تازہ تر ین

دینی جماعتوں سمیت کوئی پارٹی احتساب کا عمل ،نہیں چاہتی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی اور سیاسی خاندان ہو جس میں نیب زدہ شخص موجود نہ ہو، نیب چیئرمین کی تقرری ان ہی افراد کیلئے اہمیت کی حامل ہے۔ فوجی ترجمان کے بیان کے بعد تمام شکوک و شبہات ختم ہو جانے چاہئیں کوئی ادارہ ٹکراﺅ کا شکار نہیں۔ معروف تجزیہ کار، مکرم خان نے چینل ۵ کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جس میں نیب زدگان نہ ہو۔ ہر سیاسی خاندان، سیاسی پارٹی میں نیب زدہ انسان ضرور ملے گا۔ چیئرمین نیب کی تقرری ان لوگوں کے لئے اہمیت کی حامل ہے ریاست کے اندر ریاست کا نعرہ کوئی نیا نعرہ نہیں ہے

اس سے پہلے بھی حکمران ایسا کرتے رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے۔ انہوں نے ایک بریگیڈیئر صاحب کو سکول سے نکال دیا اور کھڈے لائن کر دیا۔ یہ کس کیلئے پیغام تھا سب جانتے ہیں۔ فوجی ترجمان کے آج کے بیان کے بعد تمام شکوک و شبہات ختم ہو جانے چاہئیں۔ اداروں کے درمیان جو چپقلش سامنے آئی ہے۔ وہ معمولی نہیں۔ لوگوں سے جلد ہضم نہیں ہو گی۔ سیاست دانوں کے مابین مقابلے میں سمجھ نہیں آ رہی کہ کون زیادہ بڑا صادق اور امین ہے۔ آصف زرداری، جو سوئس اکاﺅنٹ کے ہولڈر تھے۔ ان کے خلاف سوا سال کیس چلا۔ لیکن نتیجہ صفر نکلا۔ اسی طرح پاناما کا معاملہ ہے۔ نوازشریف زرداری سے آگے نکل گئے۔ آصف زرداری جیل میں ہوتے ہوئے بھی ہسپتال میں ہوا کرتے تھے۔ عدالتوں کی جتنی تذلیل میاں نوازشریف نے کی۔ اتنی کسی نے نہیں کی کراچی میں خواتین پر تیز دھار آلے سے زخمی کرنا۔ فلموں میں تو سنا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہی سامنے آ گئی ہے۔ یہ عوام کو خوفزدہ کرنے کے لئے ہے۔معروف تجزیہ کار توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کیلئے کوئی احتسابی عمل یا قانون اس وقت خراب یا کالا ہوتا ہے جب وہ خود اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ نیب قانون میں جب پی پی پی والے آئے تو ان کے لئے یہ کالا قانون بن گیا جب تحریک انصاف والے اس کی زد میں آئے تو ان کے لئے یہ کالا قانون بن گیا۔ شاید ہی کوئی سیاسی خاندان ہو جو نیب قانون کے اندر نہ آیا ہو۔ وزیرداخلہ اور وزیرخارجہ کیا وزیراعظم سے ہدایات لے کر بیان دیتے ہیں۔ وہ تو کہیں اور سے آرڈر لیتے ہیں اور بات کرتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور حکومت کے آنکھ کھلنے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ امریکی وزیرخارجہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں ”پاکستان کی حکومت کے بارے تشویش ہے“ میاں نوازشریف کا کیس تو ابھی نیب عدالت میں ہے۔ ابھی ان کے پاس ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ جانے کے حقوق باقی ہیں اور شاید سپریم کورٹ تک جاتے جاتے یہ جج ہی نہ رہیں اور ان کی جگہ کوئی ور آ جائیں گے جن پر نوازشریف کو اعتراض ہے۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے نوازشریف کو ریلیف دیا تھا۔ ہمیں ریڈ لائن کا خیال رکھنا چاہئے۔ جب بھی دوسری جانب جائیں گے خرابی پیدا ہو گی۔ کراچی کے واقعات کے اثرات پورے ملک میں پھیل رہے ہیں بچیاں خوفزدہ ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ تجزیہ کار خالد فارثوقی نے کہا ہے کہ حکومت اپنی مرضی کے قانون بنا کر اور نئی نئی ترامیم لا کر ووٹروں کی توہین کر رہی ہے۔ کسی فرد واحد کو بچانے کیلئے قانون سازی انوکھا کام ہے۔ قمرالزمان صاحب بھی بڑے کول طریقے سے تمام سیاستدانوں کو بلاتے رہے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب ایل این جی کے مالک ہیں۔ ان کے دور میں پی آئی اے کا جہاز غائب ہو جاتا ہے۔ اس لئے حکومت قانون کے پَرکاٹنے کے چکروں میں ہے۔ یہ ملک سے عدالت، نیب ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یا ان کی طاقت کم کر کے حلوا بنانا چاہتے ہیں۔ حکمران نہ قانون کو مانتے ہیں نہ اداروں کو صرف ایک فرد کے تحفظ کی خاطر پوری قوت صرف کی جا رہی ہے۔ قانون اس وقت کالا ہوتا ہے جب اس کا استعمال غلط ہوتا ہے۔ امریکی وزیر نے ہماری خفیہ ایجنسی کا نام لے کر الزام لگایا ہے کہ یہ دہشتگردی کی سرپرستی کر رہی ہے۔ جمہوری ملک میں پارلیمنٹ سب سے اوپر ہوتی ہے۔ لیکن ہر ادارے کا الزام ہوتا ہے نوازشریف صاحب نے فوج کو سائیڈ کر کے پہلے عدلیہ کو پکڑ لیا ہے۔ احتساب عدالتیں، انتقام کیلئے قائم کی گئیں، کیس چلتے رہے لیکن انہیں عدالتوں نے رہا بھی کر دیا۔ کراچی واقعہ کے پیچھے گروہ بھی ہو سکتا ہے۔ عام طور پر دہشت گردی کرنے والے جب اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پاتے وہ اس قسم کی حرکات سے خوف پھیلاتے ہیں۔ معروف تجزیہ کار امجد اقبال نے کہا ہے کہ نیب کے قانون کو کالا قانون قرار دینا آج کی بات نہیں۔ یہ بہت عرصے سے زیر گفتگو تھا۔ پی پی پی نے کھلم کھلا نیب کو کالا قانون کہا اور اس کی مخالفت کی۔ اپنے صوبے میں جو حشر انہوں نے کیا وہ سب جانتے ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف والوں نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ کے پی کے میں دفتر بھی بند کر دیا کوئی جماعت بھی ایسی نہیں جو نیب کے حق میں ہو۔ ہمارے اشرافیہ بشمول دینی جماعتیں احتساب کا عمل چاہتے ہی نہیں۔ نیب قانون میں ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کی ملی بھگت ہے یہ صرف ن لیگ کی کارروائی نہیں۔ کیا سینٹ میں اور پارلیمنٹ میں دوسری جماعتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا؟ ریاست کے اندر ریاست ہر گز نہیں ہونی چاہئے۔ اگر تمام ادارے درست اور بروقت کام کر رہے ہوں۔ تو کبھی بھی یہ بات نہیں ہو گی کہ ریاست کے اندر ریاست کام کر رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آج کھل کر جواب دیا ہے کہ یہاں اداروں کے درمیان کوئی ٹکراﺅ نہیں۔ ہمیں ہرگز اسے ہوا نہیں دینی چاہئے۔ تمام ادارے کام کر رہے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ مارشل لا کے متعلق تو گفتگو ہی نہیں ہونی چاہئے۔ آصف زرداری کے سارے جرم ٹھیک ہیں۔ جہانگیر ترین پر بھی کیسز کوئی نئے نہیں لیکن آج تک کسی کے خلاف فیصلہ آیا۔ خواتین پر حملے کا اثر پورے ملک میں دکھائی دیتا ہے۔ مختلف شہروں سے اس پر بات چیت آ رہی ہے۔ دنیا کے ہر علاقے میں وی آئی پیز کو پروٹوکول دیا جاتا ہے لیکن پولیس ہر گز اس سے غافل نہیں ہو سکتی ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv