں ایک پیج پر ہیں لیکن کیا کرنے والے دنوں میں بھی ایک پیچ پر رہ سکیں گے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اگر سول بیورو کریسی ان کی بات نہیں مانتی یا پھر یہ حکومت پر پرفارم نہیں کر پاتی یا پھر سڑکوں پر لوگ بیٹھ جاتی ہے تو شاید اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا پڑے کہ ہمیں ملک بچانا یا پھر اس حکومت کو بچانا ہے۔کیونکہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان آنے والے ایک دو ماہ میں پیدا ہو جائے گا اس وقت حکومت مزید کمزور ہو جائے گی اور حکومت کے پاس استعفیٰ دینے کے یا سرنڈر کرنے کے اور کوئی آپشن نہیں بچے گا۔
سوال: چودھری برادران نے دھرنا ختم کرانے میں خاص کردار ادا کیا، پرویز الٰہی کا انٹرویو سنا کہ مولانا کو یقین دلایا کہ استعفے سے ملتی جلتی چیز انہیں مل جائے گی یہ کیا آپشن ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے مولانا دھرنا ختم کر کے پلان بی پر آ گئے؟
جواب: وہ چیز تو نئے الیکشن ہی ہو سکتے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ملک مڈ ٹرم الیکشن کی جانب جا رہا ہے۔ حکومت اگر کارکردگی میں بہری لی آتی ہے تو الیکشن نہیں ہوں گے، دباﺅ میںرہی تو الیکشن کی طرف ملک جا سکتا ہے۔
سوال: چودھری برادران کیا عمران خان کو بھی نئے الیکشن پر قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیا عمران خان اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں گے؟
جواب: تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس بڑا سوالیہ نشان ہے وہ اس میں کمزور ہے اگر اس کیس کا فیصلہ آ جاتا ہے تو ملک نئے الیکشن کی جانب جائے گا۔ عمران خان کے ایک یا دو اتحادی ہیں ساتھ چھوڑ گئے تو حکومت ختم ہو جائے گی اس لئے انہیں منانے کی ضرورت ہی نہیں صرف اتحادیوں کو قائل کرنے کی کوشش ہو گی۔ حکومت اور اتحادیوں میں شورٹی بانڈ پر ہی اختلافات نظر آنا شروع ہو گئے۔ عمران خان نے مولانا سے بیک ڈور کوئی وعدہ کیا ہے تو وہ پوراا نہ ہونے کی صورت میں چودھری ان کا ساتھ چھوڑ کر مولانا کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اس صورت میں نیا الیکشن ہی آپشن رہ جائے گا۔
سوال: کیا حکومت سوال بعد ہی نئے الیکشن کیلئے تیار ہو جائے گی؟
جواب: عمران خان کی شحصیت ایسی ہے کہ اگر انہیں دھکیلا گیا تو وہ استعفے دینے سے پہلے اسمبلیاں توڑ دیں گے وہ کسی کو یہ موقع نہیں دیں گے کہ صرف وزیراعظم تبدیل ہو اور قومی حکومت بنائی جائے، وہ کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ایک آپشن اور ہے کہ اگر بلوچستان میں اتحادی حکومت ٹوٹ جاتی ہے اور مولانا کی حکومت بن جاتی ہے، پنجاب میں ن لیگ دیگر جماعتوں سے لے کر حکومت بنا لیتی ہے، سندھ میں پی پی اور کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت رہتی ہے تو اس صورت میں وفاقی حکومت پانچ سال پورے کر سکتی ہے۔
سوال: تحریک انصاف نے اقتدار سے قبل ایک کروڑ ملازمتیں 50 لاکھ گھر بنانے کا وعہ کیا کرپشن ختم اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی بات کی تاہم اس وقت معاشی حالات پہلے سے زیادہ خراب نظر آتے ہیں اس کی وجہ بہتر معاشی ٹیم نہ ہونا ہے یا ترجیحات درست نہ ہونا؟
جواب: حکومت کے چار بڑے مسئلے ہیں ناتجربہ کاری، مفروضات پر چلنا، غلط آدمیوں کی تعیناتی اور ان کے وزرائ، ارکان اسمبلی کا تکبر ہے۔ انہی وجوہات کے باعث پورا سسٹم ہائی جیک ہے۔
سوال: حکومت لانے میں میڈیا نے بڑا کردار ادا کیا تاہم حکومت کے میڈیا کے ساتھ طرز عمل کے باعث مسائل میں اضافہ ہوا، حکومت روٹین کا خرچ بھی نہیں کر رہی جس کے باعث حالات خراب ہیں اخبارات کے اییشن بند، سٹاف میں کمی ہو رہی ہے ایک خوفناک بحران کا سامنا ہے، ان مسائل کا حل کیسے ہو سکتا ہے؟
جواب: ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ پچھلے ادوار میں پرویز مشرف اور شوکت عزیز کا دور سب سے زیادہ خوشحالی کا تھا وجہ یہ تھا کہ اس دور میں رئیل سٹیٹ، ٹیلی کام اور میڈیا کو بہت ترقی دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی پہیہ چلا اور اس سے عام آدمی کو بھی فائدہ ملا۔ موجودہ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اس نے ان تینوں معاشی پہیہوں کو روک دیا جس سے معیشت خرابہوئی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ عمران خان معیشت کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ان تینوں شعبوں کو دوبارہ چلائیں معاشی پالیسیاں تبدیل کریں۔ اگلے 3 ماہ بعد مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا جو عوام کو شدید تکلیف میں مبتلا کر دے گا۔ حکومت اس پر غور بھی کر رہی ہے۔
سوال: کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اصل اپوزیشن لیڈر ہیں، پی پی ن لیگ نے ان کے جلسوں میں تقاریر تو کیں مگر افرادی قوت مہیا نہیں کی آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: مولانا نے متحرک ہو کر اپوزیشن لیڈر کی خالی جگہ کوپر کیا۔ پی پی، ن لییگ کو خطرہ تھا کہ دھرنے کے جواب میں مارشل لا لگ سکتا ہے اس لئے کھل کر ساتھ نہ دیا تاہم خود اس ماارچ میں مولانا دوبارہ اسلام آباد اائیں گے تو اپوزیشن جماعتوں کے دشات ایسے نہیں ہوںگے اور وہ کھل کر ساتھ دیں گے۔ مولانا خود بھی آگاہ ہی ںکہ ان کی سیاسی پارٹی اتنی بڑی نہیں کہ حکومت بنا لے یا اپوزیشن لیڈر چن لے۔
سوال: نوازشریف بیرون ملک چلے گئے ایسی اجازت کبھی کسی قیدی کو نہیں ملی۔ کیا آپ عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہیں؟
جواب: نوازشریف واقعی بیمار ہیں یہاں ان کے مرض کا علاج ممکن نہ تھا اس لئے بیرون ملک بھیجنے کا ٹھیک فیصلہ کیا گیا۔ حکومت یا نیب ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھے اس لئے شیورٹی بانڈ کی سمارٹ چال چلی اور معاملہ کورٹ میں چلا گیا۔ عدلیہ نے ذمہ داری لی اور نوازشریف باہر چلے گئے۔
سوال: اگلے الیکشن کتنی مدت میں ممکن ہیں؟
جواب: حکومت کے اتحادی ساتھ دیں تو وہ مدت پوری کرے گی وہ ساتھ نہ دے تو اگلا سال الیکشن کا ہو گا۔
سوال: بلدیاتی ادارے غیر فعال ہیں، صوبائی حکومتیں مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہیں مہنگائی کا خاتمہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
جواب: اصل ایشو مہنگائی نہیں عوام کی قوت خرید ہوتا ہے، حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث عوام کی قوت خرید اتنی کم ہے کہ روزمرہ کی اشیا خورونوش بھی خریدنے سے قاصر ہیں۔ حکومت مہنگائی پر شور مچانے کے بجائے روزگار کے سلسلے بڑھائے، معاشی سرگرمیاں بحال کرے اس سے لوگوں کی قوت خرید بڑھے گی اور مسائل حل ہوں گے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv