تازہ تر ین

عمران خان کے دفاع ،خارجہ امور بارے فوج سے مشورہ لینے کے بیان میں کیا برائی ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ڈی ی آئی ایس پی آر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کرتار پور راہداری صرف سکھوں کے مذہبی جذبات کے لئے کھولی ہے پاکستانی اس کو استعمال نہیں کریں گے۔ مودی نے نہایت بیہودہ بات کی ہے کیونکہ اس کی بات چیت شروع ہوئی تھی ایک اور حکومت کے دور میں اور یہ بہت برس پہلے پرپوزل بنی تھی۔ اب یہ کہتے ہیں کہ یہ جو راہداری کا پروجیکٹ بنایا گیا ہے یہ ہم نے نہیں بنایا ہم سے پہلی حکومتوں نے بنایا تھا۔ ہم تو اس کو موجودہ حکومت کا کریڈٹ سمجھتے ہیں۔ آصف غفور نے سب سے اہم بات یہ کی کہ ہندوﺅں مسلمانوں کے لئے نہیں صرف سکھوں کے لئے راستہ کھولا گیا ہے۔ جس تنظیم کا انہوں نے نام لیا انہوں نے فوج میں ایک عصبیت کو ہوا دینے کی کوشش کی اور پختونوں کے حقوق کے نام پر انہوں نے یہ آگ بھڑکانے کی کوشش کی کہ فوج میں پختونوں کے حقوق جو ہیں ان کو دبایا جا رہا ہے یہ میجر جنرل آصف غفور نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کے جو جائز مطالبات ہیں یا مشکلات تو ہم نے دیکھا ہے لیکن یہ انہوں نے ناجائز معاملہ اور ایک عصبیت اور ایک پاکستان کی قومی فوج ہے جس میں سارے لوگ موجود ہیں۔ ہر زبان، ہر صوبے کے لوگ ہیں ہر مذہب کے لوگ ہیں۔ فوج میں بڑی تعداد میں عیسائی ہیں صرف ان کو پختونوں عصبیت کے نام پر بڑکانا ایک مذموم فعل ہے اور یہ ایک تعصب پھیلانے والی بات ہے اس لئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک جائز حدود کے اندر رہے گی تو ہم اس کی بات سنیں گے لیکن جب یہ اس حد کو کراس کرے گی تو پھر ہم اس سے نپٹنا جانتے ہیں۔
آصف غفور نے یہ بالکل درست بات کہی کہ آپریشن ضرب عضب جو تھا اس وقت آرمی کے سربراہ راحیل شریف تھے اور پاکستان میں اس وقت نوازشریف کی اس سے بھی پہلے آصف زرداری کی حکومت تھی یوسف رضا گیلانی اور بعد میں راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بھی رہے اور اس وقت بھی صدر رہے آصف زرداری، اس وقت بھی دہشتگردی کے خلاف فوج نے بڑا زبردست کام کیا۔ دیکھئے اب جو کچھ بھی فوج کر رہی ہے فوجی تقاضوں کے تحت کر رہی ہے ویسے بھی دنیا کے کسی بھی ملک میں ہم امریکہ کے سٹیٹ وزٹ پر گئے تو دارالخلافہ میں جہاں کے امریکی صدر اس زمانے میں بش جونیئر ہوتے تھے جہاں بش کا دفتر تھا وہاں ہم نے ان سے سوال و جواب کئے اتفاق سے پہلا سوال بھی میرے حصے میں آیا تھا میں نے پہلا سوال کیا اس جگہ سے نکل کر ہم دوسرے نمبر پر پینٹا گان گئے یعنی وہ وزارت دفاع کے دفاتر پر گئے جن کے سارے بڑے بڑے عہدیداران جو ہیں فوجی ہوتے ہیں امریکہ میں بھی فوج ہے جہاں تک دفاع کے معاملات کا تعلق ہے اس میں وہ مکمل طور پر بھرپور طور پر اپنی رائے بھی دیتی ہے اور وہ ایک بہت آرگنائز ہے کیپٹل جو ہے امریکہ کی سیاست حکومت ہے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ وزارت خارجہ ہے پینٹا گان فوج کا اور دفاع کا دفتر ہے اب یہی بات یہاں عمران خان نے کہہ دی کہ ہم وزارت دفاع کے معاملات اور فارن آفس کے معاملات ان دونوں معاملات میں فوج کے مشورے سے چلتا ہوں تو اس میں کون سی غلط بات کہہ دی بلکہ یہی ہونا چاہئے ہماری قومی فوج ہے اور اگر ہماری فوج جو ہے ہمارے دفاعی معاملات میں ملک کے اندر دہشت گردوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے ملک کے باہر جو ہے اگر افغانستان کا معاملہ ہوا پاکستان سرحد کا معاملہ، پاک انڈیا سرحد کا معاملہ ہو اگر اس میں فوج نے مشورہ نہیں دینا یا فوج نے اس مشاورت میں حصہ نہیں لینا فوج نے بڑے برے فیصلوں میں حکومت سے مل کر اپنا حصہ نہیں ڈالنا تو پھر کس نے ڈالنا ہے۔
شہبازشریف کے لئے اچھا ہوا کہ نیب نے ان کا جسمانی ریمانڈ مسترد کر دیا ہے۔ میڈیکل بورڈ بن گیا ہے ان کے ٹیسٹ بھی ہو رہے ہیں۔ کینسر کی شکایت کے سلسلے میں ان کا طبی معائنہ اور دیکھ بھال کرے گا۔ ریمانڈ کا پریڈ مشکل پیریڈ ہوتا ہے جس میں پوچھ گچھ ہوتی ہے تفتیش ہوتی ہے جبکہ جیل ایک پرسکون جگہ ہوتی ہے ان معنوں میں یہ جو درمیانی پیریڈ میں یہ جو گرفتاری کے بعد عام طور پر کہا جاتا ہے کہ گرفتاری کے بعد ریمانڈ پیریڈ ملزم کی زندگی کا مشکل ترین پیریڈ ہوتا ہے جس میں اس سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور اس میں اتنی سہولتیں نہیں ہوتیں جبکہ جیل میں جو تعلیم، آمدن کے لحاظ سے قیدی کو سہولتیں دی جاتی ہیں۔ وہ شایان شان ہوتی ہیں چنانچہ ہمارے اخبار نے ڈیرھ ہفتہ پہلے یہ خبر چھاپ دی تھی کہ شہباز شریف صاحب کو گرفتاری کے ان کا ریمانڈ پیریڈ حتم ہو گیا ہے اب ان کو جیل بھیج دیا گیا ہے گویا اگر وہ بیمار ہیں خدا کرے وہ صحت یاب ہوں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہو ںکہ جیل کی زندگی نسبتاً آرام دہ زندگی ہے اس میں ان کو اپنی صحت کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر چلنا اور علاج معالجے کی سہولتیں جو ہیں وہ بہت زیادہ ہوں گی۔ یہ جو سوشل میڈیا پر فلم چلتی رہی ہے ببرے دن کہ 14 کمرے اس طرف ہیں اور 14 کمرے اس طرف ہیں اس میں پہلے کمرے میں شہباز شریف کو رکھا گیا ہے اس کی نسبت اب وہ جیل میں کھلا روشن اور دھوپ اور تازہ ہوا کے ماحول میں رہیں گے اس طرح زیر زمین اندھیرے کمروں میںجہاں بلب 24 گھنٹے چلتا رہے وہاں نہیں رہیں گے۔
نوازشریف نے بڑا دھماکہ خیز بیان دیا۔ اپنی خاموشی کا قفل توڑا ہے۔ انہوں نے بڑی سیاسی گفتگو کی ہے۔ نمبر ایک تو انہوں نے اس بات پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے کہ عمران خان نے جو یہ کہا تھا کہ وقت سے پہلے الیکشن ہو سکتے ہیں۔ نوازشریف صاحب نے کہا ہے کہ ہم تو اس کا خیرمقدم کریں گے۔ جلدی الیکشن ہوں تاکہ عوام مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیں اور دوبارہ ہماری حکومت آئے۔ ہر بندے کو خوش فہمی ہوتی ہے ان کا خیال یہ ہے کہ وقتی طور پر جو مالی مشکلات ہیں اس کے برعکس لوگ جو ہیں وہ نئی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس میں شبہ نہیں کہ مہنگائی کے علاوہ کچھ باتوں میں مشکلات بڑھی ہیں لیکن ابھی 4ماہ گزرے ہیں 100دن کے اندر کسی بھی حکومت کو 5سال کی کارکردگی کا انتظار نہ کرنا اور یہ کہنا کہ دوبارہ الیکشن ہوں اس حکومت کو چلتا کیا جائے۔ دوسری طرف عمران خان صاحب نے بڑی تعریف بھی کی ہے۔ سنگین مسائل‘ بہت مشکلات تھیں اور میری جو فنانس کی ٹیم ہے یہ دو دن سے جو افواہیں چل رہی تھیں اسد عمر کو بدلا جا رہا ہے بلکہ نام بھی آ گئے تھے کہ وہ سٹیٹ بنک خاتون ڈائریکٹر تھیں ان کا نام بھی کل چل رہا تھا شاید ان کو وزیر خزانہ بنا دیا جائے گا۔ عمران خان نے کہا ہے کہ مشکل ترین حالات کے باوجود انہوں نے بڑی محنت کی ہے اور اسد عمر نے بھی کہا ہے کہ ان مشکلات کو مکمل طور پر دور کرنے میں کم از کم دو سال لگیں گے۔
عمران خان کی بات میں وزن ہے امریکہ نے ہماری ہر حکومت سے‘ زرداری کے دور میں یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ میں امریکہ مسلسل ایک ہی بات کرتا رہا ہے‘ ڈومور ڈومور۔ یہ تو گردان بن گئی تھی۔ اب آکر خود تسلیم کرنا کہ پاکستان کو خط لکھ کر عمران خان سے یہ کہنا کہ آپ تعاون کریں اور آپ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ حکومت پاکستان جب تک نہیں چاہے گی اس وقت تک طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ممکن نہیں ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ پاکستان کی اہمیت تک اس علاقے میں اس خطے میں بڑھ ہے۔ انڈیا نے جس طرح سے شور مچایا ہوا تھا کہ وہ معاملات کو اس علاقے میں کنٹرول کر رہا ہے اس علاقے میں وہ درست نہیں ہے بلکہ جو کنجی ہے مذاکرات کی افغانستان سے مذاکرات کی وہ پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔
گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اس پر گفتگو کرتے ہوئے ضیاءشاہد نے کہا کہ یہ اصولی طور پر درست فیصلہ ہے کیونکہ یہ کہا تک ہے کہ آپ وزیراعلیٰ بھی بنا دیں اس کی اسمبلی بھی نہ ہو اور اس کی سینٹ میں نمائندگی بھی نہ ہو۔ اگر یہ صوبے کے برابر ہے کہ اسے سیدھا سیدھا صوبے کا حصہ ملنا چاہئے۔
اگر صوبے کے برابر ہے تو صوبہ کا درجہ دو، وہاں سے قومی اسمبلی و سینٹ میں نمائندگی آئے گی۔ ضیا شاہد نے مزید کہا کہ چند روز پہلے فافن رپورٹ کی تمام اخبارات میں لیڈ سٹوری شائع ہوئی تھی کہ حالیہ الیکشن شفاف ہوئے، اب وہ کہہ رہا ہے کہ اتنے فارموں پر دستخط نہیں تھے۔ متضاد بیان جاری کر کے فافن کی ساکھ مشکوک ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی کیلئے باعزت طریقہ استعفیٰ دینا ہی تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی بات درست ہےکہ پہلے بابر اعوان اور اب اعظم سواتی نے رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دیا ہے جو پاکستان میں رواج ہی نہیں ہے۔ اگر اعظم سواتی حکومت میں رہتے ہوئے سپریم کورٹ میں پیش ہوتے تو پھر جو بھی فیصلہ آتا لوگوں نے باتیں کرنی تھیں کہ حکومت میں تھے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ وہ وزیر تھے حالانکہ اس سے پہلے اس سے بھی زیادہ سنگین الزامات لگتے رہے لیکن کبھی کسی وزیر نے استعفیٰ نہیں دیا۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر بھی جو پہلے جے آئی ٹی بنی تھی اس وقت بھی لوگ کہتے تھے کہ شہباز شریف و رانا ثناءحکومت ان کی ہے لہٰدا کون مائی کا لعل ان کو پکڑ سکتا ہے لیکن اب یہ حکومت میں نہیں ہوں گے اور اب جو نئی جے آئی ٹی بنے گی اس پر لوگوں کو زیادہ اعتبار ہو گا۔ نئے حالات میں جو جے آئی ٹی کا فیصلہ ہوا ہے اس سے نوازشریف و شہباز شریف کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے، ہو سکتا ہے اب کچھ پولیس والے بھی وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ ریاستی ادارے اب بہتر طور پر کام کر رہے ہیں۔ خوبصورت توازن کے ساتھ عدلیہ، پارلیمنٹ اور فوج اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علیمہ خان کا معاملہ بھی زلفی بخاری والا ہے۔ ان کے خلاف کافی مشکل ہو گی، انہوں نے پاکستان سے باہر پیسے کمائے ہیں صرف دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے کس قانون کی خلاف ورزی ہوئی ان کی دبئی میں پراپرٹی خریدنے سے پھر اصل بات سامنے آئے گی۔ شیری رحمان کی پریس کانفرنس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت کے لئے ٹیکنیکل مسئلہ ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو کیسے پی اے سی کا چیئرمین بنا دے جس پر 6 مختلف مقدمات ہیں۔ اس ملک کا کیا حال ہو گا جہاں لیڈر آف اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات ہوں اور وہی کرپشن کے خاتمے کی کمیٹی کا انچارج ہو۔ لیڈر آف اپوزیشن کا چیئرمین پی اے سی بننا قانون نہیں روایت ہے۔ اپوزیشن سپریم کورٹ میں اسی لئے نہیں گئی کیونکہ آئین میں اس کا ذکر نہیں۔ انہوں نے کہا نوازشریف اور زرداری دور میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازیہوتی رہی ہے، یہ معاملہ تاریخ کا حصہ ہے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ فافن ہمیشہ سے یو ٹرن لینے میں ماہر رہا۔ 2013ءالیکشن میں بھی بہت یو ٹرن لئے تھے۔ اب حالیہ الیکشن کے حوالے سے بھی 4,3 یو ٹرن لے چکا ہے۔ فافن کے موقف بدلتے رہتے ہیں ان کو باہر سے فنڈنگ آتی ہے اور انہی کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ فافن نے اب دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ الیکشن میں 80 ہزار پولنگ سٹیشنوں پر 1 لاکھ 60 ہزار مبصرین مقرر کئے، ان کی فہرست دکھائی جائے۔ یہ سارا غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ ہوتا ہے ان کو باہر سے اربوں روپے ملتے ہیں۔ یو ایس ایڈ، یورپی یونین اور ڈنمارک سے ان کو امداد ملتی ہے،حکومت پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بیرونی فنڈنگ کے مطابق سیمینار کراتے ہیں اور انہی کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ حیرانگی ہوئی کہ وزیراعظم نے کہا کہ فافن نے ہمیں کلین چٹ دے دی، انہیں بات کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے، ان سے گزارش ہے کہ ایسے اداروں کی باتوں میں آ کر قوم کے سامنے کچھ نہ کہیں۔ ہمارے ملک میں این جی اوز کو باہر سے فنڈنگ ملتی ہے جبکہ بھارت اور بندلہ دیش میں یہ قانون نہیں وہاں کسی این جی او کو بیرونی فنڈنگ نہیں ملتی۔ ہماری این جی اوز کی وجہ سے ہی ختم نبوت کے بارے میں جو بحث چلی تھی، انہوں نے انہی ملکوں کے اشاروں پر انتخابی اصلاحات کمیٹی پر اثرورسوخ استعمال کر کے ختم نبوت میں سے حلفاً کا لفظ نکلوایا گیا تھا، انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی شکر ہے ناکام ہو گئی۔ ان اداروں کی مکمل انکوائری و آﺅٹ ہونا چاہئے، کروڑوں، اربوں کی فنڈنگ کا باقاعدہ حساب کتاب ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاریخ ہے الیکشن میں ہارنے والی پارٹیاں نتائج تسلیم نہیں کرتیں۔ حالیہ الیکشن تاریخ میں پہلا الیکشن ہے جس میں جھگڑے نہیں ہوئے۔ انتخابات 2018ءشفاف ہوئے البتہ آر ٹی ایس سسٹم کا تجربہ ناکام رہا۔ پنجاب میں نون لیگ کو اکثریت حاصل ہو گئی تھی لیکن اس نے حکومت سازی میں دلچسپی نہیں لی۔ نون لیگ کے 130 ممبرز کامیاب ہو گئے تھے۔ پنجاب میں اب بھی تحریک انصاف کی حکومت ڈانوا ڈول ہے کسی وقت بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ عمران خان قومی اسمبلی میں 4 سیٹوں پر حکومت کر رہے ہیں، اختر مینگل یا متحدہ قومی موومنٹ الگ ہو جائے تو وفاق میں حکومت ختم ہو جائے گی۔ بلوچستان میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت مستحکم ہے، ان چیزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ الیکشن صاف و شفاف ہوئے ہیں اگر گڑ بڑ ہوتی تو عمران خان کی اکثریت زیادہ ہوتی۔ پارلیمانی کمیٹی اب غوروخوض کرے گی، کہیں کوئی بے ضابطگی ہوئی تو سامنے آ جائے گی، مجموعی طور پر حالیہ انتخابات شفاف ہوئے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv