عمران خان کو جھوٹ ، منفی سیاست کے موجد کے طور پر یاد رکھا جانے کا انکشاف

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ نیازی صاحب نے دھرنوں اور لاک ڈاﺅن کے ذریعے پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے خلاف گھناﺅنی سازش کی تاہم عوام نے اپنے تحاد کی طاقت سے اس سازش کو ناکام بنایا۔ باشعور عوام جھوٹ کے ماہر سیاستدان کی منفی سوچ اور انتشار پر مبنی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ بے بنیاد الزامات لگانے والے اس سیاستدان کی جماعت کو ہر الیکشن میں شکست ہوئی ہے۔ جھوٹ بولنے کا ورلڈ ریکارڈ بنانے والے سیاستدان قوم کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ نیا پاکستان بنانے کے دعویدار یہ عناصر پرانے پاکستان کو بھی بگاڑ رہے ہیں۔ سیاست دیانت اور ایمانداری کے ساتھ عوام کی خدمت کا نام ہے۔ عوام کی خدمت سے عاری سیاستدان دشنام طرازی اور جھوٹ کے ذریعے سیاست چمکانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور ملک کی ترقی کا راستہ روکنے والے نام نہاد سیاستدانوںکے چہرے قوم کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں اور باشعور عوام ملکی معیشت اور ترقی کے خلاف ہونے والی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بیان میں وزیراعلی محمد شہبازشریف نے کہاکہ محمد نوازشرےف کے دورمےں پاکستان نے بے مثال ترقی کی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوںپاکستان کی تقدیر بدلتے دیکھ کر مخالفین کو تکلیف ہو رہی ہے۔پاکستان کی ترقی مےں رکاوٹےں ڈالنے والے ملک وقوم کے خےر خواہ نہےں۔نیازی صاحب اور ان کے ٹولے کی ملک و قوم کی ترقی کا راستہ روکنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ غریب عوام خوشحالی کے راستے میں رخنہ ڈالنے پر تحریک انصاف کی قیادت کوکبھی معاف نہیں کریں گے ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ عوام کی بے لوث خدمت پاکستان مسلم لیگ (ن ) کا مشن ہے اورفلاح عامہ کے منصوبوں کے ذریعے عوام کا معیار زندگی بلند ہوا ہے اورگزشتہ چار برس کے دوران رکاوٹوں کے باوجود فلاح عامہ کے منصوبوں کوشفافےت اوررفتار کے ساتھ مکمل کےاگےا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا جےنا مرنا عوام کے ساتھ ہے اور مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی کے باعث آئندہ انتخابات میں بھی کامیاب ہو گی۔ منفی سوچ کے حامل سیاست دان عوامی خدمت کے جذبے سے عاری ہیں ۔ دھرنا پارٹی نے بار بار غریب عوام کی بدلتی قسمت کو کھوٹی کرنے کی کوشش کی۔ دھرنا پارٹی کے سربراہ کو جھوٹ، الزام تراشی اور منفی سیاست کے موجد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں ان عناصر نے ملکی مفادات کو داﺅ پر لگا یا اور ملکی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا ۔ انہوں نے کہا کہ اربوں روپے کے قرضے سیاسی بنیادوں پر معاف کرانے والوں نے غریب قوم کا حق چھینا ہے۔ غریبوں کی محنت کی کمائی پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی بھی تلاشی کا وقت آ گیا ہے۔ پارسائی کا دعویٰ کرنے والوں نے کروڑوں کے قرضے معاف کرائے ۔ نیازی صاحب کی اپنی صفوں میں قرضے ہڑپ کرنے والے شامل ہیں۔ قبضہ مافیا اور قرضے معاف کرانے والوں کو دائیں بائیں کھڑا کرکے احتساب کی باتیں کرنا قوم سے مذاق کے مترادف ہے۔یہ عناصر پاکستان کی قسمت کھوٹی کرنے کی سازش میں شریک رہے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ محمد نوازشریف کا دور خدمت، شفافیت، امانت اور دیانت سے عبارت ہے اور ان کے دور میں لگنے والے منصوبے وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے رائے ونڈ میں کرنٹ لگنے سے ایک ہی خاندان کے 3افراد کے جاں بحق ہونے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے جاں بحق ہونے والے لواحقین سے دلی ہمدردی اور اظہار تعزیت کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماں، باپ اور بیٹی کے ایک ساتھ جاں بحق ہونے کے واقعہ پر دلی دکھ ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے لودھراں میں تیزاب پلا کر خاتون کو قتل کرنے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او سے رپورٹ طلب کر لی ہے -وزیراعلی نے واقعہ میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے-وزیراعلی نے ہدایت کی کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے قانون کے تحت بلاامتیاز کارروائی کی جائے اور متاثرہ خاندان کو ہر قیمت پر انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے-

عمران سیاست سیکھیں, اتوار کی شام زرداری پر برسنے کی کیا ضرورت تھی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران میں شیخ رشید صاحب نے عمران خان کا بہت ساتھ دیا ہے۔ اگر وہ معاوضے کے طور پر انہیں وزیراعظم کی سیٹ کیلئے اپنا امیدوار بنانے کا انعام دینا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی۔ مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں اکثریت ہے۔ عمران خان کو چاہئے تھا کہ امیدوار کا نام سامنے لانے سے پہلے خورشید شاہ سے مشورہ کر لیتے۔ بھلے شیخ رشید کا نام بھی سامنے رکھ دیتے۔ تو کم از کم متحدہ اپوزیشن کے امیدوار کی کچھ عزت رہ جاتی۔ کچھ ووٹ اکٹھے ہو جاتے اور تاثر قائم ہوتا کہ اپوزیشن ایک ہے۔ لگتا ہے عمران خان نے شیخ رشید کو ذبح کروانے کیلئے ان کا نام دے دیا ہے۔ ظاہر ہے وہ ہار جائیں گے اور پی پی پی کا امیدوار بھی ہار جائے گا۔ ظاہر ہے اپوزیشن کے اندر انتشار ہے۔ عمران خان کو ایک کریڈٹ تو جاتا ہے کہ جب ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا تب بھی وہ 16 سال کا سفر تنہا ہی طے کرتے رہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ ابھی تک عملی سیاست سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ کل انہوں نے اپنی تقریر میں شہباز شریف اور خاقان عباسی کا پیچھا کرنے کا ذکر کیا اور ساتھ ساتھ زرداری کے پیچھے جانے کی بھی بات کر دی۔ اس طرح تو وہ اپوزیشن میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پی پی پی اپنے لیڈر کے بارے میں اس قسم کے الفاظ سن کر تو پاگل پن کا ثبوت نہیں دے گی کہ عمران کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گی۔ گزشتہ دنوں میں نے انہیں اپنی کتاب دیتے ہوئے جہانگیر ترین کے بارے گفتگو کرنا چاہی، میں ان سے بہت سوالات کرنا چاہتا تھا۔ لیکن موقعہ نہیں ملا۔ ضیاءالحق صاحب نے نوازشریف کو اپنا سیاسی وارث قرار دیا تھا۔ لیکن اب وہ ان کی برسی میں بھی نہیں آتے۔ سمجھ نہیں آتا۔ اعجاز الحق صاحب کے پاس ایک سیٹ ہے۔ یہ اپنے علاقوں میں جاتے بھی نہیں۔ ان کے ووٹر بھی ان سے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ ضیاءالحق سے ملاقات کے دوران اعجاز الحق کے بہنوئی صاحب نے میرا تعارف ان کے ساتھ کروایا ضیاءالحق صاحب نے محترمہ کو منع کیا تھا کہ جب تک میں حکومت میں ہوں تم پاکستان نہیں آنا۔ یہ نواز شریف صاحب کا لوٹا ہیں، نوازشریف صاحب ان پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں تو کامیاب ہو جاتے ہیں۔ نہ اس کی کوئی جماعت ہے اگر ضیاءالحق کو معلوم ہو جائے کہ ان کے بیٹے نے علیحدہ جماعت قائم کر لی ہے تو وہ ان پر خفا ہوں گے۔ اعجاز الحق واحد ایسا بیٹا دیکھا ہے کہ وفاقی وزیر بھی رہے۔ اپنے باپ کے قتل کی تحقیقات نہیں کروا سکے۔ 17 اگست کو اچانک انہیں خیال آتا ہے اور اپنے والد صاحب کے بارے نعرہ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے ایک سیاسی کزن ہوا کرتے تھے۔ ہمایوں اختر ایک مرتبہ تو وزیراعظم بنتے بنتے رہ گئے ان کے والد صاحب بھی ضیاءالحق والے حادثہ میں مارے گئے تھے۔ انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ امریکہ کے اخبار میں ایک خبر چھپی تھی تو یہ دونوں اس کو بہت لے کر پھرا کرتے تھے یہ دونوں امریکہ سے ڈرتے بھی بہت ہیں۔ کہتے تھے کہ ان کے والد کے قتل کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ امریکہ تو بہت تیز ہے اس نے تو اپنے سفیر تک کو رگڑوا دیا تھا۔ امریکہ کے سامنے ان کا منہ نہیں کھلتا۔ ویسے وزارتوں کے مزے لیتے ہیں۔ اگر اپوزیشن مشترکہ امیدوار لے کر آتی تو اس کا اچھا تاثر پڑتا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں اگر انہوں نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل ہونا چاہئے۔ بہر حال ان کی گفتگو انتہائی نازیبا تھی۔ آپ وزیراعظم آزاد کشمیر ہیں کوئی مفتی تو نہیں ہیں جو فتوے دے رہے ہیں۔ کون مسلمان ہے کون مسلمان نہیں۔ آپ کتنے بڑے مسلمان ہیں۔ اپنے وقار کو قائم رکھنا چاہئے تھا۔ فتوے دینا آپ کا کام نہیں ہے۔ ججوں کے فیصلوں پر ہم بات نہیں کرتے۔ عمران کے خلاف کیس ہے ثابت ہو تو ضرور نااہل قرار دیا جانا چاہئے۔ لیکن پانچ ججوں میں سے کسشی نے فاروق حیدر کے کان میں کہا ہے کہ ہم عمران خان کو نااہل کر دینا ہے۔ یہ بھی انتظار کر لیں۔ خوشامدیوں نے ہمارے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو ن لیگ میں واپس آنے کے لئے پَر تول رہا ہے۔ وہ سنیٹر ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ن لیگ اسے وزیرخارجہ بنا دے تو ایک منٹ میں وہ ن لیگ میں واپس آ جائے گا۔ ہمارے دین میں تو خوشامد سخت منع ہے۔ میرا خیال ہے کہ جاوید ہاشمی صاحب کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔ مجھے لوگوں نے بھی کہا ہے کہ ان کا دماغی توازن درست نہیں رہا۔ انہوں نے تحریک انصاف پر لعنت بھیجی چلو درست کیا۔ تحریک انصاف والوں نے بھی انہیں نہیں بلایا۔ جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ مجھے فوجی عدالت میں بلا لیں۔ بھلا یہ کوئی فوجی کیس ہے یا دہشت گردی کا کیس ہے فوجی عدالت کیا فیصلہ کرے گی۔ آپ نے عمران کو کیوں چھوڑا۔ برائے مہربانی جاوید ہاشمی صاحب آپ ن لیگ میں چلے جائیں۔ کوئی ٹوٹی پھوٹی وزارت ان کو دے دیں۔ ان کی آخری عمر میں جھنڈے والی گاڑی عنایت کی جائے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کو حق حاصل ہے وہ جس سیاسی قائد کے خلاف چاہیں بیان بازی کریں۔ ان کی اپنی سیاسی جماعت ہے۔ ان کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ لیکن وہ بتائیں ابھی تو ایک ہی پاکستان موجود ہے۔ عمران خان کا پاکستان کہاں سے آ گیا۔ ابھی تو الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کامیاب ہے۔ مسلم لیگ (ن) ایک بڑی سیاسی جماعت ہے ان کو ہرانا اتنا آسان نہیں ایک فیصد اگر الیکشن میں عمران خان کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کیا آزاد کشمیر کے صدر یا وزیراعظم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرے کہ اسے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ سربراہ مسلم لیگ (ض) اعجاز الحق نے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہماری وزیراعظم کا انتخاب یکطرفہ ہو گا کیونکہ اپوزیشن ایک متحدہ محاذ ہی بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ عمران خان پارلیمنٹ میں آنا پسند ہی نہیں کرتے۔ وہ کتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے باہر اسٹیج لگا ہو۔ وہ دھرنے کے لئے یا لاک ڈاﺅن کے لئے ہو خورشید شاہ صاحب نے بظاہر نرم اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا۔ یہ موقع تھا کہ عمران خان ان سے مل کر مشترکہ امیدوار سامنے لاتے۔ پی ٹی آئی کے اندر کوئی بھی شخص ایسا انہیں نہیں ملا جو ان کا امیدوار بن سکتا۔ پی ٹی آئی کے اندر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو وزیراعظم بننے کے خواہش مند ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور نوید قمر دوست ہیں اور وہ روم میٹ بھی تھے۔ لیکن ایک دوسرے کے خلاف اب امیدوار بنے ہیں۔ احتساب اب رکنا نہیں چاہئے۔ اس کا فوکس ایک شخص یا ایک جماعت پر نہیں ہونا چاہئے این آر او پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دھبہ تھا۔ محترم ججوں کے ساتھ معذرت جن ججوں نے میاں صاحب کو نااہل کیا تو انہیں این آر او کو کالعدم قرار دینے کے بعد اس سے مستفید ہونے والے افراد کو بھی پکڑنا چاہئے تھا۔ سرے محل کے 60 ملین ڈالر تک تو ہماری رسائی ہو چکی تھی۔ بیورو چیف آزاد کشمیر (مظفر آباد) مسعود عباسی نے کہا ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مجھے بتائیں میں کس ملک کے ساتھ الحاق کروں۔ جب ان سے وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے کہا ہے کہ ”قائداعظم“ کا پاکستان یا ”عمران خان“ کا پاکستان۔ان کی کانفرنس کے بعد سیاسی قائدین نے انہیں بہت لتاڑا ہے کہ آپ نے یہ کیا بات کہہ دی ہے۔ ہم پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، کشمیریوں کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہیں۔ ہم ووٹ بھی اسی بناءپر لیتے ہیں کہ پاکستان کے سوا ہماری کوئی منزل نہیں ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر میں بھی سیاسی بھونچال پیدا ہو چکا ہے۔ سیاسی قائدین اس وقت سراپا احتجاج ہیں۔ سیاسی قائدین کی رائے ہے کہ انہیں قوم سے معافی مانگتے ہوئے فوراً استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ تحریک انصاف اور پی پی پی نے آزاد کشمیر میں احتجاج کی کال دے دی ہے صوبوں میں بھی اسمبلیوں میں تحریک التواءجمع کروا دی گئی ہیں۔