ویوو کا پہلا گیمنگ فون متعارف کرادیا گیا

لاہور( ویب ڈیسک ) چین کی کمپنی ویوو کے سب برانڈ آئی کیو او او نے اپنا گیمنگ اسمارٹ فون متعارف کرادیا ہے۔ویوو آئی کیو او او میں اسنیپ ڈراگون 855 پراسیسر دیا گیا ہے جبکہ 6 سے 8 جی بی ریم اور 128 سے 256 جی بی اسٹوریج کے آپشنز بھی موجود ہیں۔مگر ایک ورڑن 12 جی بی ریم اور 256 جی بی اسٹوریج کے ساتھ ہے اور کمپنی نے فون میں تھری ڈی گلاس باڈی دی ہے جبکہ بیک کور میں ورٹیکل ایل ای ڈی پٹی موجود ہے جو درمیان میں جگمگاتی ہے۔6.41 انچ کے ڈسپلے میں 2340×1080 پکسل ریزولوشن دیا گیا ہے جبکہ واٹر ڈراپ نوچ بھی اسکرین پر موجود ہے۔اس ڈیوائس میں فنگرپرنٹ سنسر اسکرین کے اندر دیا گیا ہے۔فون میں بیک پر 3 کیمروں کا سیٹ ایپ ہے جس میں مین کیمرا 12 میگا پکسل، دوسرا 12 میگا پکسل وائیڈ اینگل کیمرا جبکہ تیسرا 2 میگا پکسل ڈیپتھ سنسر ہے۔فرنٹ پر 12 میگا پکسل کیمرا دیا گیا ہے۔فون میں 4000 ایم اے ایچ بیٹری دی گئی ہے جو کہ 44 واٹ سپر فلیش چارجنگ سپورٹ دی گئی ہے اور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈیوائس 45 منٹ میں مکمل چارج ہوجاتی ہے۔مگر یہ سپورٹ 6 جی بی ریم والے ورڑن میں موجود نہیں۔فون میں سپر لیکوئیڈ کولنگ ٹیکنالوجی اور ویپر چیمبر دیا گیا ہے تاکہ دیر تک گیمز کھیلنے پر بھی فون گرم نہ ہو۔فون میں میوٹی ٹربو نامی گیمنگ فیچر بھی موجود ہے جو کہ گیمنگ کے تجربے کو بہتر بناتا ہے۔

کھانسی سے نجات دلانے میں مددگار مزیدار سوغات

لاہور (ویب ڈیسک ) دائمی کھانسی سے نجات پانا کوئی آسان کام نہیں خصوصاً اگر آپ ڈاکٹر کے پاس جانے سے بچنا چاہتے ہیں۔مگر اچھی بات یہ ہے کہ کھانسی کا ایک قدرتی علاج ایسا ہے جس کو کھانا ہر ایک پسند کرتا ہے اور ایسا زیادہ خرچہ بھی نہیں ہوتا بلکہ یہ اکثر کھانسی پر قابو پانے کے لیے استعمال ہونے والے سیرپ سے زیادہ بہتر کام کرتا ہے۔اور وہ کرشماتی سوغات ہے چاکلیٹ۔جی ہاں چاکلیٹ، اسے اچھی طرح چبا کر کھانا کھانسی سے ریلیف فراہم کرتا ہے اور کسی دوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔طبی ماہرین بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ چاکلیٹ کھانسی کو دبانے میں سیرپ سے زیاہد بہتر ثابت ہوسکتی ہے۔ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس میٹھی سوغات کے استعمال سے کھانسی کی تکلیف میں کمی محض 2 دن میں ممکن ہوگئی۔کھانسی کے اس علاج کے پیچھے 2 وجوہات ہیں، کوکا میں قدرتی طور پر ایک جز theobromine موجود ہوتا ہے جو کہ دائمی کھانسی پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔دوسری وجہ چاکلیٹ کی ساخت ہے، جسے کھانے پر گلے میں ایک چپکنے والی کوٹنگ بن جاتی ہے جو کہ ان اعصاب کو تحفظ فراہم کرتی ہے جو کھانسی کا باعث بنتے ہیں۔امپرئیل کالج لندن کی ایک تحقیق کے مطابق کھانسی ایسا طبی عارضہ ہے جو ہر ایک کو ہی پریشان کرتا ہے اور اس کا کوئی موثر علاج ابھی موجود نہیں۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ضروری نہیں کہ مسلسل کھانسی بہت زیادہ نقصان دہ ہو مگر اس سے زندگی کا معیار متاثر ہوتا ہے اور چاکلیٹ کو اس کے علاج کے طور پر دریافت کرنا اس مسئلے پر قابو پانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔

دانتوں پر ایسے نشانات اس مرض کی نشانی ہوسکتی ہے

لاہور( ویب ڈیسک ) امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن کے مطابق آپ کا منہ آپ کی صحت کی کھڑکی ہوتا ہے۔جیسے مسوڑوں کے امراض اور دل کے مسائل، منہ کی ناقص صحت اور الزائمر کے درمیان تعلق موجود ہے مگر اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ دانتوں کی رنگت اڑ جانا نظام ہاضمہ کے سنگین مرض کی نشانی بھی ہوسکتی ہے۔مرض شکم دنیا بھر کے ایک فیصد افراد کو لاحق ہوتا ہے اور یہ ایسا آٹو امیون مرض ہے جس کے شکار افراد گندم اور جو میں موجود ایک پروٹین گلوٹین کو برداشت نہیں کرپاتے، جس پر قوت مدافعت حرکت میں آجاتی ہے۔وقت کے ساتھ یہ ردعمل چھوٹی آنت میں معدے کی ساخت کو تباہ کرسکتا ہے اور جسم کے لیے اہم غذائی اجزا جیسے کیلشیئم جذب کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔کیلشیئم کے جذب نہ ہونے پر دانتوں کی سطح عجیب رنگت کی ہوجاتی ہے جیسے سفید، زرد یا بھورے دھبے دانتوں پر نمودار ہوجاتے ہیں۔مرض شکم کے شکار 40 سے 50 فیصد افراد میں یہ علامت سامنے آتی ہے اور ماہرین طب فی الحال اس کی اصل وجہ پر متفق نہیں مگر یہ خیال کی جاتا ہے، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب جسم کیلشیئم جذب کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔تو دانتوں پر اگر سفید یا کسی رنگ کے دھبے بغیر کسی وجہ کے ابھر آئیں تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔دانتوں سے ہٹ کر ایسے مریضوں میں ہیضے، پیٹ پھولنے، سینے میں جلن، تھکاوٹ اور جوڑوں کے درد جیسی شکایت بھی سامنے آسکتی ہیں۔

صرف ایک طالب علم کےلیے بند اسکول دوبارہ کھولنے کا فیصلہ

لاہور( ویب ڈیسک ) امریکا سے ایک دلچسپ خبر آئی ہے جہاں صرف ایک طالبعلم کے لیے متروک اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گھر کے قریب ترین جو سرگرم اسکول ہے وہاں تک کار سے پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ پھرسردیوں میں وہاں راستہ شدید دشوار گزار ہوجاتا ہے۔ ان خوفناک راستوں پر ایک بچے کا سفر تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔اسی بنا پر امریکا کے دوردراز علاقے وایومِنگ میں ایک کے جی اسکول کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اسے چلانے کے لیے سالانہ ایک لاکھ ڈالر خرچ ہوں گے۔ لیکن یہ سوا کروڑ روپے کی خطیر رقم صرف ایک بچے کے لیے خرچ کی جائے گی۔وایومِنگ کا قانون ہے کہ اگر اکا دکا بچے بھی دوردراز علاقے میں رہتے ہوں تو ان کے لیے وہاں اسکول بنانا ضروری ہوجاتا ہے۔ سی این این کے مطابق اب البانی کاو¿نٹی اسکول ڈسٹرکٹ نمبر ایک نے ایک منصوبہ درخواست کے ساتھ تیار کیا ہے جسے وایومنگ کے محکمہ تعلیم میں جمع کرایا جائے گا۔ اسکول کا نام کوزی ہولو ایلمینٹری اسکول ہے جو دس سال تک چلتا رہا تھا لیکن پھر طلباوطالبات نہ ہونے کی وجہ سے اسے بند کرنا پڑگیا تھا۔ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس کے اخراجات کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ ایک استاد، سامان، اسکول کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے ایک سال میں ایک لاکھ ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ پہلے ایک بچے کا داخلہ متوقع ہے اور اس کے بعد ایک اور بچہ اس کنڈگارٹن کی عمر کو پہنچ جائے گا اور اسطرح اسکول میں دو طالبعلم ہوجائیں گے۔

ارب پتیوں کے عالی شان محلات

لاہور( ویب ڈیسک ) اکیسویں صدی کو دنیا کے ارب اور کھرب پتیوں کی صدی کہا جاتا ہے۔ پچھلے ایک سو سال میں سامنے آنے والے امرائ اور دولت مندوں کے بارے میں ماضی میں بھی ذرائع ابلاغ میں تذکرے ہوتے رہے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ چونکہ کھرب پتیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔اسی لیے عالمی میڈیا کی توجہ بھی ان کے نت نئے زندگی کے ڈھنگ اور مسلسل بدلتے لائف سٹائل پر مرکوز رہنے لگی ہے۔ امرائ زمانہ قدیم سے عام? الناس سے منفرد طرز زندگی اپناتے رہے ہیں، لیکن قدیم دور میں دولت کے ارتکاز میں عوام الناس نہیں بلکہ صرف ملکوں کے بادشاہ یا ان کے نورتن ہو ا کرتے تھے۔ بادشاہوں کے ٹھاٹھ باٹھ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں۔ مثلاً ایران کی قدیم سلطنت کو دنیا کی امیر ترین اور کیسرائے ایران کو امرائ میں اولین مقام حاصل رہا ہے۔ بادشاہوں کے محلات کی تیاری میں سونے،چاندی اور گراں قیمت ہیرے اور جواہرات جڑے جاتے اور محل کی ایک ایک اینٹ کی قیمت باقی ماندہ ا?بادی کے کل وسائل سے زیادہ قیمتی ہوتی تھی۔د±نیا میں جیسے جیسے بادشاہی نظام اور انسانوں کی انسانوں پرحکمرانی ختم ہوئی تو دولت عام لوگوں تک بھی پہنچنے لگی۔ ایک رپورٹ کے مطابق عوام میں ارب پتی تو اب پیدا ہونے لگے ہیں لیکن کروڑ پتی ہر دور میں رہے ہیں۔ یہ وہ طبقہ امرائ ہوتا تھا جو بادشاہ تو نہیں لیکن ان کے خواص پر مشتمل ہوتا تھا۔بادشاہ انہیں اپنی خصوصی نوازشات سے نوازتے، جنگوں میں حاصل کردہ مال غنیمت ، غلام اور لونڈیاں انہیں تحفے میں پیش کی جاتیں۔ صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایجادات نے جدی پشتی امرائ کے بجائے”سیلف میڈ“ امرائ کو ا?گے ا?نے کا موقع دیا۔ چنانچہ دور جدید کے امرائ میں سلطنتوں کے حکمراں تو کم دولت مند ہیں لیکن ”سیلف میڈ“ امرائ زیادہ تعداد میں ہیں۔حقیقی معنوں میں امیر وہی ہے جو اپنی محنت کے بل بوتے پر کوئی بلند مقام حاصل کرے، سیاست دانوں اور حکمرانوں کے پاس دولت ہوسکتی ہے مگر اس میں ان کی ہاتھ کی کمائی کا نہیں بلکہ ہاتھ کی صفائی کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔امریکی جریدہ”فوربز“ ہرسال دنیا کے 10 اور 100 امرائ کی فہرست جاری کرتا ہے، ہر بار ان کی دولت کے اعدادو شمار بیان کیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے کون سے ارب پتی نے ایک سال میں کتنی دولت کمائی اور کتنی خرچ کی؟۔ سنہ2014ئ کی رپورٹ میں جریدے نے ارب پتیوں کی کل تعداد 1645ئ بتائی ہے۔ ان ڈیڑھ ہزار ارب پتیوں میں دو تہائی امرائ ایسے ہیں جو اپنی محنت شاقہ سئے دولت کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ان میں سے بیشتر کی ابتدائی زندگیوں پر نظر ڈالی جائے تو وہ دنیا بھر کے فقیر ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قسمت کی دیوی ان پر کچھ ایسی مہربان ہوئی کہ اب لوگ ان سے چند سیکنڈز کی ملاقات کی خواہش بھی پوری نہیں کر پاتے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان دو تہائی خود ساختہ ارب پتی لوگوں میں 172 خواتین بھی شامل ہیں۔ایسے امرائ جنہیں دولت وراثت میں ملی ان کی تعداد انگلیوں پرگنی جاسکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ موروثی دولت مند وقت کے ساتھ کم ہوتے جبکہ اپنی مدد ا?پ کے تحت دو لت و امارت کا مقام بنانے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگلے پچاس سال میں مورثی امرائ قصہ پارینہ ہوجائیں اور ان کی جگہ ”سیلف میڈ“ امرائ لے لیں۔

جریدہ فوربز کی ایک تازہ رپورٹ میں دنیا کے امرائ کے نشہ دولت کے بارے میں تھوڑا مختلف زاویے سے ایک رپورٹ بھی شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا کے درجہ اول کے 10 امرائ کی جنت نظیر رہائش گاہوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے فوربز کی رپورٹ پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ہر ارب اور کھرب پتی کے پاس ویسے تودنیا کے مختلف ملکوں میں جا بہ بجا جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں لیکن بات صرف کاروباری وسعت تک محدود نہیں بلکہ ان کی جنت نظیر قیام گاہوں کی ہے جن پر خرچ ہونے والی دولت سے لاکھوں خاندانوں کے لیے پوش علاقوں میں متوسط درجے کے مکانات تعمیر کیے جاسکتے ہیں، ہزاروں اسکول، اسپتال او لاکھوں فلاحی ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چند درجن امرائ کے پاس دنیا کے مختلف ملکوں میں کم سے کم 25 ہزار رہائش گاہیں موجود ہیں، جنہیں وہ تعیش کے لیے وقتا فوقتا استعمال کرتے ہیں۔

ان میں سے درجہ اول کے دس امرائ کی صرف 10 لکڑری کوٹھیوں کی قیمت جمع کی جائے تو اس سے 23 ہزار بہترین اور جدید سہولیات سے ا?راستہ فرنشڈ مکان تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ان میں ہر مکان معمولی نہیں بککہ اس میں دو ڈائنگ ہال اور تین بیڈ روم، واش روم ، کھلا ڈلا کچن اور صحن شامل ہوں۔ ان تئیس ہزار مکانات میں اگر فی کس پانچ افراد کا کنبہ رکھا جائے تو دس امرائ کی کوٹھیوں سے 01 لاکھ 15 ہزار افراد کا ایک شہر ا?باد کیا جا سکتا ہے۔ اتنا سا مکان دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں بھی ایک لاکھ 40 ہزار ڈالر تک بہ ا?سانی دستیاب ہوسکتا ہے۔
ارب پتیوں کے عالی شان محلات کی قیمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے ارب پتی موکیش انبانی کابمبئی میں محل ایک ارب ڈالر سے زیادہ قیمتی بتایا جاتا ہے۔ یہ موکیش کا واحد محل نہیں بلکہ بھارت کے بارہ بڑے شہروں میں اس کی پر تعیش رہائش گاہیں موجود ہیں جن کی مجموعی مالیت کروڑوں ڈالر سے زیادہ ہے۔ فوربز جریدے نے موکیش امبانی کو 2014ئ کا بھارت کا امیر ترین شخص قرار دیا ہے، جس پر بہت سے دوسرے امرائ کو اعتراض بھی ہوا۔ تاہم ہمارے نزدیک فی الوقت یہ موضوع محل نظر نہیں۔ موکیش کی موجود دولت 23 ارب 900 ملین ڈلر سے زیادہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ خاتون کو گالی سمجھا جاتا ہے:متیرا

لاہور(شوبزڈیسک)اداکارہ متیرا نے کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مطلقہ خاتون کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے گالی کی طرح سمجھاجاتاہے،لوگ طلاق کی وجوہات جانے بغیر صرف خاتون کو قصور وار ٹھہرا تے ہیں جوظلم ہے ۔ ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت میں مرد پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی بلکہ تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف خاتون پر عائد کر دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں تصویر کا ایک رخ نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ دونوں طرف کا جائزہ لینا چاہیے اور پھر فیصلہ کرناچاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ طلاق پر صرف خاتون کی زندگی اجیرن ہوتی ہے ۔ طلاق کا معاملہ آج سے نہیں صدیوں سے چلاآرہا ہے اور مذہب اسلام میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے کہ اگرکسی کا نبھا نہ ہو سکے تو وہ علیحدگی اختیار کر لے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی لڑکی خوشی سے طلاق نہیںلیتی بلکہ معاملات انتہا پر پہنچنے کے بعد اس اقدام پر مجبور ہوا جاتا ہے لیکن معاشرہ اس کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ۔
انہوںنے کہا کہ میرے بارے میں بھی لوگ مختلف طرح کی باتیں کرتے ہیں لیکن مجھے ان کی رتی برابر پرواہ نہیں۔