تازہ تر ین

انٹرنیشنل گینگ کی ہولناک تفصیلات سامنے آگئیں

 

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ امریکہ، اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ بہت پرانا ہے۔ جب نیتن یاہوں بھارت آئے اس وقت میں نے اسی فورم پر کہا تھا کہ بہت جلد کوئی بڑی کارروائی ہونے والی ہے۔ تجارتی، ثقافتی، کاروباری معاہدے وزیراعظم بیٹھ کر دستخط نہیں کیا کرتےے سیکرٹریز یا سپیشل مشن بیٹھ کر یہ معاملات کر لیا کرتے ہیں۔ نیتن یاہوں کا یہ دورہ چھ روزہ تھا۔ اسی دوران دو بیان بھی سامنے آئے نیتن یاہو اور مودی دونوں کا ایک ہی بیان تھا صرف لفظ کا ہیر پھیر تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ انڈیا کو چاہئے کہ پاکستان کے اندر موجود دہشت گردی کے اڈوں کو ختم کرانے میں مدد کرے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان انٹرنیشنل بارڈر موجود ہے۔ پھر بھارت کس طرح کارروائیاں کر سکتا ہے۔ اس پر ہمارے آرمی چیف کا بیان آیا کہ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کر کے دیکھے ہم اسے مزہ چکھا دیں گے۔ وزیرخارجہ کا بھی اس پر ردعمل آیا۔ یہ بات ثابت ہے کہ اسرائیل اور بھارت نے مل کر کوئی لانگ ٹرم پالیسی بنائی ہے جس کے لئے ان دونوں کا اکٹھے یٹھنا ضروری تھا۔ میں نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے کچھ دیر قبل گفتگو کی ہے۔ انہیں اپنے چینل پر مدعو کیا تھا اتفاق سے ان کا اور میرا پروگرام ایک ہی وقت پر نشر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا تھا کہ سانحہ قصور کے گرفتار ملزم عمران کے 37 بینک اکاﺅنٹ ہیں اور ایک صوبائی وزیر اس معاملے کے پیچھے ہے۔ میں نے کہا تھا کہ کچھ سیاستدان مجرموں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں 300 بچوں کے معاملے پر صوبائی وزیر نے کہا کہ یہ پراپرٹی کا جھگڑا ہے اسے فضول اچھالا گیا ہے۔ ہم نے اپنے شبہات کا اظہار کیا کہ جتنے بھی واقعات اس قسم کے ہو رہے ہیں۔ ایک انڈین بچی رادھا کا کیس بھی زینب سے ملتا جلتا ہوا۔ میں نے اپنے چینل سے وزیراعلیٰ سے درخواست کی ہے کہ پتا کرائیں یہ سیریل کلر کہیں ویڈیوز تو نہیں بنا رہا تھا۔ ملک احمد خان صاحب ملزم کے اکاﺅنٹس والی بات تو شاید ٹھیک نہ ہو۔ لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا ہے کہ وہ اپنا جواب اتوار کو سپریم کورٹ میں جمع کروائیں گے۔ میں آپ کی توجہ ایک اور معاملے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ قصور کے ایک ضلع چونیاں میں ایک شخص کو کسی نے بتایا کہ آپ کے بچے کے ساتھ زیادتی کی فلم یو ٹیوب پر چل رہی ہے اس شخص نے جب یو ٹیوب کھولا تو اپنے بچے کی ویڈیو دیکھ کر بچے کو مارا پیٹا۔ اس پر بچے نے انکشاف کیا کہ ڈیرھ سال سے یہ مجرم لوگ مجھے لے کر جا رہے تھے۔ آخر میں انکار کیا تو انہوں نے یو ٹیوب پر فلم ڈال دی۔ آج ہی یہ کیس پولیس میں درج ہوا ہے۔ دوسرا واقعہ سرگودھا کا ہے۔ اس بندے کا نام منٹو ہے۔ چند ماہ قبل اسے گرفتار کیا گیا۔ اس کے پاس سے 600 بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز تھیں۔ اس نے تسلیم کیا کہ وہ ناروے کی ایک ویب سائٹ ”ڈارک“ کے لئے کام کرتا ہے۔ تسلیم کیا کہ 300 یورو ایک مووی کے ملتے ہیں۔ اس نے 600 ویڈیوز بنا کر ڈھائی کروڑ روپے کمائے۔ وہ اس وقت ایف آئی اے کی تحویل میں ہے ڈاکٹر عثمان، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے تھوڑی دیر پہلے بتایا ہے کہ ہارڈ ڈسک پر یہ موویاں موجود تھیں۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ ایک دن میں تین واقعات سامنے آئے ہیں۔ میری شہباز شریف سے درخواست ہےکہ اخبارات میں ٹیلی فون دیں جس کے ذریعے یہ شکایات وزیراعلیٰ تک پہنچائی جائیں۔ لوگ ان معاملات سے بہت خوفزدہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پولیس بھی کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ ملک احمد خان قصور کے حلقے سے ہیں ان کے والد ڈپٹی سینٹ چیئرمین رہ چکے ہیں۔ چونیاں، ہارون آباد اور ڈیرہ غازی خان کے تین واقعات آج رپورٹ ہوئے ہیں۔ ملک صاحب یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ ڈارک ویب سائٹس دنیا کے کسی بھی کونے سے لیپ ٹاپ کے ذریعے آپریٹ کی جا سکتی ہے لوگ (سیڈسٹ) ان مجرموں کو ہدایات دیتے ہوں گے کہ اب ان کے ساتھ یہ کرو۔ اب بازو کاٹو۔ اب اس کی زبان کھینچو۔ ورنہ جنسی جنونی کا یہ کام نہیں کہ وہاس طرح کاو حشیانہ عمل کرے۔ سرگودھا کے کیس میں ایک آدمی (منٹو) کیبل آپریٹر تھا۔ کمپیوٹر کا ماہر تھا اور سافٹ ویئر کا بھی ماہر تھا۔ ایئرفورس کے کمپیوٹر بھی درست کرتا رہا۔ یہ بندہ قبول کرتا ہے کہ اس نے 600 بچوں کی ویڈیو فلمیں اس کی ہارڈ ڈسک پر موجود ہیں۔ جو ایف آئی اے کے پاس موجود ہے۔ منٹو اس وقت جیل میں ہے اس کا فیصلہ آنے والا ہے۔ جاوید نامی شخص جو بچوں کو مار کر تیزاب میں ڈالا کرتا تھا،اس نے خود کو پولیس کے آگے پیش کیا کہ میں اس کام سے تنگ آ چکا ہوں بعد میں وہ شخص جیل میں مر گیا۔ اس کے پیچھے کون تھا کون اسے بچے پکڑ کر لانے کو کہتا تھا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ عمران علی کی جان کو خطرہ ہے جس پر عدالت نے پولیس نے کہا کہ آپ کی ذمہ داری ہے اس کی جان کا تحفظ کرنا تا کہ تمام حقائق منظر عام پر لائے جائیں۔ جیل میں کسی شخص کو مروانا بہت آسان کام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جاوید کو بھی جیل میں مارا گیا اور کہا گیا کہ اس نے خود کشی کی ہے۔ کیونکہ اگر تفتیش مکمل ہوتی تو اصل چہرے سامنے آتے جو اسے کہا کرتے تھے کہ ایسا کرو۔ عمران علی نے کہا کہ مجھ پر جن آتے ہیں۔ مجھے پیر نے کہاکہ ایسا کرو۔ اس کے پیر کو پکڑا بھی گیا لیکن اس کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ مجرم عمران علی دین کا نام لے کر ایسا گھناﺅنا فعل کرتا تھا۔ یہ کون سا مذہب ہے۔ کو یہ کون سی انسانیت ہے جے آئی ٹی، پولیس کیا تحقیقات کر رہی ہے، تمام حقائق لوگوں کے سامنے لے کر آئیں۔ ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے کہا ہے کہ سانحہ قصور کی انویسٹی گیشن شروع ہوئی تو اسے ان خطوط پر بھی دیکھا گیا کہ کوئی ایسا ثبوت مل جائے جس کی بنا پر تعین کیا جا سکے کہ کہیں وہ ویڈیوز بنانے جیسے گھناﺅنے عمل میں شریک تو نہیں ہے۔ اطلاعات اس قسم کی تھیں کہ ایسے مجرم بچیوں کو پکڑ کر ان کے اعضاءاستعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب عمران علی پکڑا گیا اور اس سے تفتیش کی گئی اور سین کا ملاحظہ کیا گیا۔ اور دیگر شواہد اکٹھے ہوئے۔ ان کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ شخص ایک ذہنی بیمار شخص ہے۔ جوو جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے ایسا جرم کرتا ہے۔ اور بچیوں کے گلے دبا کو انہیں مارتا ہے۔ اس کا ڈی این اے بھی کروایا گیا۔ اور حقائق سامنے آنا شروع ہو گئے۔ تمام پہلوﺅں پر تفتیش کی گئی۔ خاص طور پر کہ ایک طرح کا جرم بار بار کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ جب اس کا مکمل چالان جمع کروایا جائے گا۔ تو کورٹ کے سامنے تمام حقائق رکھ دیئے جائیں گے۔ دنیا میں چائیلڈ پورنو گرافی ہوتی ہے اس میں شک نہیں۔ یورپ کے کچھ ممالک میں اس قسم کی ویڈیوز کی مانگ بھی ہے۔ اس کے ثبوت بھی شوشل میڈیا پر آسانی سے مل جاتے ہیں ہمارے معاشرے میں یہ برائی سرائیت کر چکی ہے۔ ضیا صاحب! آپ کی خبر مستند ہوا کرتی ہے۔ سرگودھا اور چونیاں میں ایسا ہوا ہو گا۔ لیکن اس وقت حکومت کو جن مسائل کا سامنا ہے اس میں قوانین کا سخت ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔ حکومت پنجاب نے پی ٹی اے کو ٹول فری نمبر دینے کے لئے کہہ دیا ہے۔ تا کہ لوگ باآسانی ہم سے رابطہ کر سکیں۔ اور بہت جلد یہ ٹول فری سب کے لئے موجود ہو گا۔ نمائندہ خبریں قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ تھانہ چونیاں کی حدود میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے جس میں مدعی شاہد رسول نے جس کا بیٹا حافظ قرآن ہے حسن محمود۔ وہ ڈیڑھ سال قبل اغوا ہوا ہے زیادتی کی گئی اور اس کی ویڈیو فلم بنا لی۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ اس مجرم گروہ نے اور بھی کئی بچوں کے ساتھ زیادتی کی اور ویڈیو بنائی ہے۔ حسن محمود 15 سال کا ایک طالب علم ہے۔ جب اسے اغوا کیا گیا اور ڈیڑھ سال تک اس کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی۔ لیکن جب اس نے انکار کیا تو اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی۔ والد کو پتا چلا تو اس نے بچے کو پیٹنا شروع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ ڈیڑھ سال پہلے کرکٹ کھیلنے کے بہانے یہ مجھے لے کر گئے اور ویڈیو بنا لی۔ میں ڈیڑھ سال تک اس زیادتی کو سہتا رہا لیکن اب نہیں سہہ سکتا۔ یہ ایف آئی آر درج کروانے کے لئے شاہد رسول کو بہت دھکے کھانے پرے۔ پولیس نے ایف آئی آر چھپا لی۔ ہم نے بہت مشکل سے یہ ایف آئی آر حاصل کی ہے۔ انڈیا کی ایک مووی ”پیج تھری“ اس موضوع پر بنی ہوئی ہے۔ زینب اور دیگر بچیوں کے کیس میں بہت سے تضادات ہیں۔ کسی بھی کیس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری نہیں کی جا رہی۔ میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ زینب کیس میں بھی اس کی نسیں کاٹی گئیں۔ زبان کھینچی گئی اور غیر فطری عمل بھی کیا گیا۔ تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا ہے کہ جس دن سے یہ مجرم عمران پکڑا گیا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک شخص کا کام نہیں ہو سکتا۔ اس نے زینب کو جہاں رکھا وہاں کسی اور کو چھوڑ کر گلی محلے میں پھرا کرتا ہو گا۔ تا کہ کسی کو شک نہ ہو۔ بچی کے رشتہ داروں نے گواہی دی کہ یہ ان کے ساتھ مل کر ڈھونڈتا رہا۔ شاید یہ مجرم نہیں ہے۔ میں ضیا صاحب کو خراج تحسین پیش کرتی ہو ںکہ انہوں نے معاملہ اٹھایا ہے کہ یہ ایک شخص کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔ اسے ذہنی پاگل کہہ دینا کافی نہیں۔ ریپ کیس میں فرانزک یعنی ڈی این اے ایک بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ حکومت اور پولیس یہ بات واضح کرے کہ وہ ڈی این اے ایک بندے کے ہیں یا کئی اور لوگوں نے بھی زیادتی کی ہے۔ میں نہیں مانتی کہ اس پورے کام کے پیچھے صرف ایک شخص تھا۔ جس طرح کا تشدد ہوا ہے وہ ایک شخص کا کام نہیں۔ ڈارک نیٹ باکس موجود ہیں۔ یہ گوگل اور پورن سائٹ پر مبنی ہوتی ہے بلکہ کریٹو کرنسی پر چلتی ہیں مڈل ایسٹ میں خصوصی طور پر۔ اونٹوں پر بچوں کو باندھ کر بھگانا حتیٰ کہ بچے مر جاتے تھے۔ یہ سارے کام کریٹو کرنسی میں ہوتے ہیں جسے صرف ایک ماہر ترین حکومتی شخص ہی اَن لاکھ کر سکتا ہے۔ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ عمران علی کو سرعام پھانسی دیدیں بدترین سزا دیدیں لیکن یہ معاملہ حل ہونے والا نہیں جب تک کہ گینگ پکڑا نہیں جاتا جاوید کا کیس بھی ایسا ہی تھا۔ اس کی وجہ سے پولیس اور انتظامیہ کی بہت بے عزتی ہوئی تھی اس نے سارا ملبہ جاوید پر ڈال دیا اور بالآخر اسے مروا دیا گیا۔ یا مار دیا گیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv