تازہ تر ین

”یہ ہے نیا پاکستان “, 52ارب کی مالی بدعنوانیوں سے ساکھ کو بڑا دھچکہ

پشاور (خصوصی رپورٹ) خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے احتساب‘ کرپشن اور انصاف کے حوالے سے ابتداءمیں بلندوبانگ دعوﺅں کا سلسلہ شروع کردیا تھا‘ لیکن صوبے میں افسران کی تقرریاں و تبادلے‘ سرکاری محکموں میں بھرتی‘ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت نے سابقہ حکومتوں کی روایات کو برقرار رکھا ہے۔ سال 2015ءمیں جب اخبارات میں اے این پی کی صوبائی حکومت کی آڈٹ رپورٹ برائے مالی سال 2012-13ءکے حوالے سے خبریں شائع ہوئیں‘ جس میں 45ارب روپے کی بے قاعدگیوں اور کرپشن کی نشاندہی کی گئی تھی تو اس وقت صوبائی اسمبلی کے ایک اجلاس میں صوبائی وزیر اطلاعات و پبلک ہیلتھ فرمان شاہ نے اس رپوٹ پر اے این پی کی حکومت پر شدید تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس رپورٹ کی بنیاد پر کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن گزشتہ سال 2016ءمیں جب آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے تحریک انصاف کی موجودہ اتحادی حکومت کے مالی سال 2013-14ءاور 2014-15ءکی آڈٹ رپورٹس کارروائی کیلئے فنانس ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیں تو صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کے ہوش ٹھکانے آ گئے کیونکہ ان آڈٹ رپورٹس میں تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی برس میں صوبے کے سرکاری محکموں میں ہونے والی اربوں روپے کی مالی بدعنوانیوں‘ بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس کو چھپانے کیلئے صوبائی حکومت نے فنانس ڈیپارٹمنٹ پر دباﺅ ڈالا کہ وہ فوری طور پر ان آڈٹ رپورٹس کو صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کو چھان بین کیلئے ارسال نہ کریں اور یوں یہ رپورٹس گزشتہ ایک سال سے فنانس ڈیپارٹمنٹ کی الماریوں میں پڑی رہیں‘ جس کے بعد پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی سب کمیٹی کے ارکان کے احتجاج پر سال 2013-14ءاور 2014-15ءکی آڈٹ رپورٹس پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کو فنانس ڈیپارٹمنٹ میں بھجوا دی گئیں۔ ان رپورٹس میں تحریک انصاف کے دور حکومت کے پہلے دو برسوں کے دوران مجموعی طور پر صوبے کے سرکاری محکموں اور اداروں میں 52ارب روپے کی مالی بدعنوانیوں‘ بے قاعدگیوں اور خوردبرد کی نشاندہی کی گئی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے تیارکردہ مالی سال 2013-14ءکے دوران خیبر پختونخوا کے سرکاری محکموں اور اداروں میں 17ارب روپے سے زائد کی مالی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسی طرح آڈیٹر جنرل کی رپورٹ مالی سال 2014-15ءمیں پبلک سیکٹرز کے اداروں کی آڈٹ رپورٹ میں 7ارب 98کروڑ روپے سے زائد کی مالی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے تیارکردہ رپورٹ کے مطابق سال 2014-15ءکے دوران سب سے زیادہ مالی بے قاعدگیاں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو میں رپورٹ ہوئی ہیں جن کی مالیت 6ارب 85کروڑ روپے ہے جبکہ دوسرے نمبر پر 5ارب 98کروڑ روپے سے زائد کی مالی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف انرجی اینڈ پاور ڈیپارمنٹ میں ہوا ہے۔ اسی طرح آڈٹ رپورٹس میں امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کی جانب سے مالاکنڈ ڈویژن کی تعمیر نو و بحالی کیلئے دی جانے والی امداد میں سے ایک ارب دس کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔ جس میں دو کروڑ پچاس لاکھ روپے ملبہ ہٹانے کیلئے اضافی اور غیر ضروری طور پر دیئے گئے ہیں۔ آڈٹ رپورٹس کے مطابق فنانس ڈیپارٹمنٹ میں بجٹ خرچ نہ کرنے پر چار ارب روپے سے زائد، محکمہ خوراک میں تین ارب 87 کروڑ روپے، محکمہ ہاﺅسنگ میں 77 کروڑ 20لاکھ روپے، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں 19کروڑ 70 لاکھ روپے، محکمہ داخلہ و قبائلی امور میں 23کروڑ 10 لاکھ روپے، محکمہ آبپاشی میں چھ کروڑ 80لاکھ روپے، منرل ڈیپارٹمنٹ میں پانچ کروڑ چالیس لاکھ روپے، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں تین کروڑ ستر لاکھ روپے، پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں 34 کروڑ 70 لاکھ روپے، ڈائریکٹر آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں 26 کروڑ ستر لاکھ روپے اور ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی مالی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے بٹگرام میں واٹر سپلائی سکیم کے نام پر 8 کروڑ 60لاکھ روپے نکالے تاہم آڈٹ کے دوران آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے کی واٹر سپلائی سکیم کے نام پر آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے نکالے، تاہم آڈٹ کے دوران آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے کی واٹر سپلائی سکیم غیر فعال پائی گئی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی خیبر پختون کے سرکاری محکموں کی آڈٹ رپورٹ میں 48 کروڑ 59 لاکھ روپے کے اضافی اخراجات کا ایک کیس، مالی بیلنس میں ایک ارب چار کروڑ کا ایک کیس، دو کروڑ 55 لاکھ کی مشکوک ادائیگیوں کے آٹھ کیس، پندرہ کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے کے اضافی اخراجات کے سات کیس، 55 کروڑ 94 لاکھ روپے کے غیر ضروری اخراجات کے گیارہ کیس، پانچ ارب سترہ کروڑ روپے کے مالی نقصان کے 59 کیس، 22 کروڑ 77 لاکھ روپے کے فنڈز کے غیرضروری ردوبدل کے آٹھ کیس، دو کروڑ 84 لاکھ روپے کے سرکاری فنڈ کو ڈیپازٹ نہ کرنے کے 3 کیسوں، ایک کروڑ 38 لاکھ روپے کے نان پے منٹ کے دو کیس،76 کروڑ 15لاکھ روپے کے ریکارڈ نہ پیش کرنے کے سات کیس،38 کروڑ 71 لاکھ روپے کی ریکوری نہ کرنے کے 13کیس، 6کروڑ 12لاکھ روپے کے فنڈز کی نان ایڈجسٹمنٹ کے دو کیس، 2کروڑ71 لاکھ روپے کے اوور پے منٹ کے بارہ کیس، چار کروڑ 50 لاکھ روپے کے مشکوک اخراجات کے پانچ کیسوں، آٹھ ارب 64 کروڑ روپے کے غیر مجاز اخراجات کے 23 کیس، 9کروڑ 71 لاکھ روپے غیر منصفانہ اخراجات کے چھ کیس اور 9کروڑ 43 لاکھ روپے کے غیر ضروری اخراجات کے دو کیسوں کی نشاندہی کی گئی۔ ذرائع کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں صوبائی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی پر بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل کی جانب سے اربوں روپے کی مالی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرنے کے باوجود پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی، ذمہ دار افسران اور محکموں سے رقم وصول کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ کئی صوبائی محکمے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کو ریکارڈ بھی فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح صوبائی سرکاری محکمے مالی بے قاعدگیوں پر قابو پانے میں ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv