تازہ تر ین

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم نے امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یو اے ای کے دورے سے بھی اچھی خبر سننے کو ملے گی۔ سردار آصف احمد علی سعودی عرب کے پیکیج کے بعد ین نے بھی کہا ہے ہم رقم نہیں بتائیں گے سرمایہ کاری کریں گے۔ یو اے ای سے بھی مشترکہ منصوبہ بندی کے معاہدے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے بھی کوئی اعلان نہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ فارن ڈپلومیسی میں یہ اعلان نہ کرنا اس کی کیا وجہ ہوتی ہے اعلان کرنے کی کیا وجہ ہوتی ہے۔ اگر چائنا نے یہ اعلان بھی کیا کہ سعودی عرب کی طرح چین اوپن نہیں کرے گا تو کیا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہمارے مشکل حالات ہیں وہ ہمارے ساتھ ہوں گے۔ ہمیں چین اور متحدہ عرب امارات سے کیا توقع رکھنی چاہئے۔
سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا ہے کہ چین کا دورہ ہوا ہے انہوں نے اس ساری چیز کو لانگ ٹرم میں دیکھا ہے اور شاٹ ٹرم منصوبوں میں زیادہ شرکت نہیں کرتے لانگ ٹرم میں ایک ویژن ہے اس کے مطابق وہ چلتے ہیں اس کے مطابق انہوں نے جو کچھ کتنا نکالنا ہے ان کا کوئی مغربی ممالک کی اکانومی ویسی نہیں ہے اکانومی ہے اس کمانڈ اکانومی کہا جاتا ہے اور کمانڈ انکانومی میں پورا پورسیجر ہے جو کہ خاص بیورو کریٹک ہوتا ہے اور اس پروسیجر کے تھرو وہ معاملہ جائے گا سنٹرل کمیٹی کے پاس اور پھر وہ کمیٹی پراکنامک کے پاس جائے گا اور پھر وہ فیصلہ کرے گی۔ مگر سعودی عرب کا جہاں تک تعلق ہے وہاں کوئی پروسیجر وغیرہ نہیں ہے وہاں شاہی خاندان جو فیصلہ کر دے وہی حرف آخر ہوتا ہے تو انہوں نے فیصلہ کر دیا ہے اب معاملہ رہا یو اے ای کا اس میں میرا تجربہ یہ ہے کہ 6 سال میں نے ان ملکوں کے ساتھ کہا ہے ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ یو اے ای کے جتنے بھی ملک ہیں کہ اگر آپ کو سعودی عرب کی طرف سے حمایت اور تائید ہو جائے اور سعودی عرب کی طرف سے ان ملکوں کو یہ مشورہ دے دیا جائے کہ پیسہ دے دو۔ اگر وہاں سے مشورہ نہیں ملا تو پھر پراجیکٹ کے لئے وہ آپ کو ضرور دیں گے۔ آپ کو بڑے بڑے سے بڑا پروجیکٹ لے جائیں اس کے لئے آپ کو پیسہ مل جائے گا مگر جہاں تک ان کے سیاسی فیصلے ہیں وہ جب تک سعودی عرب سے اوکے نہیں ہو گا یا مشورہ نہیں ہو گا وہ اس وقت کمنٹ منٹ نہیں کریں گے۔ یہ میرا تجربہ ہے جو میں 6,5 ڈیل کرتا رہا ہوں، سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی تحقیقات کے حوالے سے 5 رکنی لارجر بننے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ دراصل نوازشریف شہباز شریف رانا ثناءاللہ صاحب اور بعض دوسرے نام بھی لئے گئے تھے طاہر القادری اور خرم نواز گنڈا پور کی طرف سے کہ ان کو عدالتی تحقیقات میں ان کو بھی شامل کیا جائے اور عدالتی کارروائی میں ان سے پوچھا جائے لیکن ہائی کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی اب ہائی کورٹ کی اس مسترد شدہ درخواست کے خلاف پاکستانی عوامی تحریک نے اس میں ایک سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے اور انہوں نے اسش رٹ میں یہ کہا تھا کہ جناب ان کو کیوں نہ شامل کیا جائے۔ کیونکہ یہ فیصلہ اس وقت وزیراعلیٰ کی سطح پر ہوا تھا اور وزیراعلیٰ کے پیچھے وزیراعظم بھی موجود تھے۔ جناب نوازشریف اس لئے یقینی طور پر ان کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے۔ اب جو موجودہ سپریم کورٹ ہے اس کے چیف جسٹس صاحب نے جو انگلینڈ جا رہے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں ایک واضح طور پر یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ ایک فیصلہ تو یہ دے دیا ہے کہ جو ایگزسٹ کیا تھا ہائی کورٹ نے اور جو استثنیٰ قرار دیا تھا کہ ٹھیک ہے آپ نوازشریف صاحب، شہباز شریف صاحب اور رانا ثناءاللہ وغیرہ کو عدالت آنے کی ضرورت نہیں ہے ایک تو اس فیصلے کو ختم کر دیا ہے اور پیچھے کر دیا ہے انہوں نے کہا کہ یہ لوگ خود بھی شامل ہوں گے۔ اس کے لارجر بنچ میں چیف جسٹس صاحب خود، آصف سعید کھوسہ جو نمبر2 ہیں وہ ہوں گے۔ یاد رہے کہ آصف سعید کھوسہ ہی جناب ثاقب نثار کے دو ماہ کے بعد ریٹائرمنٹ کے بعد آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس بنیں گے پاکستان کی سپریم کورٹ کے اور باقی تین ججوں کے نام ابھی نہیں آئے لیکن آج رات یا صبح کسی وقت ان کا اعلان ہو جائے گا۔ اب 5 دسمبر کو بھی کیس شروع ہو گا اور طاہر القادری کی پارٹی کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ اس میں باقاعدہ طور پر نوازشریف، شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ صاحب کو اور اس کے علاوہ دیگر ملزمان کو، ان کی استثناءکی شرط ختم ہو گئی۔ اب اس کیس کی اہمیت بڑھ جائے گی کیونکہ ملزموں کے لیول سے ہی مقدمے کا قد بڑا ہوتا ہے۔ اگر تین چار عام سے لوگوں پر مقدمہ چلا دیا جائے تو اس کی شکل ہو گی اور اگر سابق وزیراعظم، سابق وزیراعلیٰ سابق صوبائی وزیر قانون اس میں پیش ہو رہے ہوں گے بطور ملزم تو اس مقدمے کی شکل بالکل اور ہو گی۔ اب مجموعی طور پر سپریم کورٹ میں مقدمہ سنے گا لہٰذا اب یہ فیصلہ کرنا بھی سپریم کورٹ کا کام ہو گا کہ کون سی رپورٹ شامل کی جائے اور کون سی رپورٹ کی اب ضرورت نہیں ہے۔ گویا روزانہ کی بنیاد پر سماعت میں وہ جس رپورٹ کی ضرورت محسوس کریں گے اس وک شامل کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کا جس بے باکانہ انداز میں کھرا اور دو ٹوک جواب دیا ہے اس طرح پہلے کسی حکمران کو توفیق نہیں۔ انہوں نے امریکہ اور نیٹو کی ساری افواج مل کر افغانستان میں کام نہ کر سکیں جو پاک فوج نے دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے کر دکھایا۔ پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں ارب ڈالر خرچ جبکہ اسے کولیشن فنڈ کی صرف رقم ملی۔ اس کے باوجود امریکہ خراج تحسین پیش کرنے کی بجائے امریکہ الٹا پاکستان کو تڑیاں لگا رہا ہے کہ پاکستان نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا۔ عمران خان نے کہا ہے ٹرمپ اپنی ریکارڈ درست کر لیں پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔
سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ میں یہ سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا پاکستان کی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دبنگ قسم کے کرارے جواب دیں یا ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دبنگ قسم کی کراری پالیسی اختیار کریں۔ میری نظر میں اس حکومت کی جو مسلسل وہ عوام کو مطمئن کرنے کے لئے جو مودی بھی کرتا ہے ٹرمب بھی کرتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان بھی کرتے ہیں اس کے اوپر ملک کی سٹیٹ پالیسی جو ریفلکٹ شاید نہیں کرتے اس میں وضاحت یہ ہے کہ نہ تو صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ جو نیا ہے یہ امریکن مسلسل کہتے آ رہے ہیں نہ عمران خان نے کچھ نیا کہا ہے کہ یہی پاکستان کا موقف رہا ہے کہ آپ نے ہمارے اوپر پورا ملبہ، اپنی افغانستان میں شکست، اپنی غلطیوں کاملبہ پاکستان پر ڈالا ہوا ہے۔ پاکستان کا یہ ہمشیہ سے موقف رہا ہے۔ ایک طرف پاکستانکے وزیرخارجہ جو واشنگٹن ڈی سی جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آل از ویل یہ ری سیٹ کر رہے ہیں پالیسی امریکہ ہمارا اہم پارٹنر ہے ہم اس سے بہترین تعلقات چاہتے ہیں وہاں سیکرٹری آف سٹیٹ کچھ کہتے ہیں کہ ہماری پالیسی ساﺅتھایشیا سے وہی ہے جو صدر ٹرمپ نے آج سے تقریباً سال پہلے کہی تھی جس میں انڈیا ہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ اور پاکستان کو ہم ذمہ دار کہتے ہیں اور افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی گفت و شنید آگے لے کر چل رہا ہے۔ سوچنا ہو گا۔ دوسری طرف آپ بڑا سیلی بریٹ کر رہے ہیں ماشاءاللہ ہمارے وزیراعظم نے کتنی بڑی بات کہہ دی۔ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں شاید اس سے زیادہ بھی ہوئی ہیں لیکن جو قابل تعریف بات یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ جو پالیسی ہے اس کو ہم کس طرح سے بدل کر پاکستتان کے ققومی مفاد میں لا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کو کہنا چاہئے تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے لئے پالیسی کسی طرح تبدیلی ہوئی ہے۔ کس طرح کوئی ٹرن آیا ہے یا یو ٹرن آیا ہے۔مجھے اس میں کچھ نظر نہیں آتا نہ فارن آفس کی طرف سے نہ وزیرخارجہ کی کی اگر آپ پالیسی تبدیل کرتے ہیں تو ملک کو بتائیں اور دبنگ طریقے سے اور کرارے طریقے سے بتائیں۔ زبان کراری استعمال کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ جب سے آئے ہیں آتے ہی انہوں نے مسلمانان عالم پر چڑھائی کر دی اور پھریہ کہنا شروع کردیا کہ غیر امریکی لوگ جو امریکہ میں موجود ہیں ان کو میں نکال باہر کروں گا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اتنی انتہاپسندانہ پالیسیاں اپنائیں کہ لگتا تھا پتا نہیں کیا اتھل پتھل کر دے گا۔ پھر اس کا ردعمل شروع ہوا ۔ امریکہ میں حکومت جو چاہتی ہے علی الاعلان نہیں کر سکتی اس کے راستے میں بہت سی رکاوٹیںہوتی ہیں۔ تھنک ٹینکس، تھنکنگ سیلز، یونیورسٹیز میں مختلف پیپرز اور ریسرچز کی روشنی میں ایک متوازن پالیسی ریاست کو دی جاتی ہے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اس کو اپناتا ہے۔ چنانچہ ٹرمپ جتنی مرضی اشتعال انگیز تقاریر کرتے رہیں، میں نے اسی میز پر کہا تھا کہ یہ گیدڑ بھبکیاں بہت جلد ختم ہوجائیں گی۔ کیونکہ جب عملا یہ کام کرنے لگیں گے تو ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ہی انکے خلاف کھڑے ہوں گے۔ حال ہی میں امریکی مڈ ٹرم الیکشن میں کانگریس یا سینٹ میں ان کی تعداد کم ہوگئی ہیں۔ ٹرمپ حکومت کے پاس اب اتنے اختیارات نہیں ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ کوئی انتہاپسندانہ پالیسی بنا سکیں گے۔ انکو ماڈریٹ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ دونوں ہاﺅسزمیں سے ایک میں ڈیموکریٹس کی تعداد زیادہ آگئی ہے اور ٹرمپ ری پبلیکن ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواز شریف جب اپنا وفد لیکر گئے تو اس میں مریم نواز اور کلثوم نواز بھی تھیں ۔ انہوں نے جا کر صدر ٹرمپ کی اہلیہ سے بھی ملاقاتیں کی تھیں اور بڑے بڑے فلاوری وعدے بھی کیے تھے کہ پاکستان امریکہ کے لیے یہ کرے گا اور وہ کرے گا۔ اگرچہ ہم کچھ زیادہ کام نہیں کر سکے ۔ الزام لگانا دنیا کا سب سے آسان کام ہے ۔ امریکہ بھی الزام لگا دیتا ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ آصف علی زرداری کی صدارت کے دور کا واقعہ ہے جب ایک سرجیکل سٹرائیک ہوئی اور انہوں نے ہیلی کاپٹرز سے ایک گھر میں جہاں اسامہ چھپا ہوا تھا، نہ عوام کو پتاتھا، نہ فوج کو پتا تھا اور نہ حکومت کو پتا تھا کہ یہاں گمنام حالت میں اسامہ بن لادن چھپا ہوا ہے۔ اسامہ کو قتل کر کے اس کی لاش ساتھ لے گئے اور راستے میں جاتے ہوئے بحر ہند میں اسکی لاش گرا دی۔
امریکی صدر ذکر کر رہے ہیں کہ دیکھیں انہوں نے تو اسامہ بن لادن کو اپنے پاس رکھا تھا۔ تب سے آج تک آصف علی زرداری اور نواز شریف نے 10سال حکومت کی اور اب عمران خان کی حکومت میں گیارہواں سال ہے ۔ مگر اب تک پرانے تعنے دئیے جارہے ہیں۔ کپتی رن بات بات پر بہانے گھڑتی ہے۔ وہ کہتی کہ تیرا جو دادا تھا نہ، میری پھوپھی کے آنے پر اس نے اچھا کھانا نہیں بنوایا تھااور پھر لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
پروگرام میںسیکرٹری جنرل عوامی تحریک خرم نواز گنڈا پورنے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کسی کے تصور میں نہیں تھا کہ ایک بچی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان ایکشن لیں گے اور تقریباً 139 افراد جن میں ملک کا سابق وزیراعظم، صوبے کا سابق وزیراعلیٰ، 4وفاقی وزراءسب شامل ہوں گے ۔ آج سے چند سال پہلے تک اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس پر چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستان کی قوم کو مبارکباددیتے ہیں کہ ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہوگئے ہیں جہاں طاقتور لوگوں کو عدالتوں میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ پورے ملک کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں توسیع کی گئی ہے کہ آپ گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ای چالان آجاتا ہے۔ ایک کیمرے نے رات کی تاریکی میں آپ کی گاڑی کو دیکھا ہوتا ہے اور اس چیز کو ای چالان بھیجنے کے لیے ٹھوس ثبوت سمجھا جاتا ہے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحے میں 20سے لیکر 25یا 30ٹی وی چینلز کے کیمروں نے ہر چیز اپنی آنکھوں سے دکھائی اور کروڑوں آنکھوں نے دیکھا کہ پولیس نے کس بے دردی کیساتھ لوگوں کو زودوکوب کیا ، تشدد کیا ، ہڈیاں توڑیں، ہاتھ باندھ کر لوگوں کو ایمبولینس میں مارا گیا، گلو بٹ نے جو کچھ کیاوہ تاریخ میں رقم کر دیا گیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ آج گلو بٹ سپریم کورٹ کی سماعت میں موجود تھا۔ مسلم لیگ ن یا پولیس کا آج گلو بٹ کو لانے کا کیا مقصد تھاجو پولیس کی مدعیت میں وہاں پیش ہوا۔ آج کے کیس میں نہ اسے بلایا گیا تھا اور نہ آج کسی چیز کا عینی شاہد تھا۔ اسے لانے کا مقصد دوبارہ سے ان بچیوں پر دہشت کا اثر بٹھانا تھا کہ ہمارے گلو بٹ ابھی آزاد پھر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بننا بڑی خوش آئندبات ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ٹور ہوتی ہے کہ زبردست مونچھوں والا ایک بندہ وہاں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، لوگوں کو پتا چل رہا تھا کہ یہ بھی اس جنگ کا ہیرو ہے۔
خرم نواز کاکہنا تھا کہ بدقسمتی سے گلو بٹ کیمروں کی قیدمیں نہیں آیا مگر میں نے اس سے ایک سوال پوچھا کہ تم نے کون سا قلعہ فتح کیا ہے جو سپریم کورٹ میں آئے ہواور آکر اپنی حاضری سامنے لانا چاہ رہے ہو۔ اگر تمہار اخیال ہے کہ ہماری بچیاں یا کوئی تحریک منہاج القرآن کا شخص تم سے خوفزدہ ہوگا، ہم تم جیسے لوگوں کو کسی گنتی میں نہیں رکھتے ، ہماری جن سے لڑائی ہے ہم ان سے لڑ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے میاں منشاءکی فیکٹری کو دس کروڑ جرمانہ اوررقم ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ جھیل کلر کہارسے ایک سڑک سیدن شاہ کی طرف جاتی ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں ایک گاﺅں جرنیلاں دا پنڈ کہتے ہیں ۔ اس گاﺅں میں 11جرنیل پیدا ہوئے تھے۔ کٹاس میں ہندوﺅں کی پرانی مذہبی عمارتیں ہیں اور عمارتوں کے درمیان پانی زمین کے نیچے سے ابلتا ہے۔ اس جگہ پر یہ اجازت تھی اور نل کے ذریعے سیدن شاہ پینے کا پانی لے جایا جاتا ہے۔ آج مسلم کمرشل بینک کے سربراہ پاکستان کے صف اول کے سرمایہ کار اور سرمایہ دار میاں منشاءکو سپریم کورٹ کی جانب سے جرمانہ کیا گیا ہے۔ میاں منشاءکے خلاف پرانے مقدمات اب بھی چل رہے ہیں۔ یہ نواز شریف کے ساتھ چین ایران اور دیگر ملکوں کے دورے پر جایاکرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ فرنٹ مین کی حیثیت سے جائزہ لیتے تھے کہ کہاں کہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ سرمایہ کاری تو انہوں نے اپنی جیب سے کرنا نہیں ہوتی ، ان کے پاس تو پورا بینک پڑا ہے۔ لا انتہا پیسہ بینک کی شکل میں موجود ہے اور وہ کسی بھی جگہ سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ ایک زمانے میں افواہ اڑی تھی کہ پی آئی اے بھی وہی خرید رہے ہیں اور کہا جاتا تھا کہ نوازشریف ہی ان کے پیچھے ہوں گے۔
ان کو آج اس لیے جرمانہ کیا گیا ہے کہ انہیں وہاں سے صنعتی استعمال کے لیے پانی لینے کا حق حاصل نہیں تھا۔
راوی کے پانی کو گندا کیے جانے کے حوالے سے کیس کی سماعت پر ضیا شاہد نے کہا کہ دنیا میں ٹرینڈ بدل رہا ہے۔ پچھلے پچیس سال سے دنیا میں زیر زمین پانی پر زیادہ ٹیکس نہیں کیا جاتا۔لوگوں کا غلط خیال ہے کہ زمین کے نیچے پانی ہی پانی ہے جتنا جی چاہے نکال لو۔ جب میں ملتان سے میٹرک کرنے کے بعد لاہور آیا تو لاہور میں 10سے 12فٹ کی گہرائی میں پانی نکل آتا تھا اور اس وقت راوی بہتا تھا۔ پھر سندھ طاس کا معاہدہ ہوا اور راوی خشک ہونے سے اب زیر زمین پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ ٹیوب ویل اب 160فٹ نیچے سے پانی لاتے ہیں۔ بعض مقامات پر 1130فٹ نیچے سے پانی لانا پڑتا ہے ۔ پانی کی زیر زمین سطح کم ہورہی ہے۔ پانی احتیاط سے استعمال کرنا چاہئے ۔ پاکستان میں بی آر بی اور دیگر نہروں سے پانی لیکر پینے کے لیے استعمال کیا جائے گا کیونکہ زیر زمین پانی کم ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے سمجھتا ہوں کہ آج کا مقدمہ بہت اہم تھا اور آئندہ بھی حکومت پاکستان خیال کرے گی کہ اندھا دھند طریقے سے بنا سوچے سمجھے زمین سے بور کر کے پانی نہ نکالا جائے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv