کیویز کو قابو کرنے کیلئے حکمت عملی تیار:سرفراز

ابوظہبی(آئی این پی) پاکستان ٹیم کے قائد سرفراز احمد نے کہا ہے کہ نیوزی لینڈکیخلاف تیسرے اورآخری ٹیسٹ میں محمد عباس کی کمی ضرور محسوس ہوگئی لیکن انکی غیر موجودگی سے ٹیم کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ حریف ٹیم کو قابوکرنے کےلئے ہم نے اپنی حکمت عملی تیارکرلی ہے۔دوسرے میچ میں جیت کے بعد پلیئرزکامورال بلندہے ۔کھلاڑی جیت کاعزم لے کر میدان میں اتریں گے۔آخری میچ میں غلطی کی گنجائش نہیںورنہ سیریزہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ امید ہے یاسرشاہ عمدہ کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ٹیم کو فتوحات دلانے میں کردار ادا کریں گے۔ دوسری جانب کیویزکپتان کین ولیمسن نے کہا ہے کہ بلے بازوں کی کارکردگی تسلی بخش ہے تاہم ابھی مزید بہتری کی ضرورت ہے، یاسر شاہ غیرمعمولی باﺅلر ہیں، ان کا سامنا کرنا چیلنجنگ ہوتا ہے۔ آخری میچ میں تیاری کیساتھ میدان میں اتریں گے۔امیدہے اچھا مقابلہ ہوگا۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا آخری اور فیصلہ کن میچ 3دسمبر سے ابوظہبی میں شروع ہوگا۔ دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز 1-1سے برابر ہے۔ کیویز نے پہلے میچ میں پاکستان کو 4رنز سے شکست دی تھی جبکہ دوسرے میچ میں پاکستان نے شاندار کم بیک کرتے ہوئے کیویز کو ایک اننگز اور 16رنز سے شکست دیکر سیریز 1-1 سے برابر کردی تھی۔دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا تیسرا میچ فائنل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور جو ٹیم یہ میچ جیتے گی وہ سیریز اپنے نام کرنے کی حقدار ہوگی۔ پاکستان ٹیم کے لئے بری خبر یہ ہے کہ فاسٹ باﺅلر محمد عباس دائیں کندھے میں انجری کے باعث کیویز کے خلاف سیریز کے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ سے باہر ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف شیڈول آخری اور فیصلہ کن ٹیسٹ میچ کیلئے ٹیم میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم محمد عباس کے ان فٹ ہونے کی وجہ سے ٹیم میں ایک دو تبدیلیاں کرنے پریں تاہم اس کا فیصلہ میچ سے قبل ہوگا۔یاسر شاہ نے کیویز کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں غیرمعمولی باﺅلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 14 وکٹیں لیکر ٹیم کو فتح دلائی تھی۔دونوں ٹیموں کے درمیان فیصلہ کن ٹیسٹ 3 دسمبر سے ابوظہبی میں شروع ہو گا۔ پاکستانی سکواڈ کپتان سرفراز احمد، امام الحق، اظہر علی، اسد شفیق، حارث سہیل، بابر اعظم، سعد علی، محمد حفیظ، یاسر شاہ، بلال آصف، محمد عباس، حسن علی، فہیم اشرف، شاہین شاہ آفریدی اور میر حمزہ پر مشتمل ہے۔ حتمی ٹیم کو فیصلہ میچ سے قبل کیا جائیگا۔

فخرکی پروٹیزکیخلاف ٹیسٹ سیریز میں شرکت مشکوک

لاہور(سپورٹس رپورٹر) اوپنر فخر زمان کی گھٹنے کی انجری کے باعث جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں شرکت مشکوک ہوگئی۔گھٹنے کی انجری کا شکار اوپنرفخر زمان نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے منتخب اسکواڈ میں شامل نہیں تھے، ذرائع کے مطابق پی سی بی کے میڈیکل پینل نے فٹنس کی مکمل بحالی کے لئے ڈیڑھ ماہ کا پروگرام دیا ہے جس کی وجہ سے فخر زمان کی پروٹیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں شرکت مشکوک ہے۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین سیریز کا پہلا ٹیسٹ 26 دسمبر کو سنچورین میں کھیلا جائے گا۔ فخر زمان نے انجرڈ امام الحق کا خلا پر کرتے ہوئے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور دونوں اننگز میں مجموعی طور پر 160 رنز بنائے تھے، نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں محدود اوورز کی کرکٹ کے میچز کھیلے لیکن سیریز سے قبل ان کو وطن واپس بھجوا دیا گیا تھا۔

حاملہ بیوی کو زندہ جلانے والا ساتھی سمیت رہا ، متاثرہ خاندان انصاف کیلئے خبریں آفس پہنچ گیا

فیصل آباد ( عاطف چوہدری ) حاملہ بیوی کو زندہ جلانے والا ملزم ساتھی سمیت آزاد، پولیس ملزمان کی سرپرست بن گئی، نزعی بیان کے باوجود پولیس نے قتل کے واقعہ کو خود کشی قرار دے دیا، ڈی ایس پی سے لے کر آئی جی پنجاب تک دی جانے والی درجنوں درخواستوں کے باوجود علاقہ پولیس نے ملزمان کے خلاف کاروائی کرنے سے انکار کر دیا، خاتون کے ورثاء حصول انصاف کے لئے،، خبریں ،، آفس پہنچ گئے، تھانہ ساندل بار کے علاقہ 30 ج ب کے رہائشی کوثر پروین زوجہ آصف اور اس کے بیٹے مدعی مقدمہ عظیم نے بتایا کہ میری 26 سالہ بہن نگینہ بی بی کی شادی ڈیڑھ سال قبل گاوں ہی کے رہائشی عارف کے ساتھ ہوئی تھی، دونوں میاں بیوی کی یہ دوسری شادی تھی، عارف کے دیگر خواتین کے ساتھ تعلقات تھے اور میری بہن نگینہ اپنے شوہر عارف کو غلط کاموں سے منع کرتی تھی اسی وجہ سے دونوں میاں بیوی میں اکثر جھگڑا رہتا تھا، 9 مئی کو دونوں میاں بیوی میں جھگڑا ہوا تو عارف کا بھائی شہزاد بھی جھگڑے میں کود پڑا، دونوں بھائیوں نے مل کر پہلے میری بہن نگینہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں اس پر پیٹرول چھڑک کر اسے زندہ جلا دیا جبکہ اس وقت میری بہن تین ماہ کی حاملہ تھی، وقوعہ کی اطلاع ملتے ہی ہم موقع پر پہنچے تو دونوں ملزمان فرار ہوگئے، ہم شدید زخمی نگینہ بی بی کو الائیڈ ہسپتال میں لے کر آے، جہاں پر تقریبا بائیس گھنٹے کے قریب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد نگینہ نے دم توڑ دیا، اسی دوران میری زخمی بہن نے سب انسپکٹر رانا حامد سمیت پولیس پارٹی کو متعدد بار نزعی بیان دیتے ہوئے بتایا کہ مجھے عارف اور اس کے بھائی شہزاد نے جلایا ہے، جس پر پولیس نے خود ہی تحریر لکھ کر میری مدعیت میں دونوں ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 336b, 109,34 ت پ کے تحت مقدمہ نمبر 151/18 درج کر لیا، بعد ازاں ایک سابق ڈی ایس پی کے کہنے پر سب انسپکٹر رانا حامد نے مبینہ طور ملزمان سے ملی بھگت کر لی، پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کر کے بغیر گرفتاری ڈالے تقریبا ڈیڑھ ماہ تھانہ ٹھیکریوالہ کی حوالات میں بند رکھا، اس دوران رانا حامد مجھے ڈیڑھ دو لاکھ روپے لے کر صلح کرنے پر مجبور کرتا رہا، میرے انکار پر پولیس نے ملی بھگت سے وقوعہ کو خودکشی قرار دے کر دونوں ملزمان کو رہا کر دیا، دونوں ملزمان نے رہا ہونے کے بعد گاوں میں خوشیاں منائیں، مٹھائی تقسیم کی اور دیگیں پکا کر لوگوں کی دعوت کی، میں نے انصاف کے حصول کے لئے ڈی ایس پی سرکل صدر، ایس پی اقبال ٹاون، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، سی پی او، آر پی او، آئی جی پنجاب اور چیئرمین انسانی حقوق کمیشن کو درجنوں درخواستیں دیں مگر کسی نے بھی مجھے انکوائری کے لئے نہیں بلایا، اگر میں اپنے طور پر پولیس افسران کے دفاتر میں درخواستوں کے بارے میں پوچھنے جاتا ہوں تو تو ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر سمیت تمام پولیس افسران مجھے ڈرا دھمکا کر دفاتر سے نکال دیتے ہیں، اب میری درخواست ایس ایس پی آر آئی بی کے پاس کئی دنوں سے انکوائری کے لئے پڑی ہے مگر مجھے کسی نے نہیں بلایا، متاثرہ خاندان نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ملزمان کے خلاف درج مقدمہ میں قتل کی دفعہ شامل کی جاے اور ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جاے۔

ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے شرائط پوری کی جارہی ہیں:میاں افضل ، کارساز مینوفیکچرنگ منصوبہ اور 50لاکھ گھر والا پلان واضح نہیں : صوفیہ بیدار ، طلب اوررسد اس طرح ہونی چاہیے کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول نہ کرنا پڑے: آغا باقر ، پٹرول کی قیمت میں کمی عارضی ریلیف 15روز بعداضافہ کر دیا جائے گا: مریم ارشد ، چینل ۵ کے پروگرام ” کالم نگار “ میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے کالم نگار میاں افضل نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے وہی باتیں کیں جو اسحاق ڈار کیا کرتے تھے۔ ڈالر ہائی سطح پر ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی شرائط پوری کی جارہی ہیں۔ ڈالر 150 تک جائے گا۔ انہوں ے مزید کہا لوٹی دولت واپس ضرور لائیں لیکن عوام کا خیال بھی رکھا جانا چاہئے۔ پیسہ واپس لانے کیلئے عوام کو آگ میں نہ دھکیلیں۔ انٹرنیشنل مارکیٹ کا حساب چلنا چاہئے۔ پٹرول کی قیمت میں 2 روپے کمی کوئی بڑی بات نہیں۔ انہوں نے کہا عمران خان کی نیت پر شک نہیں لیکن عوام کو اعتماد میں لیں۔ انہوں نے کہا چین جو اپنی لیبر لیکر آیا ہے وہ وہاں کے قیدی ہیں۔ 3 ماہ بعد ان کو تبدیل کردیا جاتا ہے ان کو پیسے بھی نہیں دینے پڑتے۔ پرانے چھوڑ کر نئے شیلٹر ہوم بنا دیئے جو موجود ہیں ان کو فعال نہیں کیا۔ کالم نگار آغا باقر نے کہا کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے پریس کانفرنس میں ٹھیک نقطے اٹھائے ہیں کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرینگے۔ دوسرا انہوں نے کہا کہ ڈیمانڈ وسپلائی اس طرح سے ہو کہ مصنوعی طور پر نہ کرنا پڑے۔ اگر ڈالر کی مصنوعی طریقے سے کنٹرول کریں تو ساری معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ سٹیٹ بینک نے بہرحال ڈالر کو کنٹرول کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سارے ممالک میں دیکھا کہ وہاں سوئی سے لیکر جہاز تک بنتا ہے۔اگر کار ساز مینوفیکچرنگ کمپنیاں لگتی ہیں تو یقیناً لوگوں کو روزگار ملے گا۔ آپ لوگوں سے ٹیکس تب لیں گے جب پراجیکٹس ہوں گے۔معروف شاعرہ اور کالم نگار صوفیہ بیدار نے کہا کہ موجودہ حکومت کہہ رہی ہے کہ تمام مسائل جہیز میں ملے ہیں۔ آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں سب کا یہی رویہ دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم اسحاق ڈار کی ذہانت و اقتصادی سوچ کے اور اب اسد عمر کے مرہون منت ہیں۔ دنیا بھر میں معیشت کو سنبھالنے کیلئے ایک باقاعدہ ٹیم ورک ہوتا ہے ہم ہر کوئی فرد واحد ہی مسلط رہتا ہے۔ ساری حکومتیں حلف اٹھانے کے بعد تبدیل ہوجاتی ہیں۔ فرد واحد کس طرح معیشت کو بہتر کرسکتا ہے جو بھی حکومت آتی ہے پہلے خواب دکھاتے ہیں پھر چھین لیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو شہبازشریف سے بھی زیادہ جلدی ہوتی ہے۔ اعلانات کردیتے ہیں لیکن تیاری کوئی نہیں ہوتی۔ کارساز مینوفیکچرنگ منصوبہ میں 50 لاکھ گھر والے منصوبے جیسے ابہام ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے ہی کام ہوتے رہے آشیانہ جیسے کام ہی نئی حکومت کررہی ہے۔ منصوبے اسی طرح کے ہیں صرف نام تبدیل ہیں۔ انہوں نے کہا عمران خان کی صرف ایک بات اچھی لگتی ہے وہ ٹارگٹ سیٹ کرکے چلتا ہے ان سے کچھ امید ہے کشمیر کے مسئلے پر ہمیں خود انحصاری کی طرف جانا چاہئے۔کالم نگار مریم ارشد نے کہا کہ اسدعمر کے وزیر خزانہ بننے سے پہلے تو ایسے بیانات آتے تھے کہ جیسے ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے۔ جسے گھما کر حالات ٹھیک کردیں گے۔ ملک ترقی کی منزلیں ے کرے گا۔ 80 فیصد عوام غربت سے گزر رہی حکمران پریس کانفرنس کرکے چھنکنا بجا رہے ہیں جس کی عوام کو سمجھ ہی نہیں آتی۔ انہوں نے مزید کہا پٹرول کی قیمت میں کمی بھی عارضی ریلیف ہوتا ہے۔ 15 روز بعد اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اگر چین سے ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر عملدرآمد شروع ہوجائے تو بہت بہتر ہے لیکن اس کے ساتھ اپنی بند فیکٹریوں کو بھی فعال کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا وزیراعظم نے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا جو خوش آیند ہے۔ ملک کی سالمیت‘ خود انحصاری اور معیشت مضبوط ہوگی تو مسئلہ کشمیر حل ہونے میں مدد ملے گی۔ کراچی میں اسلحے کی نمائش لگی ہوئی ہے خوش آیند ہے ایسے اقدامات ہونے چاہئیں۔

میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پرنٹ میڈیا کیلئے خطر ناک فیصلہ قرار ، میڈیا کا موجودہ ماحول ماضی سے بھی کہیں زیادہ بدتر اور ابتر ہے: سی پی این ای ، اجلاس میں صدر سی پی این ای عارف نظامی کو صحافتی تنظیموں سے رابطوں کا اختیار دیدیا گیا

کراچی (پ ر) کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے پاکستان میں آزادی¿ صحافت کی صورتِ حال کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت میڈیا شدید گھٹن اور بالواسطہ پابندیوں کا شکار ہے۔ سی پی این ای کے صدر عارف نظامی کی صدارت میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ماضی کی براہ راست اور بدنام زمانہ سنسر شپ رائج نہ ہونے کے باوجود میڈیا کا موجودہ ماحول ماضی سے بھی کہیں زیادہ بدتر اور ابتر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہ اخبارات پر مختلف قسم کی معاشی جکڑبندیوں سے صحافت کی آزادی کو بالواسطہ طور پر کنٹرول کیا جا رہا ہے اور اخبارات کے معاشی قتل عام کے ذریعے آزادی¿ اظہاراور آگہی کے حقوق کے خاتمہ کی کوششیں ہو رہی ہیں جو آزادی صحافت کی حقیقی روح کے یکسر خلاف ہیں۔ قرارداد میں مجوزہ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو غیر دانشمندانہ قدم قرار دیتے ہوئے اسے پرنٹ میڈیا کے لئے خطرناک فیصلہ قرار دیا ہے اور کہا گیا کہ پرنٹ میڈیا کو طویل جدوجہد کے بعد حاصل شدہ آزادی کو ریگولیٹری اتھارٹی جیسے آمرانہ اداروں کے ذریعے سلب کئے جانے کے خدشات اخباری حلقوں میں پائے جاتے ہیں۔ قرارداد میں بعض مدیران کے اخبارات کی ترسیل میں پیدا کی گئی مختلف رکاوٹوں کی شکایات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ قرارداد میں پاکستان کی تمام میڈیا تنظیموں، میڈیا اداروں و دیگر اسٹیک ہولڈرز کو میڈیا پر براہ راست اور بالواسطہ قدغنوں اور پابندیوں کے خاتمے اور آزادی صحافت کے دفاع اور فروغ کے لئے مشترکہ حکمت عملی اور مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے کے لئے متحد ہونے پر زور دیا گیا۔ اس ضمن میں سی پی این ای کے صدر عارف نظامی کو تمام میڈیا اسٹیک ہولڈرز، میڈیا اداروں اور صحافتی تنظیموں سے رابطوں کے لئے اختیار بھی دیا گیا۔ اجلاس نے آزادی صحافت کے لئے ایک وسیع میڈیا کنونشن بھی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سی پی این ای اجلاس میں عارف نظامی (روزنامہ پاکستان ٹوڈے)، ظفر عباس(روزنامہ ڈان)، شاہین قریشی(روزنامہ جنگ)، ایاز خاں اور طاہر نجمی(روزنامہ ایکسپریس)، ڈاکٹر جبار خٹک(روزنامہ عوامی آواز)، اکرام سہگل(ماہنامہ ڈیفنس جرنل)، رحمت علی رازی (روزنامہ طاقت)، طاہر فاروق (روزنامہ اتحاد)، سعید خاور (روزنامہ 92 نیوز)، قاضی اسد عابد(روزنامہ عبرت)، حامد حسین عابدی (روزنامہ امن)، اعجازالحق (ایکسپریس گروپ)، عدنان ملک(روزنامہ امت)، مقصود یوسفی (روزنامہ نئی بات)، عارف بلوچ (روزنامہ بلوچستان ایکسپریس)، مظفر اعجاز (روزنامہ جسارت)، شکیل ترابی (صباح نیوز ایجنسی)، انور ساجدی (روزنامہ انتخاب)، معظم فخر(روزنامہ جہان پاکستان)، محمد طاہر(روزنامہ جرا¿ت کراچی)، عامر محمود (ماہنامہ کرن ڈائجسٹ گروپ)، غلام نبی چانڈیو (روزنامہ پاک)، ذوالفقار احمد راحت (روزنامہ ہاٹ لائن)، عبدالرحمان منگریو (روزنامہ انڈس پوسٹ)، عبدالخالق علی (آن لائن نیوز ایجنسی)، احمد اقبال بلوچ (ماہنامہ ویژنری)، شیر محمد کھاوڑ(روزنامہ اپیل)، اکمل چوہان (روزنامہ وفا)، بشیر احمد میمن (روزنامہ نجات)، محمود عالم خالد(ماہنامہ فروزاں)، میاں فضل الٰہی(ماہنامہ ڈپلومیٹک فوکس)، ممتاز احمد صادق (روزنامہ آزادی سوات)، نشید راعی (روزنامہ قومی آواز)، سردار نعیم (روزنامہ قائد)، اشفاق احمد مفتی (روزنامہ الحاق) ، زاہدہ عباسی (روزنامہ نﺅسج) اور سدرہ کنول (روزنامہ انجام) سمیت کثیر تعداد میں اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس میںسرکاری اشتہارات کی تقسیم سمیت دیگر امور پر بھی غور کیا گیا جس کی تفصیلات جلد جاری کی جائیں گی۔

ن لیگ ، پیپلز پارٹی اپنی کرپشن کا جواب دیں ، پھر عمران خان کی 3 ماہ کی کارکردگی پر تنقید کریں : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حکومت کے لئے فی الحال عیر مستحکم صورتحال ہے کہ ہم نے باہر سے کتنی امداد لینی ہے آئی ایم ایف سے لینا ہے یا کسی اور مالیاتی ادارے سے لینا ہے جب تک وہ پیسے آ نہیں جاتے اس وقت تک جو پوزیشن غیر مستحکم ہی رہے گی اور ڈالر اوپر نیچے جاتا رہے گا۔ زہن میں رکھنا ہو گا کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اس وقت سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ عمران خان پر یہ الزام ثابت کر سکیں کہ ان کے دور حکومت میں 100 دنوں میں عوام کا بیڑہ غرق ہو گیا اور بے تحاشا مہنگائی ہوئی اور کرنسی کی پوزیشن سنبھل نہیں رہی اور اپنے طور پر بلاول بھٹو صاحب نے زبردست تقریر کی اور لیڈر آف اپوزیشن کا حق ادا کر دیا اور دوسری طرف شاہد خاقان عباسی نے شام کو جو تفصیلی بریفنگ دی اور چینل ۵ کو جو انٹرویو دیا ہے ان دونوں جماعتوں پر چونکہ کرپشن کے بہت الزامات ہیں بقول عمران خان کی پارٹی کے لہٰذا وہ دن رات اس بات پر دن رات لگے ہوئے کہ انہوں نے ثابت کرنے میں مدد ملے کہ عوام بہت تنگ ہیں اور 3 ماہ میں جو لوگ ااسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ میرے خیال میں اگلے 3 سے 6 ماہ کے اندر ملک کی معاشی حالت بہتر ہو جائے گی بہر حال آج کی پوزیشن جو ہے یہ نہیں رہے گی توقع ہے کہ اگلے 3 ماہ میں کافی بہتری آئے گی۔ احسن اقبال صاحب نے موقع ملا ہے تو ضرور باتیں کرنی تھیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جتنا پیسہ پنجاب میں 10 برس میں اور وفاق کی سطح پر 5 برس میں غتر بود کیا گیا اور وہی قرضہ جو باہر سے لیا گیا میگا پراجیکٹ بیچ میں سے پیسہ کھینچنے کے لئے بنائے گئے۔ کیونکہ جو کام عمران خان کی حکومت کر رہی ہے اس میں سے زیادہ لاہور میں جو خیمہ بستر لگائے ہیں اس میں سے کتنے پیسے نکال لیں گے۔ بے ایمانی کرنا بھی چاہیں تو کتنے پیسے نکال لیں گے۔ اس کے برعکس ایک اورنج ٹرین میں سے تو بے تحاشا پیسہ نکالا جا سکتا ہے۔ موٹروے سے نکالا جا سکتا ہے۔ ملتان کی سڑکیں بنی ہیں وہاں سے روپیہ نکالا جا سکتا ہے ملتان کی میٹرو سے مال نکالا گیا ہے اور چین کی حکومت نے خود اشارہ دیا ہےکہ یہاں اتنی ہیرا پھیری ہوئی ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے پاس ہی پیسہ ہے جس دن چاہیں ڈالر خرید کر ڈالر کی پوزیشن اور زیادہ غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ آصف زرداری صاحب جن کے بارے میں ان کے فرنٹ مین تھے ان کے فنانس منیجر نے یہ کہا ہے کہ 320 ارب سے زیادہ باہر بھجوائے جا چکے ہیں پھر کس کے پاس پتہ تھا انہی کے پاس پیسہ تھا عمران خان تو حکومت میں نہیں تھے۔ عمران خان کے جتنے وزیر بنے پھرتے ہیں ان سب کے چارل آپ دیکھ لیں کتنا پیسہ ہو گا ان کے پاس تھا یا ان کے پاس تھا جو آج بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں۔ نیب کو چاہئے کہ وہ جو کارروائی کرنا چاہتی ہے وہ جلدی کرے تا کہ پتہ چل جائے کہ کس نے کیا کیا کھایا ہوا ہے۔ جہاں شاہد خاقان عباسی تو جو ایل این جی کیس میں پھنسے ہوئے ہیں ابھی تو انہوں نے یہ جواب دینا ہے کتنے میں گیس کا سودا ہوا ہے اور انہوں نے اندر کھاتے کیا رکھا تھا۔ اور وہ تقسیم کن کن لوگوں میں ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں دو فریق ہیں ایک فریق حکومت ہے جو آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوا ہے اور دوسری طرف وہ دو پارٹیاں ہیں جس میں سے ایک پارٹی سے پچھلے دس سال میں اور ایک پارٹی نے پچھلے 5 سال میں خوب دبا کر حکومت کی ہے۔ پیپلزپارٹی مستقلا صوبہ سندھ میں اور ن لیگ نے مستقلا صوبہ پنجاب میں بڑے بڑے پراجیکٹس بنائے ہیں اور ہمیشہ آپ دیکھیں پراجیکٹ ہمیشہ بڑے بنے ہیں۔ سکیورٹی کے لئے سکولوں کی چاردیواریاں نہیں بن سکیں اور موٹر وے بھی بن گئی اور اورنج ٹرین پر بھی بے تحاشا پیسہ خرچ ہو گیا۔ ابھی تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ میٹرو ٹرین پر پیسہ خرچ کرنا ہوا اور کھایا کتنا گیا ہے۔ بلاول بھٹو نے بڑی تقریر کی ماشاءاللہ لیکن سندھ سے تو اپنے شہر کا کچرا نہیں اٹھایا گیا۔ ن لیگ پہلے اپنی کرپشن کا جواب دے پھر سوال کرے کہ تحریک انصاف 50 لاکھ گھروں کے 50 کھرب کہاں سے لائے گی۔ جب حکومت نے دعویٰ کیا ہے تو اس حکومت کا مسئلہ ہے۔ ن لیگ 100 وائٹ پیپر بھی لے آئے اب عوام کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو یہ سمجھ چکا ہے کہ پیسہ تو اصل میں لوٹ کر یہ لے گئے پیپلزپارٹی سندھ اور وفاق میں اور پنجاب میں مسلم لیگ ن لے گئی۔ کیا قرصے موجودہ حکومت نے کھائے تھے کیا 26 ارب ڈالر کا قرصہ تحریک انصاف نے لیا تھا۔ یہ بات کب سے پھیلی ہوئی تھی کہ خورشید شاہ اندر سے حکومت سے ملے ہوئے تھے یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کا فیملی بیک گراﺅنڈ کیا تھا کہا جاتا ہے کہ وہ میٹر ریڈر تھے۔ کیسی زبردست ترقی کی۔ آج تو رمیش کمار صاحب نے سپریم کورٹ میں کاغذات دیئے ہیں اور اس میں کہا ہے کہ کتنی زمینوں پر قبضے کروائے ہیں خورشید شاہ صاحب نے۔ پہلے اپنا کچا چٹھا سامنے آنے دیں اور بہت کچھ سامنے آئے گا۔ اومنی گروپ کے فنانشل منیجر نے کہہ دیا کہ 320 ارب باہر چلے گئے تو پھر اور کس کی گواہی کی ضرورت ہے۔ جہاں تک لاڈلے کا سوال ہے تو نوازشریف صاحب کو پچھلے 35 سال سے لاڈلے تھے خود بلاول بھٹو ماشاءاللہ سندھ کے، پیپلزپارٹی کے لاڈلے ہیں اس طرح تو ہر کوئی کسی نہ کسی کا لاڈلا ہے۔ عمران خان کا کوئی مال شال یا پراپرٹی کہیں دکھائی دیتی ہے پیسہ نظر آتا ہے تو پھر وہ ذمہ دار ہیں اگر نہیں ہے تو ان دو پارٹیوں نے ہی سارے ملکوں میں جائیدادیں بنائی ہیں۔ ان کی بے چینی اور گھبراہٹ اس لئے بڑھ رہی ہے کہ 3 مہینے ان سے صبر سے نہیں گزر رہے۔ لندن میں افواہ ہے کہ 6 سو ارب ڈالر ہیں جو پیسے ہیں نوازشریف کے 500 ارب ڈالر آصف زرداری کے یہ وہ رقم ہے جو موجود ہے۔ اگر ان کی لیڈر شپ کو سزا ہو گئی تو ان جماعتوں سے بھی فارورڈ گروپ بن جائیں گے۔ حمزہ شریف نے ان ممبرز کو نوٹس دیا ہے جو شہباز شریف کے خلاف کیسز ہوتے تھے ان میں احتجاج کے لئے آتے نہیں رہے۔ لگ رہا ہے جو کشتی ڈوب رہی ہو لوگ اس میں سے چھلانگ لگا کر ہمیشہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمران خان بڑے بڑے پراجیکٹس کی بجائے عام آدمی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراعظم و گورنر ہاﺅسز عوام کیلئے کھولے گئے مگر ان سے کوئی پیسہ نہیں لیا، سکیورٹی کم کر کے پیسہ نہیں لیا، اپوزیشن فضول باتیں کر رہی ہے صرف 3 مہینے اور گزرنے دیں۔ نیب پتہ نہیں واقعی نااہل لوگوں کا ٹولہ ہے یا سابقہ حکومتوں کے لوگ بیٹھے ہیں جو بھی وجوہات ہوں اگلے 3 مہینے میں بہت ساری تفصیلات سامنے آئیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ علیمہ خان نے بھی اگر کچھ غلط کیا ہے تو اسے بھی پکڑا جانا چاہئے لیکن وہ منی لانڈرنگ کر کے پیسہ باہر نہیں لے کر گئیں یہ جواب ان کو دینا چاہئے کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اگر عمران خان کی بہن نے بھی کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے لئے بھی کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔ فنانس ماہرین نے مجھے بتایا کہ اگر علیمہ خان نے بیرون ملک پیسے کمائے ہیں تو ٹیکس بھی وہیں دینا تھا پاکستان کو نہیں۔ جو بھی صورتحال ہے حقائق سامنے آنے چاہئے۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ حکومت وقت کی کوئی چھوٹی سی بھی کمزوری مل جائے تو اپوزیشن اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، اس وقت بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان 2 کے بجائے 4 قدم اٹھا لیں جب تک مودی کی حکومت ہے بھارت مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو گا۔ وہ تو کرتار پور بارڈر کی تقریب میںبھی شامل نہیں ہوا۔ کرتار پور وہ جگہ ہے جہاں سکھ مذہب کے گورو نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے تھے اس لئے یہ جگہ سکھوں کے لئے بڑی مقدس اور قدر والی ہے۔ سکھوں نے کہا ہے کہ پاکستان کرتار پور یا ان کے کسی مذہبی لیڈر کے نام پر ڈیم بنائے وہ دنیا بھر سے فنڈ اکٹھا کریں گے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے بھارتی حکومت کے رویے کی بھی پرواہ نہیں کی اور بڑی جرا¿ت مندی سے کھلم کھلا یہ اعلان کیا۔ انہوں ے کہا کہ انڈیا کشمیر پر بات چیت نہیں کرے گا۔ قیام پاکستان کے بعد پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں گئے تھے اور قرارداد پر دستخط کئے تھے جس پر امریکہ کے بھی دستخط موجود ہیں، وہ قرارداد یہ تھی کہ مسئلہ کشمیر رائے شماری سے حل کیا جائے گا۔ 1948ءمیں یہ قرارداد منظور ہوئی، 1964ءمیں بھارتی حکومت نے زبردستی کی اور مقبوضہ کشمیر کو اپنے ایک صوبے کی شکل دیدی۔ اب جب رائے شماری کی بات ہوتی ہے تو بھارت بات چیت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا میرے پاس پنجاب و کے پی کے چین آف سکول کی خاص طور پر معلومات ہیں۔ سکولوں پر الزام ہے کہ وہاں پڑھنے والے بچے و بچیاں منشیات کی عادی ہوتے جا رہے ہیں اور وہاں منشیات فروخت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس جو معلومات ہیں وہ لوکل پولیس یا ایف آئی اے لینا چاہے تو ہم فراہم کر دیں گے۔ آنے والی نسل کو تباہ کیا جا رہا ہے اس پر بڑی سختی سے عمل ہونا چاہئے۔ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے وہ خود کرپشن کا گڑھ ہے۔ سندھ و پنجاب پولیس کی کرپشن سب سے آگے ہے۔ ہمارے علاقے ماڈل ٹاﺅن جہاں میرا گھر ہے وہاں نشے کے علاوہ پرائیویٹ ہاسٹلز، ہوٹل، گیسٹ ہاﺅسز وغیرہ عام ہیں۔ جہاں لوگ دو گھنٹے کیلئے آتے ہیں کوئی وہاں 24 گھنٹے رہنے نہیں آتا، وہاں بکنگ کروا کر لوگ نشہ کرتے ہیں۔ ماڈل ٹاﺅن میں صرفگ میرے گھر کے اطراف میں 40 سے 80 تک چھوٹے چھوٹے گیسٹ ہاﺅس، ہوٹل، موٹل وغیرہ بنے ہوئے ہیں، جہاں لوگ وقتی طور پر نشہ کرنے کے لئے کمرہ لیتے ہیں۔ پولیس ان گیسٹ ہاﺅسز سے 60 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ہفتہ لیتی ہے۔ انہوں نے کہا رمیش کمار نے جو خورشید شاہ پر الزام لگایا ہے۔ اسے ثابت بھی کرنا چاہئے۔ خورشید شاہ کے بارے میں عام کہا جاتا تھا کہ نون لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن ہے۔ ان کا کہنا تھا حکومت نے پٹرول کی قیمت میں بے شک صرف 2 روپے کمی کی لیکن کمی ضرور کی ہے کوئی زیادتی نہیں کی اب چیزوں کی قیمتوں میں کم سے کم کمی تو آنے لگی ہے۔
بیورو چیف سکھر زمان باجوہ نے کہا کہ خورشید شاہ نے میٹر ریڈر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا، ایک بار صحافیوں نے ان سے یہ سوال بھی کیا تھا کہ جس کے جواب میں خورشید شاہ نے کہا تھا کہ میں نے سیاست میں بڑی محنت کی اس لئے اتنی تیزی سے ترقی ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا رمیش کمار کا تعلق تھر کے علاقے سے ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں جو خورشید شاہ کے خلاف درخواست دائر کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ خورشید شاہ بھی ہندوﺅں کی زمینوں پر قبصہ کرنے میں ملوث ہیں، ایک اور سنگین الزام لگایا ہے کہ تھر کے ایگرو پاور پلانٹس کے سی ای او نے سندھ حکومت کی کرپشن سے تنگ آ کر استعفیٰ دے دیا۔ سندھ میں محتلف مقامات پر ہندو بٹے ہوئے ہیں۔ لازمی ان کی شکایت رمیش کمار تک پہنچی ہو گی۔ انہوں نے کہا سندھ حکومت میں سید گروپ ریونیو سمیت دیگر محکموں سے مل کر لوگوں کی زمینوں پر قبضہ اور ان کے ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرنے میں لگا ہوا ہے، یہ کام اتنی تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے کہ پچھلے 40 سالوں میں ایسا نہیں ہوا۔

درندے 1 ماہ تک غریب لڑکی سے زیادتی کرتے رہے ، مزاحمت پر تشدد ” خبریں ہیلپ لائن “میں انکشاف

قصور (بیورو رپورٹ) علی احمد شاہ کالونی قصور میں حواءکی ایک اور بیٹی کو بااثر شیطان صفت ملزمان ایک ماہ سے زائد تک اپنے ڈیرہ پر قید رکھنے کے دوران جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے زبردستی اغواءکرکے یرغمال بنائی گئی نوعمر لڑکی (ع)کے والد کی رپورٹ پر پولیس نے زخمی لڑکی کو ہسپتال میں داخل کر اکر مقدمہ درج کرلیا ہے بتایا گیا ہے کہ محنت کش نذیر احمد محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوںکا پیٹ پالتا چلا آرہا ہے وقوعہ کے روز اس کی نوعمر بیٹی (ع)کو عین اس وقت چار کار سوار ملزمان نے اغواءکرلیا جب وہ اپنے گھر کی طرف آرہی تھی ملزمان چیختی چلاتی لڑکی کو اپنی کار میں ڈال کر لے گئے اور شور مچانے پر اس پر بہیمانہ تشدد شروع کر دیا جس سے اس کے جسم پر گہری چوٹیں آئیں ملزمان لڑکی کو قصور کے نواح میں واقعہ اپنے ڈیرہ پر لے گئے جہاںپر آئے روز زبردستی اسے شراب پلائی جاتی اور ملزم ظہیر ،مختار ،شکیل اور شہزاد اسے زیادتی کا نشانہ بناتے رہتے جب بھی وہ مزاحمت کرتی تو اس پر تشدد کیا جاتا اور اسے کھانا دینے والا ملزمان کا ایک ساتھی اس کا کھانا بند کر دیتا کئی روز تک وہ انہی درندوںکی درندگی کا نشانہ بنتی رہی اور ایک روز بدترین تشدد کی وجہ سے جب وہ زخموںسے چور اور بیہوش ہوگئی تو ملزمان نے اسے کئی میل دور کھیتوںمیں پھینک دیا اور فرار ہوگئے۔ راہ گیر عورتوں اور زرعی مزدوروں نے اسے اپنے طور پر طبی امداد فراہم کی تو ہوش میں آنے پر اس نے متعلقہ لوگوںکو اپنے اوپر گزرنے والی قیامت کے متعلق آگاہ کیا جس پر کسانوں اور کسان خواتین نے ان کے گھر والوںکو اطلاع کی پولیس نے نذیر احمد وغیرہ کے ہمراہ (ع)کو بازیاب کرانے کے بعد سرکاری ہسپتال میں داخل کرادیا جہاں اس کی حالت نازک بیان کی جارہی ہے اور پولیس ذرائع کے مطابق یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی بنایاجاتا رہا ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔